یوگیندر یادو
ہندوستان میں جاری اینٹی سی اے اے۔ این آر سی۔ این پی آر موومنٹ کیلئے ہماری پسند یا ناپسند کو کچھ دیر کیلئے فراموش کیجئے۔ ہمارے ٹی وی یا موبائل اسکرینس پر نظر ڈالیں اور خود سے سوال کریں: ایسا آخری مرتبہ کب ہوا تھا جب ہم نے اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو کسی ملک گیر سیاسی احتجاج میں حصہ لیتے دیکھا؟ ہم کو کتنی بار دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین ایسے مسئلہ پر سڑکوں پر آئیں جو خصوصیت سے اُن کیلئے نہیں ہے؟ کیا ہمیں یاد ہے کہ خواتین ہندوستان میں کسی تحریک کی مثالی تصویریں بنی ہیں؟ ان سوالات کے جوابات ہمیں جاریہ سٹیزن شپ موومنٹ کے ایک بہت نمایاں خصوصیت کے تعلق سے سوچنے کی دعوت دیں گے: خواتین سیاست کی گرامر (صَرف و نحو) کو ازسرنو عبارت کررہی ہیں۔
میں نے اِس پہلو کا مشہور شاہین باغ دھرنا سے کافی قبل مشاہدہ کیا جب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کو شہریت (ترمیمی) قانون کے بارے میں وہاں طلبہ سے خطاب کیلئے گیا تھا۔ اڈمنسٹریشن کے احکام کی عدم تعمیل میں گفتگو و بات چیت کا انعقاد یونیورسٹی کی گیٹ کے پاس ہوا۔ میری تقریر نصف ہوئی تھی ہوگی کہ ہلچل پیدا ہوگئی کیونکہ زیادہ تر مرد سامعین تقریباً 50 ویمن اسٹوڈنٹس کیلئے راہ فراہم کرنے لگے تھے، جو اگلی نشستوں پر بیٹھ گئیں۔ میں نے تقریر میں توقف کیا تاکہ ان کو سن سکوں جو وہ بولنا چاہتی تھیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ویمنس ہاسٹل شام 5:30 بجے بند کردیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنی وارڈن سے درخواست کی تھی کہ انھیں اس جلسہ میں شرکت کیلئے خصوصی اجازت دی جائے۔ انکار کئے جانے پر انھوں نے فی الواقعی ہاسٹل گیٹ کا قفل توڑا اور باہر آئیں۔ میں نے ان میں سے بعض کو اظہار خیال کی دعوت دی اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ وہ کس قدر مربوط اور باخبر ہیں۔ مزید حیرانی ہوئی کہ وہاں کوئی بھی دیگر متعجب نہیں ہوا۔
گزشتہ ایک ماہ کی تصاویر نے تصدیق کردی ہے کہ ہندوستان کے سیاسی کلچر میں کچھ تو تبدیلی آرہی ہے: جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبات کا اپنے مرد ساتھیوں کو پولیس لنچنگ سے بچانا، پڈوچیری اور جادوپور یونیورسٹیوں کی ویمنس اسٹوڈنٹس کا اپنی کانووکیشن تقریبات کے ذریعے مخالف سی اے اے بیانات دینا، صدر جے این یو ایس یو آئشی گھوش کا نقاب پوش غنڈوں کے ہاتھوں سلاخ کی ضرب کھانے کے بعد تحمل اور عزم کا مظاہرہ پیش کرنا۔ ہمیں ایسے مناظر بار بار دیکھنے میں نہیں آتے ہیں۔
اور پھر کئی شاہین باغ جو ملک بھر میں اُبھرتے جارہے ہیں۔ اپنے محلہ سے قریب دھرنا منظم کرنے کا خیال شاندار اقدام ہے کیونکہ اس نے خواتین کی شرکت کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کردیا ہے۔ میں ابھی تک اس طرح کے تین احتجاجوں میں شریک ہوا ہوں: دہلی کے اوکھلا میں واقع اصل شاہین باغ، مشرقی دہلی کے خوریجی علاقہ میں اس کی نقل اور کولکاتا کے پارک سرکس میں جاری دھرنا۔ ان مقامات کی تقریباً تمام خواتین کسی بھی قسم کے احتجاج کیلئے نئی ہیں، کسی سیاسی گروپ کی ترغیب پر جمع نہیں ہوئی ہیں۔ وہ زیادہ تر متوسط اور نچلے متوسط طبقہ کی تعلیم یافتہ خواتین ہیں۔ یہ خواتین سیاسی تقاریر کرنے کی عادی نہیں ہیں، لیکن وہ جانتی ہیں کہ انھیں اپنا ما فی الضمیر پیش کرنا آتا ہے۔ ان میں سے کئی حجاب لگاتی ہیں؛ پارک سرکس میں ایک نعرہ میں نے سنا کہ ’’حجاب پہننے کی آزادی‘‘، پھر بھی وہ احتجاج میں شرکت سے شرماتی نہیں، نہ اُن کی زبان لڑکھڑاتی ہے۔ انھوں نے نعرے بازی کا فن کافی تیزی سے سمجھ لیا ہے۔ ہر جگہ میں نے نوٹ کیا کہ کالج یا اسکول جانے والے اسٹوڈنٹس قیادت کررہے ہیں یا احتجاج کے تقاضوں میں رابطہ قائم کررہے ہیں۔
کسی تحریک میں مسلم خواتین کی سرعام شرکت ہی ہندوستان کی احتجاجوں کی تاریخ سے بہت نمایاں انحراف ہے۔ خواتین کے ان مخصوص احتجاجوں سے ہٹ کر مخالف سی اے اے۔ این آر سی تحریک میں خواتین کی تعداد نمایاں طور پر بڑھ کر ہے۔ اور یہ محض اس لئے نہیں کہ آسام کے احتجاجوں میں ہمیشہ خواتین کی معقول تعداد ہوتی ہے۔ اِس مرتبہ بقیہ ملک نے لگتا ہے کہ آسام سے حوصلہ پایا ہے۔ جنتر منتر، انڈیا گیٹ یا گیٹ وے آف انڈیا میں تمام اجتماعات میں خواتین زیادہ تر غیرمسلم کی واضح موجودگی دکھائی دی۔
کوئی شک نہیں کہ یہ تبدیلی یکایک نہیں بلکہ بتدریج ہوئی ہے۔ کمیونٹی کی تنظیموں کی جانب سے نماز کے بعد کی بعض ریلیاں اور جلوس ہنوز صرف مرد افراد کا معاملہ ہوتے ہیں۔ خواتین کے احتجاج میں ہنوز زنانہ۔ مردانہ کا سخت جنس کا فرق ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ خواتین کے دھرنوں میں زیادہ تر مقررین اب بھی مرد ہیں۔ خواتین کی بعض مشکلات کا تذکرہ ہوتا ہے، لیکن بقیہ ایجنڈا مردوں کی آواز سے بہت مختلف نہیں ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ خواتین کو پیش منظر میں رکھنا جزوی طور پر حکمت عملی کا حصہ ہے کیونکہ اس سے پولیس کارروائی محدود ہوجاتی ہے اور مناظر سے زیادہ ہمدردی حاصل ہوتی ہے۔
پھر بھی گیم کے قواعد تبدیل ہورہے ہیں۔ کبھی خواتین اپنے گھروں کے حدود سے باہر نکلنے میں پس و پیش کرتی تھیں، اب انھیں اپنی نجی زندگی تک محدود رہنے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مختصر مدت میں وہ پڑوس کے مرد افراد کی جانب سے مسلسل ہدایتیں دینے کی کوششوں کی مزاحمت کرنا سیکھ چکی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ہندوستانی سماج میں اُس سے کہیں زیادہ فطری خاتون لیڈرس ہیں جس کا ہماری پبلک لائف اعتراف کرتی ہے۔ ہندوستان میں تمام برادریوں کیلئے مساوی شہریت کیلئے تحریک تمام جنس والوں کیلئے مساوی شہریت کے تئیں موومنٹ میں فیصلہ کن موڑ ہوسکتی ہے۔
[email protected]