ہم زندگانی کریں گے روشن

   

محمد مجیب احمد
طارق اور عالیہ کی عشقیہ شادی کی کہانی ’’آسودگی اور اطمینان سے عبادت تھی وہ کئی سالوں سے عشق و محبت میں گرفتار تھے جس کی جیسے انتہا نہیں تھی۔ پیار کے ان متوالوں کو کوئی سمجھانے والا نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی کو خاطر میں لانے والے تھے۔ ان کا عشق کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ انہوں نے اپنی پسند اور شادی کے ارادے سے گھروالوں کو آگاہ کیا تھا لیکن وہ بے سود ثابت ہوا۔ ان کی فریاد ان سنی کردی گئی۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی شادی اپنے ماں باپ کی زیر سرپرستی انجام پائے۔ مگر دونوں ہی کے گھر والے اس کے مخالف تھے۔ طارق کے والدین کو یہ گوارا نہیں تھا کہ ایک مطلقہ خاتون ان کی بہوبنے۔ جب کہ ان کا بیٹا بھی خلع شدہ شخص تھا۔ دونوں کی پہلی ملاقات ان کے مشترکہ رشتہ دار کی ایک تقریب میں ہوئی تھی۔ پھر ان کی یہ ملاقات، قربت اور رفاقت میں بدل گئی تھی اور روز بہ روز مستحکم ہوتی گئی تھی۔ وہ اکثر ساتھ ساتھ رہنے لگے تھے اور یوں ایک دوسرے کی چاہت اور ضرورت بن گئے تو زندگی بھر ساتھ رہنے کا وعدہ نبھاکر شادی کا فیصلہ کرلیا تھا :۔

دونوں خاندانوں کی جانب سے اس رشتہ کی نامنطوری کے بعد عالیہ نے اپنا دلی مدعا اپنے ماموں کے آگے رکھا تو انہوں نے شادی کے فرائض انجام دینے کی حامی بھرلی اور یقین دیا کہ وہ اس کا دوبارہ گھر بسانے میں بھرپور تعاون کریں گے۔ پھر انہوں نے اس کے سرپرست کی حیثیت سے شادی کے تمام فرائض انجام دیئے۔ جن کی کاوشوں کی بدولت یہ دونوں دارالقضات میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے تھے۔ ! ’’یہ شادی میرے گھر والوں کے بغیر منعقد ہوئی۔ یہ میرے خاندان کی پہلی شادی تھی جس میں بوقت عقدمیرا کوئی رشتہ دار شریک نہیں تھا۔ میرا ایک دوست اور دیگر افراد موجود تھے۔ یہ میرے لئے ایک تکلیف دہ احساس تھا، لیکن میں عالیہ جیسے جیون ساتھی کے ملنے پر بہت خوش ہوں۔ عالیہ کی طرف سے اس کی دو بہنوں نے شرکت کی تھی۔ طارق سکھ دکھ کے ملے جلے انداز میں کہنے لگا۔

عالیہ کو بھی اپنے والدین کی ناراضی پر صدمہ ضرور ہوا تھا۔ مگر وہ مجبور تھی۔ اس کے پاس کوئی اور راستہ نہ تھا۔ اسے اپنی دو چھوٹی بہنوں کی شرکت سے اپنائیت اور مسرت محسوس ہوئی تھی۔ وہ اپنی تنہا زندگی سے عاجز آگئی تھی۔ اسے ایک ہم سفر کی ضرورت تھی جو اس کو طارق کی صورت میں مل گیا تھا۔ جسے وہ کھونا نہیں چاہتی تھی۔ اس کا یہ استدلال حقیقت پر مبنی تھا کہ عورت ہو یا مرد اس کے لئے تنہائی بڑا عذاب بن جاتی ہے اور شادی بہت سے دکھوں کا مداوا اور گناہوں سے حفاظت کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔اس خیال کے پیش نظر اس نے طارق سے محبت اور شادی کی تھی۔ اس کی سابقہ ازدواجی زندگی اختلافات اور تنازعات کا شکار ہو گئی تھی۔ اسے اطمینان اور سکون میسر نہ ہوا تھا۔ وہ آسودہ اور خوشگوار زندگی کی آس لگائے بیٹھی تھی۔ جو اسے طارق کی شخصیت میں نظر آئی تھی۔ !’’عالیہ کے حسن اخلاق اور خوب سیرت سے میرے ماں باپ بہت متاثر ہوگئے تھے۔ انہیں اس کے تعلق سے اپنے نظریہ پر نظرثانی کرنی پڑی تھی۔ اب وہ میرے انتخاب اور پسند پر مطمئن تھے۔ ان کی ناراضی دور ہوگئی تھی۔ اگرچہ ہم شادی کے بعد علیحدہ طور پر رہنے لگے تھے‘‘۔ طارق نے طمانیت کا اظہار کیا۔

عالیہ اور طارق شادی کے بعد اپنے گھر والوں سے دور ہوگئے تھے۔ ان کی لاتعلقی کے باوجود وہ اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح ان کا اعتماد حاصل کرکے ساتھ جڑے رہیں۔ انہیں رضامند کرکے اپنے ساتھ رکھیں۔ ان کی سرپرستی کے حصول کے ساتھ دعاؤں میں شامل رہیں۔ دونوں نے پیار کیا تھا اور ساتھ ہی اپنی پسند سے آگاہ کرکے شادی کے ارادے سے واقف کروایا تھا۔ انہیں احساس تھا کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ درست تھا۔ وہ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ خوش و خرم رہنا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ خود ہی اپنا حق رضامندی کا استعمال کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا تھا ان کے خیال میں یہ کوئی بغاوت یا نافرمانی نہیں تھی۔ پھر وہ دن آپہنچا جس کے وہ متمنی تھے۔ ان کی پہلی اولاد شارق کے تقریب عقیقہ میں انہوں نے اپنے اپنے گھروالوں کو مدعو کیا تھا۔ جہاں یہ دونوں بیٹے کی پیدائش پر مسرور تھے تو ان کے اہل خاندان بھی اپنی ناراضی فراموش کرکے اس میں شریک ہوگئے تھے۔ عالیہ اور طارق نہیں چاہتے تھے کہ ان کی آئندہ نسلیں اپنے ابا و اجداد سے دور اور بے تعلق رہیں۔ ! ’’مجھے طارق جیسے شوہر پر فخر ہے۔ وہ بردبار اور وسیع القلب ہیں۔ میری انا اور ضد کو وہ نظر انداز کردیتے ہیں۔ جس پر مجھے اپنی خطا کا احساس اور ندامت ہوتی ہے۔ پھر میں معافی طلب کرلیتی ہوں۔ روٹھنا پھر منالینا ازدواجی زندگی میں توازن قائم رکھتا ہے۔ اگر دونوں ہی ایک رویہ احتیار کرے تو زندگی نا کام ہو جاتی ہے‘‘۔
عالیہ ٹھوس لہجہ میں کہنے لگی …
طارق اور عالیہ اپنی گزشتہ ازدواجی زندگی کی تلخیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ کئی دشوار گذار مراحل سے ہوکر اس مقام پر پہنچے تھے۔ انہیں خلع شدہ اور مطلقہ مرد و عورت کے تئیں سماج کے اختیار کردہ برتاؤ سے نہایت ملال ہوا تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسروں کے ساتھ بھی لوگ ایسا رویہ اپنائیں۔ ان کا ایقان تھا کہ مستقبل میں معاشرہ ضرور بیدار ہوگا۔ لوگوں میں سدھار اور شعور آئے گا۔ اور وہ خلع شدہ یا مطلقہ مرد و عورت سے بیاہ کو معیوب نہیں سمجھیں گے۔ :

’’بلا شبہ خلع اور طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ یہ تب ہی انجام پائے تو بہتر ہے جب زوجین کا بناہ مشکل اور ناممکن ہو جائے۔ صرف اسی حالت میں شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ اس اہم امور کو مدنظر رکھنا بے حد ضروری ہے‘‘۔ وہ کہنے لگے …
اپنی خواہش کے مطابق شادی ہونے پر انہیں مکمل رفاقت میسر ہوگئی تھی۔ جس کے وہ منتظر تھے۔ اب دونوں بہت ہی پرسکون اور مطمئن تھے۔ ان کی زندگی میں عمر بھر کے لئے پیار و محبت اور ایثار و راحت کے دیئے روشن ہوگئے تھے۔ جس کا انہوں نے پہلے ہی دل و جان سے عہد کرلیا تھا۔ !!!