’’ہم سے مقابلہ کی جرأت نہ کریں اور راستے سے ہٹ جائیں‘‘ : اُردغان

,

   

یونان نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ، بازنطینوں پر سلجوقیوں کی فتح تقریب سے خطاب

انقرہ۔ صدر ترکی رجب طیب اردغان نے آج مشرقی بحیرۂ روم میں اپنی میری ٹائم سرحدات سے متعلق اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کا مقابلہ کرنے کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ ترکی نے بحیرۂ روم میں جنگی جہاز بھی روانہ کئے ہیں۔ یونان نے بھی حالیہ دنوں میں یہاں فوجی مشقیں کی تھیں جہاں ترکی کا تحقیقی جہاز اورک ریز بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ صدر ترکی نے بازنطینوں پر سلجوقیوں کی فتح کی یادگار کے طور پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکی نے کبھی بھی کسی دیگر ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ کسی ملک پر نظر رکھی۔ ہر ملک کی اپنی مطلق العنانیت ہوتی ہے جس پر کسی بھی دیگر ملک کو بری نظر رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اسی طرح ترکی بھی ایک ایسا ملک ہے جس کی مطلق العنانی صبر و استحکام اور حوصلہ مندی کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کی آزمائش کی جاسکتی ہے۔ اگر یونان ہم سے مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو سامنے آئے اور اگر ایسا کرنے کی ہمت نہیں ہے تو ہمارے (ترکی) کے راستے سے ہٹ جائے۔ ہم اپنے ہمعصر ممالک سے خواہش کرتے ہیں کہ وہ پوری تیاری کرلیں اور ایسی کوئی غلطی نہ کریں جو ان کی تباہی کا سبب بنتی ہو۔ انہوں نے یونان کو انتباہ دیا کہ اُسے تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ سیاست، معیشت اور فوجی کامیابی نے ترکی کو ایک نیا اعتماد عطا کیا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتہ ترکی نے اعلان کیا تھا کہ اس کا ڈرل شپ ’’فتح‘‘ نے بحیرہ اَسود میں قدرتی گیاس کے ذخائر دریافت کرنے میں اہم روا ادا کیا تھا جس کی مقدار 320 بلین کیوبک میٹرس
(bcm)
بتائی گئی تھی۔

اُردغان کی حماس قیادت سے ملاقات، امریکہ کی ترکی کو تنہا کرنے کی دھمکی
واشنگٹن۔ امریکہ نے صدر ترکی رجب طیب اردغان کی حماس قیادت کے ساتھ ملاقات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کا اشارہ دے دیا۔میڈیا کے مطابق گزشتہ ہفتے طیب اُردغان اور فلسطینی تنظیم حماس کی قیادت کے درمیان ہوئی ملاقات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ امریکہ کو صدر اُردغان کی جانب سے حماس کے دو قائدین کی میزبانی کرنے پر شدید اعتراض ہے، اس طرح کے رابطے ترکی کو تنہا اور دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔امریکی دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اُردغان حماس سے رابطے میں ہیں اور اس بار پہلی ملاقات یکم فروری کو منظر عام پر آئی تھی، امریکہ 22 اگست کو حماس قیادت کی استنبول آمد پر شدید تحفظات کا اظہار کرتا ہے۔واضح رہے کہ حماس کو امریکہ اور یورپ میں ’’دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دیا گیا ہے اور اس کی قیادت کی گرفتاری پر 50 لاکھ امریکی ڈالر کا انعام رکھا گیا ہے۔