دستور میں لفظ سیکولرازم برداشت نہیں
پرینکا کی انٹری … بی جے پی میں کھلبلی
رشیدالدین
’’کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہندوستان سیکولر رہے‘‘ سپریم کورٹ کے جسٹس سنجیو کھنہ نے بظاہر یہ سوال درخواست گزاروں سے کورٹ ہال میں کیا لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں یہ سوال بی جے پی اور سنگھ پریوار سے ہے۔ جسٹس سنجیو کھنہ کا سوال جارحانہ فرقہ پرستی کے ہر نمائندے سے ہے جن کے لئے لفظ سیکولرازم گزشتہ کئی برسوں سے کھٹک رہا ہے ۔ دستور ہند میں تبدیلی اور سیکولرازم و سوشیلزم کے الفاظ حذف کرنے کے حق میں بیان بازی عروج پر ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ نے یہ سوال کرتے ہوئے نفرت کے سوداگروں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے ۔ مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد سے دستور میں تبدیلی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں تاکہ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار ہوجائے۔ عام شہری بھی بی جے پی اور سنگھ پریوار سے یہی پوچھ رہا ہے کہ کیا ہندوستان کو سیکولر دیکھنا نہیں چاہتے ؟ اس سوال کا آج تک کوئی جواب نہیں ملا اور آخر کار سپریم کورٹ نے عوام کی آواز بن کر یہ سوال کردیا۔ دستور ہند سے لفظ سیکولر اور سوشلزم کو حذف کرنے کی درخواست کے ساتھ سبرامنیم سوامی اور بعض دوسرے زعفرانی ذہنیت رکھنے والے سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے ۔ سبرامنیم سوامی مخالف اسلام اور مخالف مسلم سرگرمیوں کیلئے کوئی محتاج تعارف نہیں ہیں۔ شریعت کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھانے والے سبرامنیم سوامی نے مسلمانوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا ۔ سبرامنیم سوامی دراصل سنگھ پریوار کا مخالف مسلم چہرہ ہے اور ان کی ساری توانائیاں مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں میں صرف ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیکولرازم اور سوشیلزم کے الفاظ دستور کی تیاری کے وقت شامل نہیں کئے گئے تھے بلکہ بعد میں شامل کئے گئے ۔ 26 نومبر 1949 کو دستور ہند کو منظوری دی گئی جبکہ 1976 میں 42 ویں ترمیم کے ذریعہ سیکولرازم اور سوشیلزم کے الفاظ شامل کئے گئے ۔ ترمیم کے وقت دونوں الفاظ کو استقدامی اثر یعنی 1949 سے نفاذ تصور کیا گیا ۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار نے درخواست گزاروں کی نیت کو بھانپ لیا اور پوچھا کہ آخر وہ کونسا ہندوستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ سیکولر یا سیکولرازم کے بغیر ؟ ججس نے واضح کردیا کہ سیکولرازم اور سوشیلزم دستور کا اٹوٹ حصہ ہیں اور اسے دستور کی بنیادی روح سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ نے یہ ثابت کردیا کہ وہ حقیقی معنوں میں دستور اور قانون کا محافظ ہے۔ جب کبھی دستور کو خطرہ لاحق ہوا ، سپریم کورٹ نے اس کا تحفظ کرتے ہوئے اپنی بالادستی کو برقرار رکھا۔ دراصل فرقہ پرستوں کو یہ بات کھٹک رہی ہے کہ آنجہانی اندرا گاندھی کے دور میں دستور میں ان الفاظ کو شامل کیا گیا۔ ہندو راشٹر کی تشکیل میں یہ الفاظ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ مودی حکومت کے 10 برسوں میں ہندو راشٹر کی سمت پیش قدمی کی گئی لیکن 2024 میں عوام نے بی جے پی کو اکثریت سے محروم کرتے ہوئے پیام دیا کہ ہندوستان کبھی بھی ہندو راشٹر نہیں بن سکتا ۔ ملک کے خمیر میں سیکولرازم اور سوشیلزم ہے اور مٹھی بھر نفرت کے سوداگر اس روایت کو ختم نہیں کرسکتے ۔ دستور سازوں نے جس وقت دستور کو منظوری دی ، انہیں یقین تھا کہ ملک سیکولرا اقدار پر قائم رہے گا۔ انہیں آنے والے فرقہ پرستی کے طوفان کا اندازہ نہیں تھا ۔ آنجہانی اندرا گاندھی نے اس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے سیکولرازم اور سوشیلزم کو دستور ہند کا لازمی جز بنادیا تاکہ فرقہ پرست طاقتوں کے عزائم کامیاب نہ ہوسکیں۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے ملک کو فرقہ پرستوں کے چنگل میں جانے سے بچالیا۔ اگر دستور سے سیکولرازم اور سوشیلزم کے الفاظ حذف کردیئے جائیں تو ہندو راشٹر کے قیام کا معاملہ آسان ہوجائے گا۔ دستور میں یہ الفاظ شامل ہیں تو فرقہ پرستی اور مذہبی جنون ہے ۔ اگر الفاظ شامل نہ ہوتے تو پتہ نہیں کیا گل کھلائے جا تے ۔ مودی حکومت کی سرپرستی میں دستور اور قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔ قانون اور دستور کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہے ۔ اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھے افراد مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ہندوستان کے ہندوؤں کی اکثریت سیکولرازم پر ایقان رکھتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ مودی کو تیسری مرتبہ اقتدار ضرور ملا لیکن وہ اکثریت سے محروم ہوگئے۔ اگر تیسری میعاد میں واضح اکثریت حاصل ہوجاتی تو دستور کو تبدیل کرتے ہوئے ہندو راشٹر کے الفاظ شامل کردیئے جاتے۔ مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ مقامی شریعت قوانین کے ذریعہ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاری ہے ۔ مسلمانوں کی مآب لنچنگ کے ذریعہ حوصلے پست کرنے کی کوشش اور عبادتگاہوں پر بلڈوزر کا مطلب صاف ہے کہ ملک میں مسلمانوں کو دوسرے درجہ کے شہری بن کر اکثریتی طبقہ کے احسان تلے دب کر زندگی بسر کرنی ہوگی۔ عبادتگاہوں اور مزارات پر دعویداری ختم کرنے کیلئے وقف ترمیمی بل 2024 تیار کیا گیا۔ بل کی منظوری کے بعد کوئی بھی شخص کسی مسجد یا درگاہ کے مندر ہونے کا دعویٰ پیش کردے گا اور ضلع کلکٹر کو مکمل اختیار رہے گا کہ وہ مسجد یا مندر کے وجود کا فیصلہ کریں۔ وقف ترمیمی بل دراصل مسلمانوں کو ان کے اباء و اجداد کی وقف جائیدادوں سے محروم کرنے کی سازش ہے۔
لوک سبھا چناؤ کی شکست سے بی جے پی ابھر نہیں پائی تھی کہ پرینکا گاندھی کی الیکشن انٹری نے بی جے پی میں کھلبلی پیدا کردی ہے۔ بی جے پی کیلئے راہول گاندھی کا مقابلہ کرنا آسان دکھائی دے رہا تھا اور کانگریس میں عوامی مقبول قائدین کی کمی کے نتیجہ میں راہول گاندھی پر فرقہ پرست طاقتوں سے مقابلہ کی دوہری ذمہ داری عائد ہوچکی تھی ۔ پرینکا گاندھی نے کیرالا کے وائنارڈ لوک سبھا حلقہ سے پرچہ نامزدگی داخل کرتے ہوئے ملک میں بی جے پی کے زوال کے آغاز کی سند پر دستخط کئے ہیں۔ سیاست میں پرینکا گاندھی تقریباً 35 سال کا تجربہ رکھتی ہیں ،انہوں نے اپنے والد آنجہانی راجیو گاندھی کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا ۔ وہ اپنی والدہ سونیا گاندھی اور بھائی راہول گاندھی کی انتخابی مہم کی کمان سنبھال چکی ہیں۔ کانگریس قائدین بھلے ہی کھل کر اعتراف نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہیکہ 2024 لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کے بہتر مظاہرہ میں پرینکا گاندھی کی مہم کا غیر معمولی اثر رہا۔ کانگریس ہائی کمان نے کیرالا کے وائنارڈ لوک سبھا حلقہ سے پرینکا گاندھی کو ٹکٹ دے کر دور رس نتائج کا حامل فیصلہ کیا ہے ۔ جس دن پرینکا گاندھی کی امیدواری کا اعلان کیا گیا ، اسی دن سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے حلقوں میں یہ بحث چھڑگئی ہے کہ راہول گاندھی سے مقابلہ آسان تھا لیکن اب اندرا گاندھی کی شبیہہ یعنی پرینکا گاندھی سے مقابلہ آسان نہیں رہے گا۔ ملک کے عوام بالخصوص خواتین پرینکا گاندھی کو اندرا گاندھی کے اوتار کی شکل میں دیکھتی ہیں۔ پرینکا گاندھی نے لوک سبھا انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے ملک میں سیکولر طاقتوں کو مضبوطی دی ہے۔ کانگریس پارٹی میں قیادت کا بحران تھا اور راہول گاندھی کے علاوہ قومی سطح پر ایسے قائدین کی کمی شدت سے محسوس کیا جارہی تھی جو عوامی مقبول ہیں۔ پرینکا گاندھی کے انتخابی سیاست میں داخلہ سے ملک میں کانگریس کی بہار کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ایک طرف راہول گاندھی کو پارلیمنٹ میں پرینکا گاندھی کی شکل میں ایک مضبوط سہارا ملے گا تو دوسری طرف انڈیا الائنس میں شامل حلیف پارٹیوں کے حوصلے بلند ہوں گے ۔ وائنارڈ سے پرینکا گاندھی کا بھاری اکثریت سے منتخب ہونا طئے ہے اور پارلیمنٹ میں داخلہ کے بعد آنجہانی اندرا گاندھی کی یاد تازہ ہوجائے گی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اپوزیشن کے لئے بی جے پی پر منفرد انداز میں حملہ کرنے کا فن راہول گاندھی سے زیادہ پرینکا گاندھی جانتی ہیں۔ لوک سبھا میں راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی اور راجیہ سبھا میں سونیا گاندھی اور ملکارجن کھرگے حکومت کے لئے چیلنج بن سکتے ہیں۔ کانگریس نے پرینکا گاندھی کی سیاسی انٹری کا صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کیا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ وائنارڈ سے منتخب ہونے کے بعد پرینکا گاندھی ملک بھر میں فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف مہم کا آغاز کریں گی۔ آر ایس ایس میں اس بات کو لے کر بحث شروع ہوچکی ہے کہ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی سے نریندر مودی کس حد تک مقابلہ کرپائیں گے کیونکہ وہ ایک طرف طبعی عمر کو پہنچ چکے ہیں تو دوسری طرف ان کی مقبولیت کا گراف گھٹنے لگا ہے۔ مودی میجک کے اثرات کسی بھی الیکشن میں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ایسے میں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کو پرینکا گاندھی کے جادو کو روکنے کیلئے عوامی مقبول قائد کی تلاش ہے۔ جوہر کانپوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہمیں اٹھیں گے تب نکلے گا دم فرقہ پرستی کا
یہ کام انسانیت کا ہے حکومت سے نہیں ہوگا