جے این یو میںایم ایس سی بائیو ٹکنالوجی سال اول کے طالب علم نجیب احمد تین سال سے لاپتہ ہیں‘ تلاش میںسی بی آئی بھی ناکام !
پچھلے تین سال سے ایک ماں اپنے لاپتہ بیٹے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھارہی ہے‘ اس کی فریاد سننے والا کوئی نہیںہے ‘پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹتے اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے کھٹکھٹاتے ہوئے اپنی اولاد کے لئے جمع کی ہوئی پونچی بھی خرچ ہوگئی‘ تین سال کا طویل عرصہ گذر جانے کے بعد بھی نہ تو بیٹے کا کوئی پتہ چلا او رنہ ہی اس کی کوئی اطلاع اب تک موصول ہوئی ہے ‘ عدالت کے حکم پر سی بی ائی نے تحقیقات کی اور وہ بھی لاپتہ بیٹے کی تلاش میںناکام ہوگئی اوراس کیس کی فائل ہی بند کردی ‘ مگر ماں تو ماں ہوتی ہے ‘ اس نے ہمت نہیںہاری اور نہ حوصلہ کھویا ہے ‘ آج بھی وہ پرعزم ہے کہ وہ اپنے لال کی تلاش کو جاری رکھے گی اور وہ اپنے بیٹے کی تلاش کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے سے بھی گریز نہیںکریںگی۔ حالانکہ ان تین سالو ں میںہندوستان بھر میںگھوم گھوم کر اس ماں نے اپنی داستان سنائی ہے ‘ عمر کے اس حصہ میں اپنے نوجوان بیٹے کی گمشدگی نے اس ماں پر مصیبتوں کا پہاڑ گرادیا ہے۔ جس بیٹے سے اپنے بڑھاپے کا سہارا بننے کی امید لگائی تھی ‘ وہی فرقہ پرستی ‘ شدت پسندی اور فرقہ وارانہ نفرت کا شکار ہوگیااور اچانک راتوں رات ایسا غائب ہوا ہے کہ تین سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اس کی کوئی جانکاری نہیںہے۔زیابیطس کا شکار ہونے کے بعد بھی اس ماں کے حوصلے میںکمی نہیںآئی ۔ اپنے بیٹے کی گمشدگی کا بوجھ تین سال سے لئے ملک کے کونے کونے میںجاکر انصاف کی اپنی اس لڑائی میں سب کو ساتھ آنے کی دعوت دینے والی کوئی اور نہیں فاطمہ نفیس ہیں‘ جس کا بیٹا تین سال قبل جواہرلا ل نہرو یونیورسٹی کیمپس سے 15اکٹوبر کے روز غائب ہوگیا اور آج تک اس کی تلاش جاری ہے۔ سی بی آئی جس کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ ہر کیس کو بڑی آسانی سے سلجھا لیتی ہے وہ بھی فاطمہ نفیس کے بیٹے کوتلاش کرنے میںناکام ہوگئی او راس کیس کو بند کرنے عدالت میںدرخواست پیش کی ۔دراصل ا س کی شروعات کچھ اس طرح ہوئی جب نجیب احمد نامی ایک نوجوان جو جواہرلال نہرو یونیورسٹی‘ نئی دہلی میں ایم ایس سی بائیو ٹکنالوجی سال اول کی تعلیم حاصل کررہا تھا ‘اچانک15اکٹوبر 2016کے روز مشتبہ حالات میں یونیورسٹی کیمپس سے لاپتہ ہوگیاتھا۔ ایک دن قبل کسی وجہہ سے نجیب احمد اور اے بی وی پی کارکنوں کے درمیان جھڑپ کاواقعہ پیش بھی پیش آیاتھا اور نجیب کے لاپتہ ہونے میںاے بی وی پی کے کارکنوں کے شامل ہونے کی باتیں آج بھی کی جاتی ہیں مگر نہ تو یونیورسٹی انتظامیہ نے او رنہ ہی پولیس نے اس جانب توجہہ دی اور اے بی وی پی کے ان کارکنوں سے تفتیش کی جن کے نام نجیب کے ساتھ ہونے والی مبینہ جھڑپ میںلئے جارہے ہیں۔نجیب کی گمشدگی آج بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ دہلی کی وہ پولیس جس کے کارنامے نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک میںبھی مشہور ہیں ‘ بڑے بڑے انکاونٹرس‘ نامی گرامی بدمعاشوں کی پکڑ دھکڑ راجدھانی دہلی کو کسی بھی ناگہانی واقعہ سے بچانے کے دعوے اور نہ جانے کتنے ایسے اعزازت اس کے سر ہیں مگر وہ بھی نجیب احمد کو تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ نجیب کے گمشدہ ہونے کے ساتھ مختلف قسم کی افواہیںبھی سوشیل میڈیا پر گشت کرنے لگیں ‘ یہاں تک کہ نجیب کے دہشت گرد تنظیم میںشامل ہونے کے دعوے بھی کئے جانے لگے ‘ فرقہ پرست طاقتوں کی ٹرول ٹیم نے سوشیل میڈیا پر نجیب کی تصویر پر مشتمل ویڈیو بھی وائیرل کرنا شروع کردیا مگر بہت جلد سچائی سامنے ائی کہ نجیب لاپتہ ہے اور اس نے کسی دہشت گرد تنظیم میںشمولیت اختیار نہیں کی ۔
دہلی کی عدالت میںتین سال سے گمشدہ نجیب احمد کی ماں فاطمہ نفیس نے اپنی بیٹے کی تلاش میںدہلی پولیس کی ناکامی پر گوہار لگاتے ہوئے مطالبہ کیاکہ وہ نجیب احمد کی تلاش سی بی ائی سے کرائے۔ سی بی آئی یعنی سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن جس کے نام سے آج کی تاریخ میں بڑے بڑے لوگ کانپ رہے ہیں‘ ہائی پروفائیل معاملات کی جانچ سی بی ائی کررہی ہے ‘ جس ریاست میںبھی اسمبلی انتخابات ہوتے ہیںوہاں پر سی بی ائی کی جانچ یقینی ہوگئی ہے۔ملک کے کونے کونے میں سی بی ائی کا بول بالا ہے اور ملک کی اپوزیشن جماعتیں تو یہاں تک کہنے پر مجبور ہوگئی ہیں کہ حکمران جماعت یعنی بی جے پی سی بی ائی کو اپوزیشن کی آواز دبانے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ خیرمعاملہ کی جانچ سی بی ائی سے کرانے کی عدالت سے ہدایت ملنے کے بعد سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن نے اپنی جانچ شروع کی ‘ اس نے بدایوں میںرہنے والے نجیب کے گھر والوں ‘ رشتہ داروں‘ دوست احباب کے علاوہ فاطمہ نفیس سے ملاقات کرنے کے لئے آنے والوں سے تک پوچھ تاچھ کرلی مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ جن اے بی وی پی کارکنوں پر نجیب سے مارپیٹ کرنے کا الزام عائد کیاگیا ہے ‘ ان سے کسی قسم کی پوچھ تاچھ نہیں کی گئی ۔طویل جانچ ‘ تحقیقات اور تفتیش کے بعد سی بی ائی نے 2018میں ہی عدالت میںنجیب کا کیس بند کرتے ہوئے ایک کلوژررپورٹ پیش کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیدیا ہے۔ نجیب احمد ایک 27سال کا نوجوان پچھلے تین سالوں سے لاپتہ ہے اور آخر وہ گیاکہاں اس بات کی جانچ میں ملک کی سب سے بڑی تحقیقاتی ایجنسی ناکام ہوگئی ۔ پچھلے دوماہ سے کلوژر رپورٹ میں دو ہزار کے قریب دستاویزات ہیںاور نجیب احمد کے فون لوکیشن کی تفصیلات بھی اس میںشامل ہیں‘ مگر نہ تو سی بی ائی او رنہ ہی کسی اور نے اب تک اس کا خلاصہ کیا ہے۔ کلوژر رپورٹ داخل کرنے کے بعد سے نجیب احمد کی والدہ فاطمہ نفیس عدالت سے رپورٹ مانگ رہی ہیںاور انہوں نے قانونی طریقے کا ر کو اپناتے ہوئے عدالت میں کلوژ ر رپورٹ کے دستاویزات کی کاپیاں مانگی ‘ جس کو دینے سے پہلے تو انکار کیاگیا مگر 16اکٹوبر کے روز یعنی نجیب کے گمشدہ ہونے کے ایک روز بعد عدالت نے رپورٹ میںموجود دستاویزات دینے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ فاطمہ نفیس سے جب بات کی گئی تو انہو ںنے کہاکہ 15اکٹوبر2019کے روز یعنی نجیب احمد کے لاپتہ ہونے کے تین سال کی تکمیل پر ایک احتجاجی پروگرام کا انعقاد عمل میںلانے کی تیاری کی گئی تھی جس میں مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ کے گھر تک مار چ اور یادواشت کی پیشکش شامل تھی مگر میںنے اس پروگرام کومنسوخ کروادیا کیونکہ ‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے بشمول ملک بھر سے لوگ اس احتجاجی پروگرام میں شامل ہونے کے لئے تیار ہوگئے تھے مگر میںنہیںچاہتی تھی کہ وہ پولیس کی بربریت کاشکار بنیں کیونکہ وہ مجھ سے اظہار یگانگت کے لئے آرہے تھے اور نجیب کی چاہت میںپولیس کی لاٹھیاں ان پر برستی لہذا ہم نے فیصلہ کیاکہ جنتر منتر پر
احتجاجی دھرنا منظم کریں اور اس کے لئے نجیب احمد کے لاپتہ ہونے والی تاریخ یعنی15اکٹوبر کاتعین کیاگیا ۔ اس پروگرام کے لئے جب ہم شعور بیداری کے مقصد سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس جارہے تھے تو ہمیں یونیورسٹی میںداخل ہونے نہیں دیا گیا۔ رکاوٹوں کا مقصد نوجوانوں کو ہمارے اس احتجاج کی حمایت کرنے سے روکنا اور ہمارے پروگرام کو ناکام بنانا تھا ۔ انہوں نے کہاکہ یونیورسٹیوں میںفرقہ پرست ذہنیت کے لوگوں کو لاکر بیٹھا دیاگیا ہے جو اپنا ایجنڈہ نافذ کرنے کے سوا کچھ نہیںسوچ رہے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کو بھگوا رنگ دینے کاکام کیاجارہا ہے ‘ مخالفت کی آوازیںروکنے کے لئے 8‘9‘10ویں جماعت کے طلبہ پر سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔ملک کا نظام پوری طرح درہم برہم ہوگیاہے۔ فاطمہ نفیس نے کہاکہ ہمار ے نوجوانوں سے پکوڑبیچنے کی سفارش کی جاتی ہے اور اپنے بچو ں کو بی سی سی ائی کی ذمہ داریاں تفویض کی جارہی ہے۔ پچاس ہزار روپئے سے سولہا مہینوں میں80کروڑ کی کمائی آپ کے بچے کریںاور ہمارے بچے ڈگریاں لے کر بے روزگاری کا شکار ہوں۔ انہوں نے مزید کہاکہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اگر یونیورسٹی میںداخل لیں تو انہیںڈراکر ‘ دھمکاکر ‘ روپوش کردیاجاتا ہے۔فاطمہ نفیس نے کہاکہ انہوں نے ہمت نہیںہاری اور ایس ائی او کے ساتھ ملکر دہلی کے جنتر منتر پر احتجاجی دھرنا منظم کیاجس میںگوری لنکیش کی بہن کویتا لنکیش‘ تبریز انصاری کی اہلیہ شائستہ پروین نے بھی شرکت کرتے ہوئے ہمارے اس احتجاج کو کامیاب بنایا۔انہوںنے کہاکہ کلوژ ر رپورٹ کی کاپیاں ہاتھ کو ملنے کے فوری بعد وہ سپریم کورٹ کادروازہ کھٹکھٹائیں گی اور گوہار لگائیں گی کہ نجیب احمد کی گمشدگی کے کیس کی دوبارہ سنوائی کریں اور میرا بیٹا مجھے واپس لوٹائیں۔انہوںنے کہاکہ میںاپنی آخری سانس تک نجیب کی تلاش کوجاری رکھوں گی ۔ حالانکہ وسائل کی کمی ہے ‘ جو سرمایہ اولا د کی تعلیم کے لئے رکھا تھا وہ بھی پوری طرح خرچ ہوگیا ہے مگر اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے کہ میںاپنی جدوجہد کو بیٹے کی بازیابی تک جاری رکھ سکوں گی ۔حالانکہ دہلی حکومت نے پانچ لاکھ روپئے کی دہلی وقف بورڈسے مدد کی ہے جو ناکافی ہے اور میرے بیٹے کو محکمہ اوقاف بورڈ میںملازمت فراہم کی جس کے لئے میںدہلی حکومت بالخصوص دہلی وقف بورڈی کی شکر گذارہوں مگر جو اخراجات پچھلے تین سالوں میںبرداشت کئے ہیںیہ پانچ لاکھ روپئے اس کی بھرپائی میںناکافی ہیں۔
اسی کا شہر ‘ وہی مدعی ‘ وہی منصف
ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا
