پی چدمبرم
کچھ دن قبل کئی اخبارات میں شائع ایک سرخی نے مجھے چونکا دیا جب میں نے وہ سرخی پڑھنی شروع کی، میری حیرت میں اضافہ ہوتا گیا اور وہ سرخی کچھ اس طرح تھی ’’ہندوستانیت واحد ذات‘‘ یہ ایک اسٹوری یا کہانی کی سرخی تھی جس میں وزیراعظم کی تقریر کے بارے میں بتایا گیا۔ وزیراعظم نے دراصل ’’سیواگری یاترا‘‘ کی 90 ویں سالگرہ تقاریب کے ورچول افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ہندوستانیت واحد ذات ہے۔ واضح رہے کہ کیرالا سے تعلق رکھنے والے سنت اور فلسفی سری نارائن گرو کے اعزاز میں ہر سال یہ تقاریب منائی جاتی ہیں۔ سری نارائن گرو کی پیدائش 1856ء میں ہوئی اور 1928ء میں ان کا دیہانت ہوا۔ سری نارائن گرو کی تعلیمات سے راقم کی واقفیت اور شیواگری کے دورہ نے مجھے یہ یقین دلایا کہ وہ ایک شناخت کے طور پر ذات پات کے سخت خلاف تھے اور اپنی ساری زندگی انہوں نے ذات پات کی بنیاد پر برتے جانے والے امتیاز کے خلاف لڑا ۔ شیواگری میں ان کے آشرم کا نعرہ ’’اوم ساہو دریم سروترا‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔ کوئی ادنیٰ اور اعلیٰ نہیں ہے۔
لفظ کا غلط انتخاب
نریندر مودی ہندوستان کے وزیراعظم ہیں جوکہ ایک آئین یا دستور کے تحت ایک جمہوریہ ہے، یعنی ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے، ہم ہندوستان کے عوام نے اپنے آپ کو وقف کرنے کا پختہ عزم کیا ہے۔ آئین ریاستوں، مذاہب، مذہبی فرقوں، زبانوں، ذاتوں اور چھوت چھات کے بارے میں اپنا خصوصی موقف رکھتا ہے۔ ہمارے ملک کا آئین ان چیزوں کو تسلیم کرتا ہے جو ملک اور عوام کے مفاد میں بہتر ہو جبکہ وہ ذات پات پر مبنی چھوت چھات کو ہرگز ہرگز تسلیم نہیں کرتا بلکہ ہندوستانی آئین اس طرح کی سماجی برائیوں و بیماریوں کو ختم کرنے کا وعدہ کرتا ہے (یعنی اس قسم کی برائیوں پر عمل کو ختم کرنے کا وعدہ کرتا ہے) ساتھ ہی آئین کئی طریقوں سے حاصل کی جانے والی شہریت کو تسلیم بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر پیدائشی، موروثی، رجسٹریشن،نیچرلائزیشن، ہجرت یا Migration (یعنی معاملات میں) ایسے طریقے ہیں جس کے ذریعہ شہریت حاصل کی جاتی ہے۔ اب چلتے ہیں لفظ ’’انڈیا‘‘ کی جانب یہ لفظ بہت سے مضامین میں پایا جاتا ہے اور لفظ ’’انڈین‘‘، اینگلو انڈین، انڈین اسٹیٹ اور انڈین انڈی پینڈینس ایکٹ 1947 کے تناظر میں ظاہر ہوتا ہے۔ مجھے کہیں پر بھی لفظ ’’ہندوستانیت‘‘ Indianess نہیں ملا۔
جہاں تک ذات کا سوال ہے، انگریزی زبان میں یا کسی بھی ہندوستانی زبان میں ذات کا ایک ہی مطلب ہے ’’جاتی‘‘ اور یہ لفظ ان بے شمار برائیوں کو ذہن میں لاتا ہے جو ذات پات کے نظام سے وابستہ تھیں اور آج بھی ہیں۔ میں اس جذبہ کو سمجھتا ہوں جس میں وزیراعظم نے یہ لفظ استعمال کیا ہوگا لیکن اس لفظ کا انتخاب بدقسمتی اور غلط تھا۔
واحد شناخت کا استرداد
ہندوستانیت کو ذات کے برابر قرار دینا یا مساوی کرنا خطرناک ہے۔ ذات کے سخت اصول و قواعد ہیں اور ان اصول و قواعد کے تحت قبیلہ کے اندر شادی کرنے کا رواج پایا جاتا ہے اور ان اصولوں کو توڑنا کئی نوجوان جوڑوں کیلئے بہت مہنگا پڑا۔ انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور ان اصولوں کو توڑنے کے نتیجہ میں کئی جوان زندگیاں تلف ہوئیں۔ ذات افراد کے ایک گروپ کو ممتاز کرتی ہے اور اکثر و بیشتر یہ لوگوں کے دو گروہوں کے درمیان عداوت کی لہر چلاتی ہے۔ ذات سے وفاداریاں اور تعصبات مذہب کے تئیں وفاداری سے کہیں زیادہ مضبوط اور مذہبی تعصبات کی طرح شدید ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ عرصہ قبل تک مذہب کو کم سمجھا جاتا تھا۔ ذات پات کا برملا اظہار کیا جاتا تھا لیکن اب مودی حکومت میں مذہب اور ذاتوں دونوں کا کئی لوگ برملا اظہار کررہے ہیں۔
ایک بار جب ذات کو بلند کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ بتایا جاتا ہے تو یہ ذات کی گھناؤنی یا ناگوار خاصیت کو منظر عام پر لاتی ہے۔ ذات Insular Exclusive ہے جس میں اکثر شادی بیاہ، غذا (کھانے پینے) لباس، عبارت وغیرہ کے تعلق سے سخت اور عام طور پر غیرلچکدار قوانین پائے جاتے ہیں۔ ذات ایک واحد شناخت بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر ہندوستانیت کا مقصد بھی ایک شناخت بنانا ہے تو یہ تنوع اور تکثیریت کا قطبی مخالف ہے۔ لاکھوں ہم وطنوں کی طرح میں بھی بی جے پی کی جانب سے واحد یا ایک شناخت بنانے کی کوششوں کو مسترد کرتا ہوں۔ وزیراعظم مودی کے بیان نے مجھے بابا صاحب امبیڈکر کی جانب سے ذات کا خاتمہ نامی کلاسک تقریر کو (جو تیار کی گئی تھی لیکن پیش نہیں کی گئی) دوبارہ پڑھنے پر آمادہ کیا۔ یہاں اس تقریر کے کچھ خاص حصے پیش کررہا ہوں۔
٭ ہندوؤں کے اخلاقیات پر ذات کا اثر نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ذات پات نے عوامی جذبہ کو تباہ کردیا ہے۔ ذات پات نے خیراتی جذبہ کو تباہ کیا۔ رائے عامہ کو ناممکن بنادیا۔
٭ ذات پات سے زیادہ سماجی نظم کا کوئی نظام نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ نظام ہے جو لوگوں مردہ، مفلوج اور معذور کردیتا ہے۔
٭ اس میں کوئی شک نہیں کہ میری رائے میں جب تک آپ اپنے سماجی نظام کو نہیں بدلیں گے تب آپ ترقی کے بہت کم ثمرات حاصل کرسکتے ہیں، آپ کمیونٹی کو اپنے دفاع یا جرم کیلئے متحرک نہیں کرسکتے۔ آپ ذات پات کی بنیادوں پر کچھ بھی تعمیر نہیں کرسکتے۔ذات پات نے سماجی اور معاشی عدم مساوات کو دوام بخشا ہے۔ دیہاتوں میں خاص طور پر کسی کی ذات اور اس ذات سے تعلق رکھنے والوں کی عددی طاقت (گاؤں تعلقہ یا ضلع میں) سماجی اور سیاسی ساخت اور سماجی اثر و رسوخ و سیاسی طاقت کی تقسیم کا تعین کرتی ہے۔ ہمیشہ آخرالذکر معاشی مواقع کا تعین کرتا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ (اراضی کی ملکیت) یا بینک کا قرض یا پھر سرکاری ملازمت حاصل کرنا کسی کی ذات یا ذات کی عددی طاقت سے متاثر ہوتا ہے۔ خانگی شعبہ بھی اس سے بہتر نہیں ہے۔ غیررسمی ؍ غیرمنظم شعبہ میں یا مائیکرو اور چھوٹے کاروباری اداروں میں زیادہ تر ملازمین اس ذات کے لوگوں کے پاس جاتی ہیں جن کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔
ظاہر ہے کہ ہر ہندوستانی میں ایک خوبی ہوتی ہے، جسے ہندوستانیت کہا جاسکتا ہے۔ میں اس کی تعریف نہیں کروں گا لیکن ایک ہندوستانی کے ناطے ایک ملک سے تعلق رکھنے کا ناقابل فہم احساس ہے۔ میں اس نتیجہ پر پہچتا ہوں کہ ہندوستانیوں کو شہریت کے ساتھ مساوی کیا جانا چاہئے۔ آئین کے تحت جمہوریت کے تصور کے مطابق ایک شہری جو ہندوستان کے دستور کے بنیادی ڈھانچہ میں تعین رکھتا ہو اور اس کے بنیادی اصولوں سے وفاداری کا مرہون منت ہو، وہ ہندوستانی ہے۔ ہمیں ہندوستان کو ذات پات کی وفاداریوں سے چھٹکارہ دلانا چاہئے اور عوام کو آزادی، آزادی خیالی، مساوات، رواداری، سکیولرازم اور جمہوریت جیسی عالمی اقدار کو منوانے کیلئے تعلیم دینا چاہئے۔