یکساں سیول کوڈ … اتراکھنڈ سے ہندوتوا ایجنڈہ
آسام میں مخالف شریعت قانون … مسلمان آخر کب جاگیں گے؟
رشیدالدین
’’عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں‘‘ علامہ اقبال نے کئی دہے قبل خواب غفلت کی شکار امت مسلمہ کو اس مصرعہ کے ذریعہ جگانے کی کوشش کی تھی ۔ وقت گزرتا گیا ، امت مسلمہ کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ علامہ اقبال نے غیرت اور حمیت اسلامی کو بیدار کرنے کی جو پہل کی تھی، آج کے حالات میں اس کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ علامہ اقبال اور دوسرے اکابرین دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور ان کی تقاریر اور کلام کتابوں کی زینت بن گئے لیکن امت مسلمہ کے دل و دماغ میں جگہ نہیں بناسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں مسلمانوں کو آزمائش کا سامنا ہے۔ لفظ اسلام اور مسلمان سے نفرت عروج پر ہے۔ جارحانہ فرقہ پرستی کی حوصلہ افزائی کرنے والے اور ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل پیرا حکمرانوں نے مسلمانوں کے تشخص کو مٹانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ یوں تو آزادی کے بعد 75 برسوں میں اٹل بہاری واجپائی بھی برسر اقتدار رہے لیکن نفرت کے سوداگروں کو کھلی چھوٹ نہیں تھی۔ گزشتہ 10 برسوں میں نریندر مودی حکومت نے خود ہندوتوا ایجنڈہ کو اختیار کرلیا اور ہندو راشٹر کے منصوبہ کی سمت پیش قدمی ہونے لگی۔ شریعت کا خاتمہ ، یکساں سیول کوڈ کا نفاذ اور مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بناکر ووٹ کے حق سے محروم کرنا بنیادی ایجنڈہ ہے۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران نریندر مودی نے جارحانہ فرقہ پرست عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی جو مختلف عنوانات سے مسلمانوں پر ظلم اور تشدد کے پہاڑ توڑ کر حوصلوں کو پست کرنے کا کام کرتے رہے ۔ فرقہ پرست عناصر کی حوصلہ افزائی کے نتیجہ میں ملک میں مخالف شریعت قوانین متعارف کئے جارہے ہیں۔ گزشتہ 50 برسوں میں سنگھ پریوار جس ایجنڈہ کی تکمیل نہ کرسکا ، وہ کام 10 برسوں میں نریندر مودی نے کر دکھایا۔ رام مندر کی تعمیر اور کشمیر کے خصوصی موقف دفعہ 370 کی برخواستگی کا مرحلہ مکمل کرلیا گیا۔ ایجنڈہ کا تیسرا ایٹم یکساں سیول کوڈ نفاذ کے لئے پر تول رہا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ لوک سبھا میں اکثریت سے محرومی کے باوجود مودی کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور حلیف جماعتوں کی پرواہ کئے بغیر ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری جاری ہے ۔ عوام کو چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار سے امید تھی کہ وہ نریندر مودی کے نفرت کے ایجنڈہ کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں گے ۔ افسوس کہ ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو قتل کرنے اور بلڈوزر کارروائیوں کے ذریعہ املاک کی تباہی کا سلسلہ جاری ہے ۔ ظاہر ہے کہ نام نہاد سیکولر قائدین کو مسلمانوں سے زیادہ اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کی فکر ہے۔ ان قائدین کو مسلمان اس وقت یاد آتے ہیں جب ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مسلمانوں کو دوسروں پر انحصار کے بجائے خود کو طاقت میں تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور کمزور کا کوئی حامی نہیں ہوتا۔ رام مندر کی بابری مسجد کی جگہ تعمیر کے باوجود فیض آباد کے رائے دہندوں نے بی جے پی کو مسترد کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی کو کامیابی دلائی ۔ فیض آباد کا نتیجہ ثبوت ہے کہ ملک کے رائے دہندوں کی اکثریت کو ہندوتوا ایجنڈہ پسند نہیں لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار ملک پر اپنا ایجنڈہ مسلط کرنے کی فراق میں ہیں۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ہندوتوا ایجنڈہ کے تجربات کئے جارہے ہیں۔ اترپردیش ، گجرات ، مدھیہ پردیش ، راجستھان ، آسام اور دیگر ریاستوں میں شریعت میں مداخلت کے قوانین کو منظوری دی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔ دینی مدارس ، مساجد اور گھروں پر بلڈوزر چلنے لگے ہیں۔ سنگھ پریوار شریعت کے خاتمہ کے ذریعہ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی تیاری میں ہے۔ مسلمانوں کو مزاحمت سے روکنے کیلئے ماب لنچنگ اور بلڈوزر کارروائیوں کے ذریعہ حوصلے پست کئے جارہے ہیں۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے تجربہ کا اتراکھنڈ سے آغاز کیا گیا جو آزادی کے بعد ملک کی پہلی ریاست بن جائے گی جہاں یکساں سیول کوڈ کو اسمبلی اور پھر صدر جمہوریہ نے منظوری دی۔ چیف منسٹر پشکر سنگھ دھامی نے 9 نومبر سے یکساں سیول کوڈ پر عمل آوری کا اعلان کیا جو کہ اتراکھنڈ کا یوم تاسیس ہے۔ 12 فروری 2022 کو یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تھا۔ مسودہ بل کی تیاری کیلئے کئی کمیٹیاں قائم کی گئیں اور 4 فروری 2024 کو ریاستی کابینہ نے مسودہ بل کو منظوری دی جسے 7 فروری 2024 کو اسمبلی میں منظور کیا گیا۔ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے 11 مارچ 2024 کو ہری جھنڈی دکھادی۔ یکساں سیول کوڈ کے خد و خال اور نفاذ کی حکمت عملی طئے کرنے دو کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ ایک کمیٹی نے رپورٹ پیش کردی جبکہ دوسری کمیٹی 30 ستمبر تک سفارشات پیش کرے گی ۔ چیف منسٹر پشکر سنگھ دھامی نے یوم تاسیس اتراکھنڈ یعنی 9 نومبر نفاذ کا مہورت طئے کیا ہے۔ اسلام اور شریعت کو نشانہ بنانے کیلئے سماجی انصاف اور خواتین سے انصاف کا نعرہ لگایا جاتا ہے ۔ اتراکھنڈ میں یہی کچھ ہوا اور ہندوتوا کی تجربہ گاہ کے طور پر اتراکھنڈ سے یکساں سیول کوڈ کی لعنت کا آغاز ہوگا جو بتدریج ملک بھر میں پھیل سکتی ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے ذریعہ شادی ، طلاق اور وراثت کے شرعی قوانین کو ختم کردیا گیا اور تینوں شعبوں میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ کثرت ازدواج پر پابندی عائد کردی گئی کیونکہ فرقہ پرستوں کو اسلام میں چار شادی کی اجازت کھٹک رہی تھی۔ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ سے خوفزدہ سنگھ پریوار نے شادیوں پر روک لگادی ہے اور اسے جرم کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں بچوں کی تعداد پر بھی حد مقرر کی جائے گی۔ شادی اور طلاق شرعی قوانین کے بجائے حکومت کے قوانین کے تحت انجام دیئے جائیں گے اور رجسٹریشن سے شادی بیاہ کا اہتمام اور طلاق کا اطلاق ہوگا۔
آسام جو پہلے سے ہی ہندوتوا کی تجربہ گاہ بن چکا ہے ، وہاں کی حکومت نے مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک بنانے کی سرگرمیوں کے بعد ایک متنازعہ قانون کو منظوری دی ہے۔ نئے قانون کے تحت مسلمانوں کی شادی بیاہ ، طلاق اور وراثت کے امور کی تکمیل شریعت کے مطابق نہیں ہوگی۔ آسام میں عائلی مسائل کے حل کے لئے قاضی نظام کا خاتمہ کردیا گیا۔ ریاست میں مسلمانوں کے لئے شادی اور طلاق کا رجسٹریشن لازمی رہے گا۔ چیف منسٹر ہیمنت بسوا شرما کی مسلم اور اسلام دشمنی سے ہر کوئی واقف ہے اور وہ انتخابی مہم کے دوران ملک بھر میں نفرت کا زہر پھیلاچکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہیمنت بسوا شرما کی تربیت کانگریس جیسی سیکولر پارٹی میں ہوئی لیکن اقتدار نے انہیں سیکولرازم کے نظریات چھوڑ کر ہندوتوا کا لبادہ اوڑھنے پر مجبور کردیا ہے۔ آسام حکومت کا یہ قانون شریعت میں راست مداخلت ہے۔ حکومت شرعی شادی کے بجائے رجسٹریشن میاریج کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہے تاکہ مسلمانوں کو شریعت کے مطابق لڑکی کے بالغ ہونے پر نکاح سے روکا جاسکے ۔ آسام میں جہاں مسلمان سیاسی طاقت کے طور پر ابھرسکتے ہیں ، وہاں مسلم قیادتوں کے خلاف سازش کی گئی اور مسلمانوں کو اپنی قیادتوں سے دور کردیا گیا۔ مسلمانوں کو بیرونی مداخلت کار کا لیبل لگاکر ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے ۔ مودی حکومت اتراکھنڈ اور بہار سے ہندو ایجنڈہ پر عمل آوری کی لاکھ کوشش کرلے لیکن ملک میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ آسان نہیں ہوگا۔ بی جے پی کی کئی حلیف جماعتیں ملک میں یکساں سیول کوڈ کی مخالف ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مخلوط حکومت کے دوران بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ہندوتوا ایجنڈہ کو نافذ کرتے ہوئے آئندہ لوک سبھا الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مودی حکومت نے وقف ترمیمی قانون 2024 کے ذریعہ شریعت میں مداخلت کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ یہ بل پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کیا گیا ہے لیکن حکومت کی کوشش یہی رہے گی کہ جلد سے جلد مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں کو حکومت کی تحویل میں لیا جائے ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ ریاستوں کے قوانین دراصل ایک تجربہ ہے جبکہ حقیقی ایجنڈہ ملک میں ہندو راشٹر کا قیام ہے۔ جہاں تک مساوات کا تعلق ہے اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیئے ہیں، اس کی مثال دنیا کا کوئی اور مذہب پیش نہیں کرسکتا۔ خواتین کا احترام ہو یا پھر انہیں وراثت میں حصہ داری، اسلام نے ہر موڑ پر خواتین کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ مودی حکومت کے فیصلے مسلمانوں اور مسلم پرسنل لا بورڈ کیلئے کھلا چیلنج ہیں۔ یکساں سیول کوڈ کے خلاف منظم احتجاج کے علاوہ عدالتوں سے رجوع ہونے کی ضرورت ہے تاکہ دستور میں دیئے گئے حقوق کی خلاف ورزی کو روکا جاسکے۔ دستور ہند میں ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب پر چلنے کا اختیار دیا ہے۔ ایسے میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کو دستور کی خلاف ورزی کہا جائے گا۔ ملک میں مسلمانوں کی بے لوث ، مخلص اور دیانتدار قیادت کی مذہبی اور سیاسی سطح پر کمی ہے جس کے نتیجہ میں قوم بے حسی کا شکار ہے۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہم تو اللہ بھروسہ پہ جلاتے ہیں چراغ
آپ تو اپنے چراغوں کی حفاظت کرلیں