ہم آئینہ ہیں دکھائیں گے داغ چہروں کے

,

   

مودی ۔ایونٹ مینجر … یوکرین طلبہ کے نام پر ووٹ
یو پی میں کانٹے کی ٹکر … بی جے پی پر ممتا کا وار

رشیدالدین
خوشی کا معاملہ ہو یا غم کا ایونٹ میں تبدیل کرنا کوئی نریندر مودی سے سیکھے۔ شائد اسی خوبی کو دیکھنے کے بعد ایل کے اڈوانی کو کہنا پڑا کہ مودی حکومت ایونٹ مینجرس سے بھری پڑی ہے۔ نریندر مودی کو گجرات سے اٹھاکر وزارت عظمیٰ تک پہنچانے والے اڈوانی اپنے شاگرد کی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور مودی نے اپنے گرو کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا ۔ خیر بات ایونٹ مینجرس کی ہورہی تھی۔ گزشتہ 8 برسوں میں نریندر مودی نے ہندوستان اور اس کے باہر شہرت اور نام و نمود کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ تازہ ترین معاملہ یوکرین کا ہے جہاں روس کے حملہ کے بعد ہزاروں ہندوستانی طلبہ پریشان حال ہیں اور ہر نئی صبح ان کے لئے نئی زندگی سے کم نہیں۔ وقفہ وقفہ سے بمباری اور دھماکوں کی آواز کے درمیان ہندوستانی طلبہ جان ہتھیلی پر رکھ کر بحفاظت واپسی کیلئے ہندوستانی مدد کے منتظر ہیں۔ افسوس کہ حکومت نے ہندوستانیوں کی واپسی کے لئے آج تک بھی کوئی ٹھوس منصوبہ تیار نہیں کیا اور طلبہ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ۔ کیا ہندوستان اس قدر کنگال اور غریب ہوچکا ہے کہ اپنے بچوں کی مفت واپسی کا انتظام نہ کرسکے۔ طلبہ سے ٹکٹ کیلئے زائد رقم وصول کی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں صرف استطاعت رکھنے والے طلبہ ہی اخراجات برداشت کرنے کے موقف میں ہیں جبکہ ہزاروں طلبہ کھانے اور پینے کے بغیر بنکرس اور کھلے میدانوں میں منفی – 5 ڈگری سردی میں حکومت سے رحم کی درخواست کر رہے ہیں۔ اس مرحلہ پر کہنا پڑتا ہے کہ اولاد کی تڑپ اور بے چینی کو وہی جانتا ہے جو صاحب اولاد ہو۔ جو شخص گھر گرہستی کے تجربہ سے نابلد ہو ، جس کے پاس بیوی اور بچوں کا تصور اور تعلق ہی نہ ہو وہ اولاد کی جدائی اور دوری کو محسوس کیسے کرے گا۔ ماں باپ بچپن سے راتوں کو جاگ کر اولاد کو چین کی نیند سلاتے ہیں اور وہی بچے جب جنگ میں پھنس جائیں تو ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت تڑپ اٹھتی ہے ۔ مودی کی زندگی بیوی بچوں کی بہار سے محروم ہے۔ اگر مرکزی وزراء یا بی جے پی قائدین کے بچے جنگ میںپھنس جاتے تو شائد حکومت جلد حرکت میں آتی۔ یوکرین پر جنگ کے بادل ایک ماہ سے منڈلا رہے تھے اور کئی چھوٹے ممالک نے اپنے شہریوں کو قبل از وقت واپس طلب کرلیا لیکن ہندوستان خواب غفلت کا شکار رہا۔ جنگ چھڑنے کے باوجود طلبہ کی رہنمائی میں تاخیر کی گئی۔ ہزاروں طلبہ کی زندگی کو خطرہ میںڈالنے کیلئے مودی حکومت ذمہ دار ہے۔ ابھی تک چند ہزار بچوں کی واپسی ہوئی جبکہ کئی ہزار ابھی بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رومانیہ اور دیگر ممالک کی سرحد سے متصل علاقوں کے طلبہ کو واپس لایا جارہا ہے کیونکہ یہ علاقہ جنگ سے محفوظ ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے طلبہ کی واپسی کا کوئی نظم نہیں کیا گیا۔ جن طلبہ کو واپس لایا گیا ان پر حکومت نے کوئی احسان نہیں کیا بلکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ طلبہ کی واپسی کو ایونٹ بناکر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے بعض وزراء کو رومانیہ بھیجا گیا ، وہاں مقامی میئر نے جیوتر ادتیہ سندھیا کو حکومت کی بڑائی بیان کرنے سے روک دیا اور کہا کہ طلبہ کے قیام اور طعام کا انتظام آپ کی حکومت نے نہیں بلکہ ہم نے کیا ہے ۔ دہلی ایرپورٹ پر کئی وزراء استقبال کے نام پر مودی کا گن گان کرنے پہنچ گئے ۔ حکومت کا کارنامہ اس وقت ہوتا جب بچوں کو مفت میں منتقل کیا جاتا۔ جہاں تک بیرونی ملک سے ہندوستانی شہریوں کی وطن منتقلی کا سوال ہے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ 1990 ء کے دہے میں خلیجی جنگ کے دوران دیڑھ لاکھ ہندوستانیوں کو وطن واپس لایا گیا جبکہ لیبیا پر حملہ کے بعد 15000 سے زائد ہندوستانی بحفاظت وطن واپس لائے گئے تھے لیکن اس وقت کی حکومتوں نے سیاست نہیں کی لیکن یہاں تو قدم قدم پر سیاست کی جارہی ہے۔ یوکرین کے حالات اور طلبہ کی واپسی کے نام پر اترپردیش چناؤ میں ووٹ مانگے گئے ۔ ہزاروں طلبہ موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں لیکن نریندر مودی نے اترپردیش کی انتخابی ریالیوں میں طلبہ کی واپسی کو کارنامہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے ووٹ مانگے ۔ نریندر مودی کو بس موقع کی تلاش ہوتی ہے، حالانکہ مصیبت کی اس گھڑی میں وزیراعظم کو دہلی میں بیٹھ کر طلبہ کی واپسی کی نگرانی کرنی چاہئے تھی لیکن انہیں اترپردیش کی کامیابی عزیز ہے۔ وزیراعظم کو اترپردیش کی انتخابی مہم کے بجائے یوکرین میں روسی حملہ میں ہلاک کرناٹک کے طالب علم نوین کے افراد خاندان کو پرسہ دینے کے لئے جانا چاہئے تھا۔ کرناٹک بی جے پی حکومت کے چیف منسٹر نے بھی نوین کے گھر جانے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ اترپردیش کی انتخابی مہم میں مودی کو یوکرین کے طلبہ کے بجائے کووڈ کے دوران گنگا میں بہتی لاشوں کا تذکرہ کرنا چاہئے تھا۔ نریندر مودی نے یو پی انتخابی مہم میں جملہ بازی جاری رکھتے ہوئے طلبہ کی واپسی کو ہندوستان کی بڑھتی طاقت کا نتیجہ قرار دیا۔ ہندوستان کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ طلبہ کو ٹرین میں سوار ہونے سے روک دیا گیا اور ہندوستانی طلبہ عہدیداروں سے منت سماجت کرتے دکھائی دیئے۔ کھلے آسمان کے نیچے 72 گھنٹوں سے سردی میں غذا کے بغیر گزارنے والے طلبہ نے شکایت کی کہ ہندوستانی حکومت نے ان کیلئے کچھ نہیں کیا ہے۔ مصیبت کی اس گھڑی میں طلبہ کی ہمت اور حوصلہ بڑھانے کا کام کرنے کے بجائے مرکز ی وزیر پراہلاد جوشی نے یہ شرمناک تبصرہ کیا کہ یوکرین میں تعلیم حاصل کرنے والے 90 فیصد طلبہ ملک کے نیٹ امتحان میں ناکام ہوتے ہیں۔ پراہلاد جوشی کا کوئی بیٹا یا بیٹی یوکرین میں پھنسی ہوتی تو شائد یہ تبصرہ نہ کرتے۔ ہندوستان کی طاقت میں اضافہ کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی یوکرین بحران پر فیصلہ سے خائف کیوں ہیں۔ امریکہ اور روس کے خوف کے نتیجہ میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں رائے دہی سے ہندوستان غیر حاضر رہا ۔ ہندوستان کی طاقت یہی ہے کہ رومانیہ کے میئر نے مرکزی وزیر کو ٹوک دیا ۔ کب تک صرف دعوے کرتے ہوئے اپنے آپ کو اور عوام کو دھوکہ دیا جائے گا ۔ طلبہ کی واپسی کافی نہیں بلکہ سرکاری اور خانگی کالجس میں داخلہ کے ذریعہ تعلیمی مستقبل کو بچانا ہوگا۔
اترپردیش اور چار دیگر ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کو بی جے پی کیلئے منی جنرل الیکشن کہا جارہا ہے۔ چار ریاستوں میں رائے دہی مکمل ہوگئی جبکہ اترپردیش میں ساتواں اور آخری مرحلہ 7 مارچ کو مکمل ہوگا اور اسی دن شام سے اگزٹ پول نتائج منظر عام پر آئیں گے جس سے صورتحال واضح ہوجائے گی۔ اگرچہ نتائج کا اعلان 10 مارچ کو ہوگا لیکن اگزٹ پول کے ذریعہ اترپردیش میں بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے درمیان کانٹے کی ٹکر کی صورتحال واضح ہوگی۔ پانچ ریاستوں میں صرف یو پی اور پنجاب پر عوام کی نظریں ہیں۔ پنجاب میں کانگریس کی واپسی تقریباً یقینی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ بی جے پی اور اکالی دل نے انتخابی مہم کے دوران میدان چھوڑ دیا۔ بی جے پی کو صرف اترپردیش کی فکر ہے کیونکہ اترپردیش میں مظاہرہ کمزور ہوتا ہے تو اس کا اثر آئندہ لوک سبھا انتخابات پر پڑے گا۔ اگر یوگی ادتیہ ناتھ اقتدار سے محروم ہوجائیں تو 2024 ء لوک سبھا چناؤ میں نریندر مودی کی کرسی ڈانواڈول ہوسکتی ہے۔ آخری مرحلہ کی مہم میں ممتا بنرجی نے حصہ لے کر سماج وادی پارٹی کے حق میں نئی جان ڈال دی ہے۔ شکست کے خوف سے بوکھلاہٹ کا شکار بی جے پی کارکنوں نے ممتا بنرجی کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ یہ حرکت خود اس بات کی دلیل ہے کہ بی جے پی نتائج کے بارے میں خوفزدہ ہے ۔ مبصرین کے مطابق ہر مرحلہ کے چناؤ کے بعد بی جے پی کیمپ کی مایوسی میں اضافہ ہوتا گیا۔ نریندر مودی ، امیت شاہ اور یوگی ادتیہ ناتھ انتخابی مہم کے دوران دفاعی موقف میں دیکھے گئے ۔ اترپردیش میں اکھلیش یادو نے کانٹے کی ٹکر دی ہے لیکن 10 مارچ کو واضح ہوگا کہ اترپردیش کا آئندہ حکمراں کون ہوگا ۔ مہم کے دوران بی جے پی کے پاس مقامی مسائل کے بجائے قومی اور بین ا لاقوامی مسائل دیکھے گئے ۔ اترپردیش میں یوگی کا کوئی کارنامہ ایسا نہیں جسے بیان کیا جاسکے ۔ لہذا نریندر مودی اور امیت شاہ نے پاکستان ، جناح اور یوکرین جنگ کو انتخابی موضوع بنایا۔ ہندو ووٹ متحد کرنے کیلئے نہ صرف اترپردیش بلکہ کرناٹک میں حجاب کے خلاف مہم چلائی گئی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ یو پی کے رائے دہندے فرقہ وارانہ سیاست کو اختیار کریں گے یا پھر اپنے تابناک اور روشن مستقبل کے حق میں فیصلہ کریں گے ۔ ممتاز شاعر قیصر الجعفری نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہم آئینہ ہیں دکھائیں گے داغ چہروں کے
جسے خراب لگے سامنے سے ہٹ جائے