ہندوستان، لڑکیوں کی قتل گاہ کا حامل ملک

   

رشمی سہگل
سال 2018 ء میں ہندوستان کو خواتین کے حق میں سب سے زیادہ پرخطر ملک قرار دیا گیا ۔ یہ مقام تھامسن ریوٹرس فاؤنڈیشن کے سروے کی بنیاد پر دیا گیا تھا ۔ اگر صرف گزشتہ چند ہفتوں کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کا تجزیہ کیا جائے تو ہندوستان کو لڑکیوں کے قاتل ملک کی حیثیت مل جائے گی جہاں پر عصمت دری ، عصمت ریزی اور اس کے بعد بہیمانہ ، بے دردانہ و بے رحمانہ صنف نازک کا قتل پورے یو پی اور مدھیہ پردیش میں آپ کو نظر آئے گا اور اکثر یہ معاملہ چھوٹے موٹے خاندانی جھگڑوں کی بنیاد پر پیش آئے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے آپ گورکھپور کے کشی نگر ڈسٹرکٹ کی مثال لے سکتے ہیں جہاں ایک 12 سالہ نابالغ و ناکردہ گناہ لڑکی کو 7 جون کو اس کے گھر سے باہر کھینچ کر بلکہ گھسیٹ کر لایا گیا اور اس کی 6 بظاہر انسان نظر آنے درندوں نے عصمت دری کی ۔ ان درندوں نے یہ گھناؤنی حرکت اس وجہ سے کی کہ اس معصوم کے گھر والوں سے پانی کی نکاسی کی تعمیر کے لئے کچھ جھگڑا ہوگیا تھا ۔ ان 6 بزدل درندوں میں سے 2 مفرور بتائے گئے ہیں جبکہ وہ معصوم ناکردہ گناہ لڑکی ابھی مقامی اسپتال میں ہنوز زیر علاج ہے ۔ اس گھناؤنے واقعہ کے دوسرے دن یعنی 8 جون کو ایک دس سالہ معصوم لڑکی یو پی کے ہمیر پور میں واقع ایک آخری رسومات انجام دینے جانے والے گراونڈ میں مردہ پائی گئی ۔اس معصوم کے افراد خاندان نے گلوگیر آواز میں اس بات کا اظہار کیا کہ اس کی عصمت دری کے بعد قتل کردیا گیا ۔ اسی طرح کانپور سے متصل جلاؤ ضلع میں سات سالہ معصوم لڑکی کی برہنہ نعش 9 جون کو پائی گئی جس کے بارے میں شبہ ظہر کیا گیا کہ اس کی عصمت دری کے بعد قتل کردیا گیا ۔ اس سلسلہ میں پولیس ذرائع نے بتایا کہ اس بدنصیب بیٹی کے باپ کا پڑو سیوں کے ساتھ کچھ جھگڑا تھا جو طویل عرصہ سے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا جو اس کے قتل کے بعد شائد منتج ہوگیا ۔ ہفتہ 8 جون کو بھوپال کے سلم علاقہ میں ایک 10 سالہ معصوم لڑ کی کے اغواء ، عصمت دری اور قتل نے پو رے بھوپال میں خوف کی لہر دوڑا دی اور اس بدنصیب کی نعش ایک گٹر میں پائی گئی اور جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کے باپ نے ایک مزدور کی مدد سے اُسے گٹر میں پھینکوا دیا تھا ۔ مدھیہ پردیش میں ایک چار سالہ معصوم لڑکی کی وحشیانہ طر یقہ پر 16 سالہ بدمعاش لڑکے نے عصمت ریزی کی ۔ یہ اندوہناک انسانیت کو شرمسار کرنے والا واقعہ 9 جون کو جبل پور میں پیش آیا ۔
اب آیئے پرگیہ ٹھاکر ، بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ بھوپال کی طرف جس نے متاثرہ بدنصیب لڑ کی کے گھر کو گئیں اور انہیں ڈھارس و تسلی اور پرسہ دیا اوراپنی ہمدردی جتائی ۔ لوک سبھا میں بھال کی نمائندہ شخصیت کی حیثیت سے پرگیہ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مدھیہ پردیش خواتین سے متعلق خطرناک جرائم کی فہرست میں ’’سرفہرست ‘‘ ہے۔ این سی آر بی یعنی نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے اعداد و شمار کی روشنی میں مدھیہ پردیش میں عصمت ریزی کے کیس میں پورے ملک میں پہلا مقام رکھتا ہے جہاں سال 2016 ء میں 4,882 عصمت ریزی کے کیسس رپورٹ ہوئے ۔ ان میں زائد از 50 فیصد یعنی 2,479 کیسس کا تعلق انتہائی کم سن معصوم لڑکیوں سے ہے۔
علیگڑھ میں واقع تپال میں 3 سالہ معصوم لڑکی کا قتل کیا گیا اور اسے بعد ازاں ایک کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا گیا جس کے بارے میں اخبارات میں سرخیاں لگیں ۔ واضح رہے کہ اس بدنصیب لڑکی کی گمشدگی کی خبر 30 مئی کو پولیس میں درج کروائی گئی تھی جبکہ اس کی نعش 2 جون کو پائی گئی ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کو پھندا لگاکر یعنی گلا گھونٹ کر مار دیا گیا اور پولیس نے اس کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے کسی بھی خدشہ کی نفی کی ہے تاہم ابھی یہ حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ ابھی یہ معاملہ زیر تحقیق ہے ۔ اس بہیمانہ قتل کے پس پردہ وجوہات میں بتایا گیا کہ اس نے 10 ہزار روپئے کے قرض کی تکرار کی قیمت اس نے ایک بھیانک موت کے ذریعہ ادا کی جو اس کے افراد خاندان اور ملزم میں چل رہا تھا اور اس قتل و درندگی کے بعد اس قتل کو نسلی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی ۔ ہزاروں کی تعداد میں اتوار کو تپال سرحد پر پہنچے اور قائد وشوا ہندو پریشد سادھوی پراچی کو علیگڑھ میں داخل ہو نے سے روک دیا۔
سال 2016 ء میں معصوم لڑکیوں کی جنسی ہراسانی میں 400 فیصد کا اضافہ ہوا ۔ یہ رپورٹ اور اعداد و شمار این سی آر بی کے پیش کردہ ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سال 2016 ء میں 20,000 (20 ہزار) معصوم لڑکیوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کی گئی جبکہ یہی اعداد و شمار سال 2015 ء میں 10,934 تھے ۔ یاد رہے کہ ان میں کئی عصمت ریزی کے معاملات معصوم لڑکی کے قتل پر منتج ہوئے ۔
سال 2010 ء میں 22,172 کیس ہندوستان میں 65 فیصد اضافہ کے ساتھ سال 2014 ء میں 36,735 کیسس درج ہوئے جبکہ اترپردیش میں سال 2010 ء میں 1563 کیسس کے بالمقابل 121 فیصد اضافہ کے ساتھ سال 2014 ء میں 3,467 کیسس درج کئے گئے ۔ یہ تمام اعداد و شمار این سی آر بی نے پیش کئے ہیں ۔ علاوہ ازیں کمسن نابالغ عصمت ریزی کرنے والے ملزمین نے سال 2015 ء میں 1688 کیس میں اضافہ کے ساتھ گزشتہ سال 1,903 کیس درج کئے گئے جو تقریباً 13 فیصد اضافہ کا اشارہ کرتا ہے ۔ ان سب اعداد و شمار کے پیش کرنے کے بعد میں (مصنف) یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ باوجود سخت قوانین ہونے کے ، خواتین کے ساتھ جنسی بدسلوکی اور فحاشی پر کیوں روک لگانے میں ناکام ثابت ہورہا ہے ۔ واضح رہے کہ نئے جنسی بدسلوکی و فحاشی کے انسداد کے قوانین سال 2013 ء میں مدون کئے گئے تھے جس میں کم ترین وقت مقدمہ میں لگاتے ہوئے ناسور نسانیت عصمت ریزی کے ملزمین کیلئے سخت ترین سزائیں تجویز کی گئی تھیں، اس سلسلہ میں جب ہیڈ آف سوسائٹی برائے پروموشن آف یوتھ اینڈ ماس ڈاکٹر راجیش کمار سے سوال کیا گیا کہ عصمت ریزی کے بعد بے دردانہ و بہیمانہ قتل کے واقعات میں زبردست اضافہ کیوں ہورہا ہے ، جو تہار جیل میں طفلانہ تقصیر / نابالغ عصمت ریزی کے ملزمین کے سلسلہ میں بھی کام کرتے ہیں۔ کمار نے کہا کہ ’’جب سال 2013 ء میں قانون میں ترمیم کی گئی تو میں (کمار) نے اس قانون میں موجود کمزوریوں اور نقائص کی طرف توجہ دلائی تاکہ اس میں مضبوطی لائی جاسکے ۔ انہوں نے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ اگر عصمت ریزی سے متاثرہ لڑکی زندہ رہتی ہے تو وہ اس (ملزم) کے جرم کی گواہ بن جاتی ہے جس کی وجہ سے ملزم اس متاثرہ بدنصیب لڑکی کو دنیا سے ہٹا دینے میں ہی عافیت خیال کرتا ہے اور یہ بھی انہوں نے واضح کیا کہ جن ملزمین نے اس جرم کو انجام دیا ہے ۔ چاہے وہ کھلے عام سڑکوں پر رہیں یا پھر جیل میں ، ان میں نہایت ہی کم فرق ہوتا ہے۔
کمار کا یہ کہنا بھی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ طفلانہ فحاشی سائٹس پر سخت ترین امتناع عائد کیا جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ ’’مغربی ممالک میں اس معاملہ میں سخت قوانین موجود ہیں ۔ اس کی ایک مثال جرمنی ہے جہاں ’’ چائیلڈ پورنوگرافی‘‘ کے تحت پکڑے جانے پر ملزمین کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے ۔ یہی چیز ہمارے ملک میں بھی لاگو کرنے کی ضرورت ہے ۔
سپریم کورٹ کی ایک سینئر ایڈوکیٹ ریبیکا جان کا احساس ہے کہ اس قسم کے جرائم کے سدباب اور بیخ کنی کے لئے اسے بڑے پیمانہ پر سامنے لانا اور انسداد کی بھرپور کوشش کی سخت ضرورت ہے ۔
’’ہمیں ان جرائم (عصمت ریزی و قتل) کی بیخ کنی کیلئے اس کی اصل جڑ یعنی اصل وجہ کو جاننے کی کوشش کرنا چاہئے اور اس جرم سے جڑے مسائل کو سمجھنا چاہئے ۔ ہمارے اس ملک ہندوستان میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے معاشی پسماندگی اور ذہنی صحت میں درماندگی خلط ملط ہوکر ان بہیمانہ و سفاکانہ جرائم کا سبب بن رہا ہے ۔ کیا ہماری ریاست (یعنی ریاستی حکومت) نے ان مسائل پر کبھی غور و فکر کیا ہے ؟ کیا وہ اس کے لئے جواب دہ نہیں ہے ؟ اس موقع پر حکومت ، بہروں والی خاموشی سے کام لیتے ہوئے خاموش ہوجاتی ہے ۔ یاد رکھئے کہ صرف سزاء میں اضافہ اس کا جواب نہیں ہے ۔ ریبیکا جان نے ان احساسات قلبی کا اظہار کیا ۔ ’’ہماری سوسائٹی اندرونی طریقہ پر پھٹ رہی ہے جیسا کہ قبل ازیں سری لنکا میں ہوا ۔ مسابقتی جمہوری سیاست کے خلفشار نے سماج میں طبقات کو جنم دیا ہے کہ جس کی وجہ ہماری سوسائٹی میں یہ تباہ کاریاں جنم لے رہی ہیں اور سوسائٹی کو زخم پر زخم لگ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری پولیس ابھی بھی اکثریت والے طبقہ کا ساتھ دیتی ہے جو کہ 1947 ء سے چلی آرہی ہے‘‘۔ ماہر سیاسی نفسیات اور سماجی تھیورسٹ ڈاکٹر آشیش نندی نے پرسوز انداز میں ان خیالات کا اظہار کیا۔
اس کے برعکس جئے پور کی سرگرم خاتون کارکن ڈاکٹر رینوکا پامیچا اس بات پر یقین رکھتی ہیں ان انسانیت سوز جرائم کے وقوع پذیر ہونے میں کئی دیگر امور بھی گہرائی میں مخفی ہیں۔ ’’1970 ء کے دوران ، ہم نے حکومتوں سے مہیلا صلاح اور سرکھشا کیندرا کا پولیس اسٹیشنوں میں سیٹ اپ کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ مظلوم خواتین کو فوری امداد بہم پہنچائی جاسکے۔
’’ہماری تکلیف کا تصور کیجئے کہ اس وقت جب وجئے راجے سندھیا نے اس اسکیم کے فنڈ میں کٹوتی کردی ۔ نہ صرف یہ بلکہ خواتین سے متعلق دیگر پیش قدمی والی اسکیمات میں بھی بڑی حد تک کمی کردی ۔ اس ضمن میں انہوں (سندھیا) نے کسی حساسیت کا ذرا بھی مظاہرہ نہیں کیا ‘‘۔ پاچیما نے بڑے ہی دکھ سے یہ باتیں بتائیں۔ اسی طرح بھوپال میں مقامی کارکنان اس قسم کے معاملات کی نشان دہی کی جبکہ سابق چیف منسٹر شیو راج سنگھ چوہان نے موافق خواتین اسکیمات کو ایک بعد ایک ختم کرنا شروع کیا تھا جو فنڈنگ میں زبردست کمی کے ذریعہ کیا گیا۔ ملک میں چند کیس نے عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جیسا کہ کٹھوعہ عصمت ریزی ، اس کی مثال ہے کہ جس میں ایک 8 سالہ معصوم لڑکی کا 7 انسان نما درندوں نے انتہائی سفاکیت سے عصمت ریزی کر کے بہیمانہ انداز میں کشمیر میں قتل کردیا تھا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ 7 ملزمین میں سے پیر (10 جون) کو اسپیشل کورٹ نے 6 ملزمین کو مجرم گردانتے ہوئے 3 ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی۔
ایک بار پھر اس کیس کو اس طریقہ سے فرقہ وارانہ طور پر ابھارا گیا کہ ہندو ایکتا منچ نے ملزمین کی حمایت میں ریالی منعقد کی ۔ قانون دانوں اور متاثرین کے خاندانوں پر اتنا دباؤ بنایا گیا کہ اس کیس کی سماعت کو دوسری ریاست میں منتقل کرنا پڑا۔ عصمت ریزی کے کیس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کو اب ختم کردینا نہایت ہی ضروری ہے ۔ مزید برآں ، حکومت اور خود ساختہ مہذب سماج کو بہتر حل کے ذریعہ موجودہ مسائل کو حل کرنا اور سماج کا ان میں انضمام اشد ضروری ہے تاکہ ہمارے سماج کی بیٹیوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا رویہ کو یکسر ختم کیا جاسکے ۔