ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام

   

عثمان شہید ایڈوکیٹ
ہندوستان اقلیتوں سے عبارت ہے ۔ یہ کہنا غلط ہے کہ یہ اکثریت کا ملک ہے ۔ حقیقتاً یہ اقلیتوں کا ملک ہے ۔ مسلم ، سکھ ، عیسائی، یہودی ، پارسی ، شیڈیول ٹرائب ان سب کی صحیح اور حقیقتاً مردم شماری کی جائے تو یہ لوگ اکثریت میں پائے جائیں گے ۔ ہاں اعتقاد کے لحاظ سے ہندو قوم اکثریت میں ہے ۔ زبان ، کلچر ، لباس ، عبادت اور طریقوں کے لحاظ سے یہ اکثریت میں ہے ۔ لیکن بہ کمال ہوشیاری دورکی کوڑی لاتے ہوئے سوائے مسلمان اور عیسائیوں کے باقی سب افراد کو ہندولاء کے تحت ہندو کہا گیا ہے ۔ اس طرح اکثریت ہندو کی ہوئی اور ہم اقلیت میں ۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہم نام نہاد اکثریت میں رہ کر بھی آٹھ سو سال تک حکمران رہے ۔ سیاہ و سفید کے مالک رہے ۔ طبل و الم ہمارے پاس رہا ۔ اقتدار ہمارے پیروں کی جوتی بنا رہا ۔ لیکن اغیار کے ساتھ اپنی رعایا کے ساتھ ہم نے کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ انصاف کیا ۔ زمانہ ہمارے انصاف و قربانی کا گواہ ہے ۔ ہم نے اپنے خون کے ساتھ بھی انصاف کیا ۔ نہ کسی مذہبی عمارت کو منہدم کیا نہ کسی کے مذہب پر حملہ کیا۔ کسی کا قتل نہیں کیا ۔ کسی کی عزت کا چراغ گل نہیں کیا ۔ فرضی کہانیاں صرف ہندوؤں کے جذبات کو ابھارنے کے لئے تحریر کی گئی ہیں تاکہ اُن کے ووٹ کے سہارے اقتدار حاصل کیا جائے ۔ پروفیسر اوک کی کتاب The re-write of Indian History مت پڑھئے ۔ انصاف پسند مؤرخ پروفیسر تاراچند کی تصنیف Influence of Islam on Indian History پڑھئے ۔ ہندو ہونے کے باوجود اُس نے غیر جانبدارانہ انداز میں تاریخ کو من و عن دہرایا ۔ اُس نے اپنی کتاب میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ کسی مسلمان بادشاہ نے یا کسی مسلمان نے مذہبی عمارات کو نقصان پہنچایا ۔ یا کسی کی عزت لوٹی ۔ مندروں کو تباہ کیا ۔ ہاں محمود غزنوی سومناتھ مندر پر حملہ کرنے کا مجرم ہے۔ ہاں اس نے صرف سونا لوٹنے کے لئے اپنے مذہبی جنون کا مظاہرہ کیا ۔ جب کہ اُس کی فوج میں ہندو سپاہی بھی موجود تھے ۔ اُس نے گائے کا سہارا نہیں لیا ۔ ہندوؤںکا قتل نہیں کیا ۔ نہ کسی بادشاہ نے تلوارکے زور پر ایسا غیر انسانی قدم اٹھایا ۔ نہ تاریخ کو مسخ کیا ۔ مہاراشٹرا کے بابو راؤ پاٹل نے اپنے پرچے مدر انڈیا میں جھوٹے افسانے بیان کئے تاکہ ہندوؤں کے جذبات کو آگ لگائی جائے ۔ اس طرح مرہٹے متحد ہوئے اور آر ایس ایس وجود میں آئی ۔ آزادی کے وقت یہ سب متحد تھے ۔ کیا ہندو کیا مسلمان کیا سکھ اور عیسائی سبھوں نے مادر وطن کی آزادی کے لئے جان کی بازی لگائی ۔
کہاں تھے یہ فرقہ پرستی کی آگ لگانے والے آزادی کے بعد ایک عرصہ تک اُفق ہند پر سیکولرزم کے بادل چھائے رہے ۔ اس کے بعد فرقہ پرستی کا اندھیرا چھاگیا ۔ نفرت کی آندھی چلی ۔ دشمنی کے بادل گرجے ۔ اقلیتوں کا آشیانہ اجڑ گیا ۔ بہت کا گلشن جل گیا ۔ طرح طرح کے مسائل دانستہ پیدا کئے گئے ۔ ذلالت کے بیج بوئے گئے تاکہ گلستان ہند کی فضامسموم ہوجائے ۔ اس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا ۔ فرقہ پرستی کے سنگ نے سیکولرزم کا آئینہ چکناچور کردیا ۔ ہندوستان سارے جہاں سے اچھا باقی نہ رہا ۔ ماں کی گود میں چلنے والی سینکڑوں ندیاں جنت کے باغ جناں کے لئے باعث رشک بنارہا ۔ گائے کے نام پر ، مندرکے بہانے ، سور کے باعث فرقہ پرستی مسلم دشمنی کے ایسے ببول کے جھاڑ پیدا کئے کہ روح تک لہولہان ہوگئی ۔ وہ کونسی زمین ہے جس نے مسلمانوں کے لہو سے غسل نہیں کیا ۔ گجرات ، بھوپال ، اترپردیش ، بہار ، ہریانہ ، مہاراشٹرا ، بھیونڈی ، چک منگلور، حیدرآ باد ، آسام غر ض یہ کہ کوئی خطہ ہندوستان کا ہمارے خون کی داستان سے محفوظ نہیں رہا ۔ ہندوستان میں انصاف ہے ،جمہوریت ہے ، قانون کی حکمرانی ہے ، فوج ہے ، عدالت ہے ، لاٹھی اور جیل بھی ہے لیکن یہ سب کتابوں میں محفوظ ہے ۔ برائے نام ان کا وجود ہے ۔ عملی اعتبار سے صفر ہے ۔
عبدالقدیر کی موت ہو ، جنید یا ناصر کا قتل ہو ، پہلو خاںکو موت کے گھات اتارنا ہو یا رضوان کو شہید کرنا ہو یا پھر آندھرا پردیش کے گاؤں وٹولی میں چھ مسلمانوں کا بے دردانہ قتل ، یا پھر آلیر میں مسلم نوجوانوں کا ہتھکڑی میں پولیس کے ذریعہ قتل یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون ایک لطیفہ بن کر رہ گیا ہے۔ قانون صرف کتابوں اور دستور کی زینت بن کر رہ گیا ہے ۔ کسی کو قانون کی کوئی عزت نہیں ۔ ان سب واقعات کے باوجود کسی کا دل نہیں تڑپا ۔ کسی کا کلیجہ منہ کو نہیں آیا ۔ کسی کی انسانیت نہیں کانپی ۔ ’’قانون ٹک ٹک دیدم دم نہ گشیدم ‘‘کی مورت بنا کھڑا رہا ۔ پولیس اندھی بہری ہوگئی ۔ لاٹھی گولی بندوق جیل کی سلاخیں بے بس ہوگئیں ۔ پولیس کس لئے ؟ دستور ہند کے آرٹیکل 20, 21 میں یہ تحریر کیا گیا کہ پولیس اور حکومت کا فرض ہے مظلوم کی مدد کی جائے ۔ کیا کسی نے ایسا کیا ؟
دیکھئے اقلیتوں کے ساتھ جب مذاق کیا گیا تو سری لنکا کا کیا حشر ہوا ۔ آج بھی اسی ملک میں آپ نے سنا کہ اقلیتوں کے ساتھ اُن کی جان ومال کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے ۔ اقلیتیں کہاں نہیں لیکن ہرجگہ محفوظ ہیں ۔ اور ہندوستان تباہ ہورہا ہے ۔ ایسا سب کچھ عمداً کیاجارہا ہے تاکہ نام نہاد اکثریت دوامی طورپر اقتدار کی کرسی حاصل کرلے ۔ اسی لئے بابا رام دیو نے کہا کہ بابر ، اکبر ، شاہ جہا ں، اورنگ زیب ہمارے ہیرو نہیں ۔ میں پوچھتا ہوں با با رام دیو تمہارا ہیرو کون ہے ؟
وہ جنہوں نے انگریزوں سے تحریراً معافی مانگی ۔ اپنی عزت آبرو غیرت اور ضمیر کو بیچ دیا ۔ وہ تمہارے ہیرو نہیں جو آزادی کے لئے سولی پر چڑھ گئے ۔ جان کی قربانی دی ۔ شری واجپائی نے کہا تھا کہ شہید اشفاق اللہ کے بغیر ہندوستان کی تاریخ آزادی مکمل نہیں ہوسکتی ۔ سلطان بازار حیدرآباد میں آج بھی طرہ باز خان کے نام سے سڑک موجود ہے ۔ یہ کون ہے ؟ انہوں نے انگریزوں کا لوہا لیا ۔ ٹیپوسلطان تمہارا ہیرو نہیں جس نے پہلی مرتبہ ہزاروں مزائل تیار کئے ۔ اپنے بیٹوں کو آزادی کے لئے انگریزوں کے پاس رہن ڈال دیا ۔ خود بھی انگریزوں پر نثار ہوگئے۔ بتائیے اس کا جواب کیا ہے ؟
مغل شہزادوں کو دلی کے خونی دروازے پر پھانسی دی گئی ۔ کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے ۔ کتنی ہی مسلم خواتین خواتین بیوہ ہوگئیں ، کتنی بہنیں بے سہارا ہوگئیں ، کتنے بچے یتیم ہوئے ۔ ہر صفحہ پر تمہیں آزادی کے ہیروؤں کی خون کی بوندیں نظر آئیں گی۔ پھر ہم وفادار نہیں ؟ حوالدار عبدالحمید کی قربانی یاد ہے تمہیں جس نے وطن عزیز کے لئے اپنے جسم کے ٹکڑے کروادیئے ۔ وہ بھی تمہارا ہیرونہیں ۔ یہ قاتل خونی لٹیرے آگ لگانے والے تمہارے ہیرو ؟ ؎
تمہیں قاتل ، تمہیں منصف ، تمہیں مخبر ٹہرے
اقرباء میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر
عمداً صرف اقتدار کے لئے ہم پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ۔ خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں ۔ جنید اور ناصر کے قتل پر سارا گودی میڈیا خاموش ہے ۔کیوں ؟ ؎
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا