موہن مورتی
ہم ایسے ہندوستانی ہیں جنھوں نے ملکہ ایلزیبتھ کی انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کی لیکن جمہوریہ ہند یا ہندوستانی جمہوریت میں پرورش پاتی یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے شیکسپیر کی زبان کو کچھ ایسا شاندار بے باک اور اپنی مرضی و منشا کے مطابق بنادیا باالفاظ دیگر اس زبان کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا کہ اب وہ پوری طرح سے ہماری ہوگئی ہے ۔ ہم اس زبان کو جیسے چاہے استعمال کرسکتے ہیں اسے اہم موڑ دیتے ہیں ، وسعت دیتے ہیں غرض انگریزی زبان کی لچک سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں اور کبھی کبھار تو انگریزی زبان کو ہم نئی شکل دیتے ہیں جس کا نتیجہ انڈین انگلش ، ( ہندوستانی انگریزی ) کی شکل میں برآمد ہوا جو اس قدر تخلیقی ہے کہ برطانوی انگریزی کو تک اُلجھادیتی ہے ۔ امریکی انگریزی کو حیرانگی سے دوچار کردیتی ہے اور خود ہمیں ایک ایسی خوشی دیتی ہے جس کی کوئی حد نہیں ۔ اب ذرا اپنے قومی خزانہ ڈکی پر غور کیجئے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کار کی ڈکی کس طرح قومی خزانہ ہوسکتی ہے ۔ آپ کا سوچنا بالکل درست ہے ۔ ہندوستان میں ہم اپنے کار کی ڈکی میں اچھا خاصا سامان رکھ کر منتقل کرتے ہیں لیکن امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ امریکہ میں اگر کوئی ایسا کام ( کار کی ڈکی میں سامان رکھ کر منتقل کرتا ہے تو ) کرتا ہے تو اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔ امریکہ میں ایسی حرکت ایک شرمناک حرکت سمجھی جاتی ہے ۔ ایسی حرکت جس پر آپ کے خلاف HR میں رپورٹ کی جائے ۔
جنوبی ہند کی ریاست کیرالا میں ہم صرف انگریزی نہیں بولتے بلکہ اس میں ملیالم زبان کی ملاوٹ کردیتے ہیں یعنی انگریز پر ملیالم زبان کا رنگ چڑھادیتے ہیں ۔ ہم پر اعتماد انداز میں Open the Light کہتے ہیں اور وہاں یہ بات بالکل درست سمجھی جاتی ہے ۔ جنوبی ہند کی ایک اور ریاست میں انگریزی قواعد یا گرائمر بھارتیہ ناٹم رقص کی طرح مڑی ترتیب میں نظر آتی ہے ۔ ” I am Coming da! ” مطلب “I am going” ہوتا ہے ۔ باالفاظ دیگر میں آرہا ہوں کا مطلب میں جارہا ہوں ہوتا ہے ۔ ’’یور گڈ نیم پلیز ‘‘ یہ جملہ ایک ہی وقت میں سوال بھی ہے اور پیارا بھرا انداز بھی اور یہاں لفظ Only آزادانہ سفر پر دکھائی دیتا ہے۔ He told me Only یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے مجھے بتایا ، مجھے ہی بتایا ، میرے سواء کسی کو نہیں بتایا ! ہمارے ملک کے شمالی حصہ یعنی شمالی ہند کی طرف بڑھیں ، وہاں انگریزی اپنے سر پر پگڑی باندھ لیتی ہے ۔ پنجابی تو اس زبان میں ایک نئی توانائی بھردیتے ہیں ۔
“Why fear when i am here” ( جب میں ہو ںتو خوف کیسا ؟ ) وہ دھاڑتے ہیں ایک جملہ نامکمل سمجھا جاتا ہے جب تک اس میں پرزور آواز ، ردھم اور یقینا بھنگڑا کی دھن نہ ہو ۔ اس کے بعد آتی ہے ہماری ممبئی انگلش آدھی ہندی ، آدھی فلمی مگر بھرپور و پرکشش انداز کے ساتھ ۔ مثال کے طورپر Full light party scene bossیا Timepass only re یہ شہر کی ایک طرح سے زبانی چٹنی ہے ۔ اس کے علاوہ تیز شور مچانے والی زندہ دلی سے بھرپور زبان۔ جہاں تک ہمارے اپنے لب و لہجہ کا سوال ہے اس کی بھی اپنی الگ کہانیاں ہوتی ہیں ۔ ملو ( ملیالم بولنے والے ) کا لہجہ ناریل کے تیل کی طرح رواں دواں ہے ۔ تمل لب و لہجہ چنبیلی کی کلیوں کی طرح نرم و نازک ، پنجابی لہجہ خوشی اور جوش و خروش سے بھرپور یعنی فرط مسرت سے اُچھلتا کودتا اور ممبئی والا لہجہ فلمی انداز میں اکڑ کے ساتھ چلتا ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ تمام لہجے ملکر انگریزی کو ہندوستان کی طرح بنادیتے ہیں ۔ موسیقی سے بھرپور اُلجھا ہوا مگر زندہ لب و لہجہ ۔
پھر آتا ہے ٹفن باکس ، ٹفن باکس کیا ہوتا ہے ؟ ایک معمولی سا اسٹیل کاڈبہ جو ہر اسکول جانے والے بچہ بچی اور دفتر جانے والے کا ساتھی ہوتا ہے ۔ اگر آپ کسی امریکی شہری سے کہیں گے کے I forgot my Tiffin ( میں اپنا ٹفن بھول گیا ) تب وہ شائد آپ کو ٹیکہ لگانے کامشورہ دے ۔ ہم گریجویٹ نہیں ہوتے بلکہ Pass Out ہوتے ہیں ۔ یہ وہ جملہ ہے جو امریکیوں کو گھبراکر 911 پر کال کرنے پر مجبور کردیتا ہے لیکن ہندوستان میں یہ تعلیمی کامیابی کی فخر سے پُر علامت ہے۔ دوسری طرف جب ہمیں کوئی کام کروانا ہوتا ہے تو ہم اپنے ای میل کااختتام مودبانہ طورپر اس طرح کرتے ہیں Kindly do the needful ہندوستان کے باہر کوئی نہیں جانتا کہ Needful کا مطلب کیا ہے لیکن اس کے برعکس ہر ہندوستانی Needful کا مطلب فطری طورپر سمجھ جاتا ہے اور یوں ہم ذمہ داری دوسرے شخص کو منتقل کردیتے ہیں ۔ اور ظاہر ہے ہم کام کبھی بھی Postpone ( موخر) نہیں کرتے بلکہ Prepone کرتے ہیں اور شائد انگریزی زبان میں یہ ہمارا سب سے شاندار اضافہ ہے ۔ ایک لسانی ایجاد جو ہماری تاخیر کے خلاف بے صبری و بے چینی سے پیدا ہوئی ۔ دلچسپی اور خوشی کی بات ہے کہ اب تو آکسفورڈ ڈکشنری نے بھی اسے پورے احترام کے ساتھ قبول کرلیا ہے ۔ ہمارے خاندانی رشتہ بھی ایک الگ ڈرامے پیش کرتے ہیں ۔ جب ہم فخر سے یہ کہتے ہیں Meet my Cousin Brother ہم فخر سے کہتے ہیں اور مغربی لوگ حیرت سے بھنویں چڑھاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کزن تو صرف کزن ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں تو خونی رشتوں کی بھی بے شمار ذیلی اقسام ہوتی ہیں ۔
اگر آپ کسی ہندوستانی ہوٹل میں جائیں تو ممکن ہے آپ کو کوئی کمرہ دستیاب نہ ہو ۔ وہاں آپ کو صرف گرما گرم اڈلی اور فلٹر کافی ملے ۔لندن کے ہلٹن ہوٹل کے استقبالیہ پر جاکر دوسہ آرڈر کرنے کی کوشش کریں تو آپ فوراً سمجھ جائیں گے کہ انگریزی زبان دنیا بھر میں ایک رابطے کی زبان کے طورپر مقبول ہے مگر اس کے معنی وہیں کے وہیں رہ گئے ہیں۔
یہ کبھی ڈو ون تھنگ اور وہ مشہور ہندوستانی جملہ ایک پر ختم نہیں ہوتا ۔ یہ ہمارا مخصوص انداز ہے جس میں ہم کسی کو آہستگی سے پورے منصوبے میں شامل کرتے ہیں ۔ ایک کام سے شروع کرکے بارہ پر ختم کرتے ہیں ۔ ربر مانگیں تو آپ کو ہندوستانی اسکول کے کلاس روم میں نہیں ملے گا مگر کسی امریکی کلاس روم میں یہی Eraser کہیں تو آپ کو شاید سزا مل جائے ۔
جب ہمارے باس بیرونی سفر پر ہوتے ہیں تو ہم کال کرنے والے باوقار لوگوں سے کہتے ہیں Sir is Out of Sataion یہ کسی ریلوے اسٹیشن کے اعلان کی طرح لگتا ہے لیکن ہمارے ملک میں اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ باس شہر میں نہیں ہیں۔ ہماری عادتوں میں Adjust کرنے کی عادت بھی نمایاں ہے ۔ We’ll adjust ، ہم ٹال مٹول نہیں کرتے ہم سب یہی کہتے ہیں ہم خود کو حالات کے حساب سے ڈھال لیں گے ۔
یہ ہماری ایک طرح سے قومی فنکاری ہے جو تنگ و تاریک جگہوں ، مشترکہ خاندانوں اور وقت کی قلت سب پر لاگو ہوتی ہے ۔ گودام کے لئے ہندوستانی لفظ godown ہے اگر ہم یہ لفظ کسی امریکی سے کہیں کہ آپ کا سامان گودام میں ہے تو وہ شائد سمجھے کہ کوئی حادثہ پیش آیا ہوگا ۔ ہمارا فاضل وقت یا فرصت کا وقت بھی تخلیق سے بھرا ہوا ہے جہاں اگر دوسرے وقت ضائع کرتے ہیں تو ہم اُسے Timepass کہتے ہیں ۔ یہ زندگی کے فلسفیانہ قبولیت کی ایک شکل ہے جب آپ وقت ضائع نہیں کرتے گذارتے ہیں تو سمجھئے یہ ایک مشغلہ بن جاتا ہے۔