ہم سے بڑھ کر کوئی فنکار جہاں میں ہوگا

,

   

مودی کو کس نے روکا … کسان یا سیاسی چال
کورونا کی تیسری لہر … الیکشن ملتوی کئے جائیں

رشیدالدین
ہر لمحہ کو ایونٹ بنانے کا فن تو کوئی نریندر مودی سے سیکھے۔ گجرات کے چیف منسٹر نے جب دہلی کا رخ کیا تو شائد ہی کسی نے سوچا تھا کہ فنکاری اور اداکاری میں میدان سیاست کے سورماؤں کو بھی مات کھانی پڑے گی۔ سیاستداں تو چھوڑیئے فلمی دنیا میں اپنی منفرد شناخت رکھنے والے آرٹسٹ بھی انگشت بدنداں رہ گئے کہ آخر کون ہے جس نے اداکاری کے تمام دوسری دکانوں کو بند کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ چائے والے سے وزارت عظمیٰ تک کے سفر میں نریندر مودی جو کچھ بھی تجربات سے گزرے وہ وزیراعظم بنتے ہی عروج پر پہنچ گئے ۔ سیاسی مقصد براری کیلئے کسی بھی صورتحال کا فائدہ اٹھانا ہر سیاستداں کے بس کی بات نہیں ہوتی اور صورتحال کا اس قابل ہونا بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ ا ٹھایا جاسکے۔ نریندر مودی ہر لمحہ کو ایونٹ میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کے ذریعہ نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ اپوزیشن پر بھاری پڑگئے۔ پنجاب میں موسم کی خرابی کے سبب دہلی واپس ہونا تھا لیکن مودی نے اس صورتحال کو جو رنگ دیا ، اس نے سارے ملک میں سیاسی طوفان برپا کردیا۔ ریالی میں عوام کی عدم شرکت سے ملک کی توجہ ہٹانے کے لئے نریندر مودی نے جو ماحول پیدا کیا ، اس کا تصور بھی دوسروں کے لئے محال تھا۔ سڑک کے راستے جانے کی کوشش اور اسی راستے کا انتخاب جس پر پہلے سے کسانوں کا احتجاج جاری ہے، یہ محض اتفاق نہیں بلکہ سوچی سمجھی پلاننگ کا حصہ تھا ۔ دنیا کے سخت ترین سیکوریٹی گھیرے میں رہنے والے مودی نے اپنی جان کو خطرہ کی بات کرتے ہوئے گلی سے دلی تک نہیں بلکہ راشٹرپتی بھون میں ہلچل پیدا کردی ۔ صدر جمہوریہ رامناتھ کووند کو بھی وزیراعظم کی سیکوریٹی میں کوتاہی پر تشویش کا اظہار کرنا پڑا۔ مسئلہ صرف اتنا تھا کہ مودی کو بھٹنڈا سے بذریعہ ہیلی کاپٹر فیروز پور جانا تھا جہاں بی جے پی کی ریالی سے خطاب کرنا تھا۔ موسم کی خرابی کے چلتے ہیلی کاپٹر کی اڑان ممکن نہیں تھی اور فیروز پور میں ریالی کا میدان خالی تھا۔ دراصل موسم کی خرابی نے مودی کی عزت کو بچالیا ۔ اگر موسم ٹھیک ہوتا اور مودی فیروز پور پہنچ جاتے تو انہیں ضرور مایوسی ہوتی۔ انہوں نے بھٹنڈا سے چپ چاپ دہلی واپسی کے بجائے اچانک سڑک کے راستے جانے کا فیصلہ کیا اور راستے میں یادگار شہیداں پر خراج پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم کی سیکوریٹی گائیڈ لائینس کے مطابق سڑک کے راستے تین گھنٹے طویل سفر کے بارے میں اچانک فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ مودی نے ریالی سے خطاب سے زیادہ پبلسٹی حاصل کرنے کی کامیاب چال چلی ۔ خاموشی سے واپس ہوجاتے تو اس قدر شہرت اور ہمدردی کہاں سے ملتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنٹرل انٹلیجنس ایجنسیوں کو کیا راستے میں کسانوں کے احتجاج کی اطلاع نہیں تھی ؟ یہ بات بعید از قیاس ہے لیکن جان بوجھ کر یہ پلاننگ کی گئی تاکہ پنجاب کی کانگریس حکومت پر سیکوریٹی نے کوتاہی کا الزام عائد کیا جائے۔ مودی اسی پر خاموش رہنے والے کہاں تھے ۔ سونے پر سہاگہ انہوں نے پنجاب پولیس کے عہدیدار سے کہا کہ ’’چیف منسٹر کو شکریہ کہیں کہ میں زندہ واپس ہوا ہوں‘‘۔ اس ایک جملہ نے سیاسی حلقوں میں طوفان کھڑا کردیا۔ بی جے پی ریاستوں کے چیف منسٹرس ، مرکزی وزراء ، قومی بی جے پی قائدین سے لے کر گلی کے کارکن تک میدان میں کود پڑے اور پنجاب حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی۔ سیکوریٹی کے اعتبار سے دیکھیں تو مودی کے لئے کسی خطرہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وزیراعظم کو چار گھیروں پر مشتمل سیکوریٹی حاصل ہے جو امریکی صدر کی سیکوریٹی سے کم نہیں۔ وزیراعظم کے حفاظتی دستے میں شامل SPG کی ٹریننگ امریکی سیکوریٹی ایجنسیوں کے طرز پر کی گئی اور ایس پی جی پر روزانہ ایک کروڑ 25 لاکھ اور سالانہ 492 کروڑ خرچ کئے جاتے ہیں۔ ریالی کی ناکامی کی شرمندگی سے بچنے کے لئے پنجاب حکومت کے سر پر بدنامی کا گھڑا پھوڑ دیا گیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسانوں کے احتجاج والے راستے کا انتخاب کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ پہلے سے پتہ ہے کہ راستے بند ہیں۔ یہ تمام منصوبہ بند ڈرامہ بازی تھی جو انتخابی مہم کا حصہ بن گئی ۔ ریالی اگر ہوتی تو تب بھی مودی اور بی جے پی کو اتنی شہرت نہ ملتی ۔ مودی نے ریالی کی ناکامی کی شکست کو پبلسٹی میں تبدیل کردیا۔ زرعی قوانین کی تیاری کے بعد سے مودی نے پنجاب کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا تھا ۔ تقریباً دو سال بعد وہ اس امید سے پنجاب پہنچے تھے کہ عوام ہاتھوں ہاتھ لیں گے لیکن فیروز پور ریالی کا میدان خالی تھا۔ پنجاب میں کسان آج بھی احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ ایجی ٹیشن کے خاتمہ کے وقت جو وعدے مرکز نے کئے تھے، آج تک پورے نہیں ہوئے۔ حکومت کی ناکامیوں کی پردہ پوشی اور حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹاتے ہوئے ناراضگی کو ہمدردی میں تبدیل کرنے یہ کھیل کھیلا گیا۔ مودی نے جب زندہ واپسی کی بات کہی تو پنجاب کے کسانوں نے جواب دیا کہ آپ تو زندہ واپس ہوئے ہیں لیکن سینکڑوں کسان ایجی ٹیشن میں حصہ لینے کے لئے گئے تھے لیکن زندہ واپس نہیں ہوئے۔ ملک کے عوام مودی کی ہر چال کو سمجھنے لگے ہیں اور اس ڈرامہ سے انتخابات میں بی جے پی کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ گورنر میگھالیہ ستیہ پال ملک نے جب کسانوں کی اموات کا ذکر کیا تو مودی نے ریمارک کیا تھا کہ ’’کیا وہ میرے لئے مر رہے ہیں‘‘۔ اسی بات کو سن کر امیت شاہ کو کہنا پڑا کہ نریندر مودی سٹھیا گئے ہیں۔ پنجاب میں جو کچھ بھی ڈرامہ کیا گیا ، وہ کہیں امیت شاہ کے بیان کی جھلک تو نہیں ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے گائیڈ لائینس کے تحت وظیفہ پر سبکدوشی کی عمر 55 سال رکھی گئی کیونکہ ماہرین کے مطابق اس عمر کے بعد ذہنی توازن میں فرق آجاتا ہے۔ مرکز اور ریاستی حکومتوں نے اگرچہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کردیاہے لیکن بی جے پی میں سیاسی ریٹائرمنٹ کی عمر 70 مقرر کی گئی ۔ نریندر مودی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں، جس طرح سابق اسپیکر سمترا مہاجن کو 70 سال کی شرط کے تحت ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ 2024 ء میں کیا نریندر مودی بھی ریٹائرمنٹ کے زمرہ میں شامل کردیئے جائیں گے؟ جب 70 سال کی شرط ہے تو سب پر لاگو ہونی چاہئے ۔ اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی اسی شرط کے تحت انتخابی سیاست سے ریٹائرڈ کردیئے گئے ۔
ملک میں کورونا کی تیسری لہر عروج پر ہے لیکن بی جے پی کو انتخابی مہم کی فکر لاحق ہے۔ الیکشن کمیشن کو کورونا کے سبب چناؤ ملتوی کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔ الیکشن کمیشن ، محکمہ صحت اور دیگر محکمہ جات سے کورونا کی صورتحال پر رپورٹ طلب کر رہا ہے لیکن عوام کو الیکشن کے التواء کے اعلان کا انتظار ہے۔ الیکشن کمیشن نے اسمبلی اور لوک سبھا کیلئے انتخابی مہم میں امیدواروں کیلئے خرچ کی حد میں اضافہ کردیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس فیصلہ کے ساتھ الیکشن کے التواء کا بھی اعلان کیا جاتا۔ آخر الیکشن کمیشن کو کورونا کی تیز رفتاری کے باوجود کس کے اشارہ کا انتظار ہے۔ شائد وزیراعظم کے دفتر اور بی جے پی ہیڈکوارٹر سے اشارہ کا انتظار کیا جارہا ہے ۔ الیکشن کمیشن خود مختار ادارہ ہے لیکن حالیہ برسوں میں الیکشن کمشنرس کے تقررات میں سیاسی مداخلت نے کمیشن کی غیر جانبداری کو مشکوک کردیا ہے۔ جس طرح عدلیہ شبہات کے دائرہ میں آچکی ہے ، اسی الیکشن کمیشن پر بھروسہ نہیں رہا۔ اگر پانچ ریاستوں کے انتخابات کرائے جائیں گے تو یہ عوامی زندگی سے کھلواڑ ہوگا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کو اس بات کا خوف لاحق ہے کہ تاخیر کی صورت میں اترپردیش ہاتھ سے نکل جائے گا۔ وزیراعظم کی جانب سے الیکشن والی ریاستوں میں ہنگامی دوروں اور ہزاروں کروڑ کی اسکیمات کا اعلان کیا جارہاہے۔ اترپردیش میں تمام سیاسی جماعتیں کورونا کے خوف کے بغیر ہی ریالیاں منظم کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی کی مدد کیلئے دھرم سنسد کے نام پر نفرت کے سوداگر میدان میں کود پڑے ہیں۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے اعلانات کے علاوہ نئے انداز میں مسلم خواتین کی سوشیل میڈیا میں کردار کشی کی مہم شروع کی گئی ۔ مرکز نے تمام اسکولوں میں سوریہ نمسکار کو لازمی قرار دیتے ہوئے فروری تک باقاعدہ مہم شروع کی ہے۔ یہ تمام سرگرمیاں انتخابات میں بی جے پی کے حق میں ماحول پیدا کرنے اور ہندو رائے دہندوں کو متحد کرنے کی کوشش ہے۔ جب کبھی اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ، نریندر مودی ، امیت شاہ اور بی جے پی کے دیگر قائدین کی زبان بند ہوجاتی ہے ۔ برخلاف اس کے من کی بات کے نام پر طرح طرح کی مثالیں پیش کرتے ہوئے سامعین کا وقت ضائع کیا جاتا ہے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی کیا مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کی تائید کریں گے یا پھر ان کے نزدیک خواتین کا کوئی احترام نہیں ہے ؟ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ مودی کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ اگر اس نعرہ میں سچائی ہوتی تو خواتین کے خلاف سوشیل میڈیا میں توہین آمیز مہم پر وہ ضرور ٹوئیٹ کرتے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ خودکو خواتین کے حقوق کی چمپین قرار دینے والی سمرتی ایرانی کو بھی فرصت نہیں کہ خواتین کی توہین کے خلاف آواز اٹھائیں۔ آندھراپردیش حکومت نے سوریہ نمسکار کو اختیاری قرار دیتے ہوئے احکامات جاری کئے۔ اسی طرح تلنگانہ اور دیگر غیر بی جے پی ریاستوں کو غیر اسلامی رواج سے مسلمانوںکو بچانے کے اقدامات کرنے چاہئے۔ مودی کے ’’پنجاب ڈرامہ‘‘ پر جنید اختر کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ہم سے بڑھ کر کوئی فنکار جہاں میں ہوگا
ہم اداکاریاں کرتے ہیں اداکاری کی