ریہا مُگل اور سواتی گپتا
پچھلے ماہ ہندوستان میں ایک مذہبی کانفرنس (دھرم سنسد) کا انعقاد عمل میں آیا۔ ایک ہندو انتہا پسند خاتون نے جو ہندو مذہب کی مقدس رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی، سر سے لے کر پاؤں تک زعفرانی لباس زیب تن کیا ہوا تھا، اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ مسلمانوں کو قتل کریں اور ہندوستان کا تحفظ کریں۔ پوجا شکون پانڈے اس خاتون مذہبی رہنما کا نام ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم میں سے 100 لوگ سپاہی بن جائیں اور 20 لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کیلئے تیار رہیں تب ہم یہ جنگ جیتیں گے اور ہندوستان کا تحفظ کریں گے۔ اسے ایک ہندو ملک بنائیں گے۔ پوجا شکون پانڈے دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیم ہندو مہا سبھا کی ایک سینئر رکن ہے۔ ہندو مہا سبھا دیکھا جائے تو ایک سیاسی پارٹی ہے لیکن مذہبی چولا اوڑھے بھولے بھالے ہندوؤں کو وہ بیوقوف بناتی ہے۔ اس وقت دھرم سنسد میں پوجا شکون پانڈے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف تشدد کی باتیں کررہی تھی اور اپنے منہ سے زہر اُگل رہی تھی، تب وہاں موجود دیگر مذہبی رہنماؤں نے اس کی زبردست ستائش کی اور شرکاء نے بھی تالیاں بجاکر اور نعرے لگاکر اس کا خیرمقدم کیا۔ یہ تمام مناظر شمالی ہند کے شہر ہری دوار میں منعقدہ تین روزہ مذہبی کانفرنس سے متعلق منظر عام پر آئے ویڈیوز میں دیکھے گئے ۔ اگرچہ دھرم سنسد میں پوجا شکون پانڈے کے بیان کا خیرمقدم کیا گیا لیکن ہندوستان بھر میں عوام نے برہمی کا اظہار کیا۔ عالمی سطح پر بھی تشویش ظاہر کی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسانے، ان کے قتل عام کی ترغیب دینے کے بعد تقریباً ایک ماہ ہوچکا ہے، اس کے باوجود ایک دو گرفتاریاں ہی عمل میں آئی ہیں۔ ریاستی اور مرکزی حکومت نے اس طرح کے قوم دشمن ریمارکس اور بیانات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ دونوں حکومتوں کی بے حسی پر لوگ ہنوز ناراض ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی مذہبی کانفرنسوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کیلئے ماحول بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ عدلیہ بھی خاموش رہی۔ ایسے میں جب دباؤ بڑھنے لگا تب عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور مرکزی حکومت کے اقدام اور ریاستی حکومت کے عہدیداروں کو ہدایت دی کہ وہ اندرون 10 دن رپورٹ پیش کریں اور بتائیں کہ انہوں نے اشتعال انگیزی کرنے والوں کے خلاف کیا اقدامات کئے۔ ہری دوار کے پولیس عہدیداروں نے سی این این کو بتایا کہ پوجا شکون پانڈے اور دیگر مذہبی رہنماؤں سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے اور یہ کام مذہبی عقائد کی توہین کرنے کے الزام میں مقامی پولیس کررہی ہے، اگر یہ الزام ثابت ہوتا ہے تو ملزمین کو چار سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پوجا شکون پانڈے اور نہ ہی دیگر نے برسرعام پوچھ گچھ کے بارے میں تبصرہ کیا۔ پچھلے جمعرات کو اُتراکھنڈ کی پولیس نے جہاں ہری دوار واقع ہے، ایک فرد کو گرفتار کیا، لیکن پولیس عہدیدار شیکھر سویال نے سی این این کو بتایا کہ یہ گرفتاری اہم گرفتاری ہے لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس شخص نے دھرم سنسد میں کیا کہا تھا ( ویسے بھی اس معاملے میں جیتندر تیاگی اور یتی نرسنگھانند جیسے دو عناصر کی گرفتاری عمل میں آئی ہے) یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پولیس کی بے حسی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ سی این این نے مرکزی وزارت اقلیتی اُمور، ہندو مہاسبھا اور شکون پانڈے سے ربط پیدا کیا لیکن کوئی ردعمل حاصل نہ ہوسکا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ہندو مہا سبھا سارے ہندوستان میں اپنا اثر رکھتی ہے اور تقریباً آٹھ سال قبل جب سے وزیراعظم نریندر مودی اقتدار میں آئے، تب سے انتہا پسند ہندو قوم پرست گروپوں کی تائید و حمایت کرنے والوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ اگرچہ یہ تینوں گروپس ، مودی کی بی جے پی سے راست تعلق نہیں رکھتے، اور نہ ہی ان تنظیموں کا مودی کے ہندو قوم پرستانہ ایجنڈے سے کوئی تعلق ہے اس کے باوجود مرکزی حکومت جس انداز میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس کی خاموشی فرقہ پرست عناصر کی تائید کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ کسی بھی مسئلہ پر خاموشی نیم رضامندی سمجھی جاتی ہے۔ مودی اور امیت شاہ کی معنی خیز خاموشی کو لے کر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور جس کے جواب مودی یا بی جے پی کے پاس نہیں۔ ایک ایسے وقت جبکہ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں، مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوگیا ہے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے سنگین خطرات پیدا ہوئے ہیں۔ دہلی کے قریب واقع اشوکا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر گیلیس ورنیرس کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ہندو مہا سبھا کو وہ کیا چیز ہے جو خطرناک بناتی ہے۔ وہ دراصل یہ ہے کہ ہندو مہا سبھا کئی دہوں سے موجودہ صورتحال کی منتظر تھی۔