طالبان کسی دوسرے ملک کے داخلی امور میں مداخلت کی پالیسی نہیں رکھتے: طالبان ترجمان
عالمی طاقتوں سے قربت کے نتیجہ میں طالبان کے موقف میں بہتری
لند ن ۔ 16 ۔ اکتوبر (سیاست ڈاٹ کام) افغانستان میں امریکہ چاہتا ہے کہ 18 سال سے طالبان کے ساتھ جاری جنگ اختتام کو پہنچ جائے اور وہاں سے اس کی جان چھوٹ جائے۔ ایک ایسا بھی دور تھا جب طالبان حکومت کو انتہا پسندوں کی حمایت یافتہ بدقماش حکومت تصور کیا جاتا تھا لیکن اب بڑی خاموشی سے وہ سیاسی قانونی حیثیت حاصل کرتی جارہی ہے۔ ویسے بھی نصف سے زائد افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ طالبان ترجمان محمد سہیل شاہین کا ایک بیان منظر عام پر آیا ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کے اس خوف اور خدشہ کو مسترد کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان سے امریکی فورسیس کے تخلیہ کے بعد طالبان، ہندوستان میں مشکلات پیدا کرنے راست توجہ مرکوز کرے گی۔ اب طالبان کا موقف یہ ہوگیا ہے کہ وہ ایک سیاسی طاقت کے طور پر قانونی حیثیت حاصل کرتے جارہے ہیں اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کے میز پر بھی پہنچ رہے ہیں۔ طالبان نے امریکہ کے ساتھ دوحہ میں، پاکستان کے ساتھ اسلام آباد میں، روسی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ کریملین میں اور ایرانی حکومت کے ساتھ تہران میں امن مذاکرات کا انعقاد عمل میں لایا ہے۔ حال ہی میں طالبان نے ان امن مذاکرات کے سلسلہ میں ہی امریکہ اور اٹلی سے تعلق رکھنے والے ایک ایک پروفیسر اور تین ہندوستانی انجینئروں کو جنہیں انہوں نے یرغمال بناکر رکھا تھا 11 اہم طالبان رہنماؤں کے عوض رہا کردیا جن میں شیخ عبدالرحیم اور مولوی عبدالرشید جیسے اہم ترین طالبان لیڈرس بھی شامل ہیں۔ ان دونوں نے 2001 میں افغانستان پر امریکہ کے زیر قیادت اتحادیوں کے قبضہ سے قبل طالبان انتظامیہ کے دوران گورنروں کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ طالبان کا موقف ہے کہ ہندوستان کو کسی خدشہ یا خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے،
طالبان ہندوستان پر حملہ کرنے والے نہیں ہیں بلکہ ان کا یہی موقف ہے کہ افغانستان کی تعمیر جدید کے لئے اور طالبان کی شبیہہ بہتر بنانے پڑوسی ملکوں کی تائید و حمایت بہت ضروری ہے۔ عالمی میڈیا کے ایک گوشہ کا دعویٰ ہے کہ طالبان وفود بیجنگ اور تہران میں بھی دیکھے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کی سفارتی رسائی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ طالبان کو پاکستان کی ایک طویل مدت تک تائید و حمایت حاصل رہی وہی طالبان اب اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ ہندوستان کے ساتھ اختلافات دور کرنا چاہیں گے۔ ایسا نہیں بھی ہوا تو کم از کم طالبان عدم مداخلت کی پالیسی اپنانے کے خواہاں ہیں۔ طالبانی ترجمان محمد سہیل شاہین نے یہ واضح کردیا ہے کہ طالبان مخالفین موقف اختیار کریں گے اور ہندوستان میں مشکلات کا باعث بنیں گے، ایسا نہیں ہوگا اور یہ خوف حقیقی نہیں ہے اور نہ ہی یہ حقیقت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے جنگجوؤں کو ایک ایسے وقت جبکہ آزادی کے بعد اپنے ملک کی تعمیر جدید کی ضرورت ہے ہندوستان کی جانب کیوں روانہ کریں گے۔ ہمیں تو اپنے ملک کی تعمیر جدید اور ترقی کے لئے دوسرے ملکوں سے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ طالبان کسی دوسرے ملک کے داخلی امور میں مداخلت کی پالیسی نہیں رکھتے بلکہ ہم اپنے ہر عالمی شراکت دار کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں یہی طالبان کی پالیسی ہے۔ ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ وہ جمہوری طور پر منتخبہ حکومت کی تائید کرتا ہے اور وہ کسی بھی طرح طالبان کے حق میں نہیں ہے۔ حالانکہ ماسکو میں امن مذاکرات کے دوران بحیثیت مبصر ہندوستان نے بھی شرکت کی
