ہندوستانی سیاست اور بوڑھے سیاست داں

   

راج دیپ سردیسائی
سبکدوش اُس وقت ہوجایئے جب لوگ کہیں کیوں اور اس وقت نہ ہوں جب لوگ کہیں کیوں نہیں۔ یہ بات عظیم کرکٹر وجئے مرچنٹ نے کہی تھی۔ انہوں نے 1951ء میں انگلینڈ کے خلاف شاندار سنچری اسکور کرنے کے ایک دن بعد ٹسٹ کرکٹ سے سبکدوش کا اعلان کیا تھا۔ ان کی وہ بات آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کھیل ہو یا سیاست لوگ اچھی خاصی عمر کے باوجود بھی اس سے چپکے رہتے ہیں اور دوسرے لوگ کہنے لگتے ہیں کہ آخر کیوں؟ یہ نوبت آنے سے پہلے ہی کھلاڑی اور سیاست داں کو اپنے اپنے شعبہ سے سبکدوش ہوجانا چاہئے۔ جہاں تک سبکدوشی کا سوال ہے، آپ کی سبکدوشی کا وقت کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ کم از کم کرکٹ میں۔ کیونکہ وہاں ایک سلیکشن کمیٹی ہوتی ہے جو آپ کو کرکٹ سے سبکدوشی کیلئے اشارہ کرسکتی ہے۔ اس کے برعکس سیاست میں کسی قسم کی سبکدوشی کی عمر ہوتی ہے اور نہ ہی ادارہ جاتی میکانزم ہوتا ہے جو بڑی عمر کے سیاست دانوں کو ہٹا کر نوجوان سیاست دانوں کو ان کی جگہ لائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی سیاست میں نسلی تبدیلی کو یقینی بنانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ عرصہ کے دوران پنجاب میں جو سیاسی بحران پیدا ہوا اور پھر جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، وہ ہمارے سامنے ہیں، جہاں 79 سالہ چیف منسٹر کو عملاً عہدہ چھوڑنے کیلئے مجبور کیا گیا۔ 2017ء میں کیپٹن امریندر سنگھ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا آخری انتخاب لڑ رہے ہیں، پھر جاریہ سال کے اوائل میں انہوں نے اچانک اپنا ذہن تبدیل کرلیا اور اس بات پر زور دینے لگے کہ وہ عوام کی خدمت جاری رکھیں گے اور آخرکار کیپٹن امریندر سنگھ جن تک عوام اور قائدین کی رسائی ناممکن ہوگئی تھی، ایک بے حس جنرل کی طرح اپنے ارکان اسمبلی اور لوگوں سے کٹ کر رہ گئے تھے۔ پھر بھی وہ سیاسی میدان جنگ سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں تھے جس کے باعث کانگریسی قیادت نے اس مشکل ترین صورتحال سے نمٹنے کیلئے حرکت میں آکر انہیں باہر کا دروازہ دکھادیا۔ کیپٹن امریندر سنگھ واحد کانگریسی لیڈر نہیں جو ایک طویل اننگز کھیلنے کے باوجود بھی اقتدار میں رہنے کے خواہاں ہیں۔ راجستھان کی مثال ہمارے سامنے ہے، 70 سالہ اشوک گہلوٹ تین مرتبہ چیف منسٹر رہنے کے باوجود عمر میں اپنے سے کہیں چھوٹے حریف سچن پائلٹ کے حق میں ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف اتراکھنڈ ہے جہاں 73 سالہ ہریش راوت ہنوز آئندہ سال ہونے والے انتخابات کیلئے اپنی پارٹی کا چہرہ بننے کی امید رکھتے ہیں۔
ہریانہ میں دو مرتبہ عہدۂ چیف منسٹری پر فائز 74 سالہ بھوپیندر سنگھ ہوڈا ہنوز اس بات کا خواب دیکھ رہے ہیں کہ وہ عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہونے کی ہیٹ ٹرٹ بنائیں گے یعنی تیسری مرتبہ بھی چیف منسٹر بنیں گے۔ مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ اور ڈگ وجئے سنگھ جو اپنی عمر کے 7 ویں دہے میں ہیں، اقتدار کیلئے نوجوان جیوتر آدتیہ سندھیا سے الجھ پڑے اور اقتدار پر برقرار رہنے کی کوشش کی، خود کانگریس ورکنگ کمیٹی میں ایسے قائدین کی اکثریت ہے، جن کی عمریں 70 اور 80 سال کے درمیان ہے۔ دوسری جانب بی جے پی کا حال بھی کانگریس سے بہتر نہیں تھا بلکہ اس مصیبت میں وہ بھی مبتلا تھی اور پھر بی جے پی میں ساڑھے سات سال قبل وزیراعظم نریندر مودی کی ڈرامائی آمد ہوئی اور نئے وزیراعظم نے جو پہلا کام اپنی پارٹی کیلئے کیا، وہ مارگ درشک منڈل کی تشکیل تھا۔ اس منڈل میں پارٹی کے ممتاز اور بزرگ لیڈروں کو شامل کیا گیا تاکہ وہ پارٹی قیادت کی رہنمائی کرسکیں۔ دراصل مارگ درشک منڈل کہنے کو تو پارٹی کے بزرگ رہنماؤں کی ایک مجلس ہے، لیکن اس کے پیچھے کچھ اور ہی تھا۔ حقیقت میں ایسے بزرگ لیڈروں کو بی جے پی کی تمام اہم فیصلہ ساز کمیٹیوں سے نکال باہر کرنے کیلئے یہ باڈی تشکیل دی گئی تھی، کیونکہ نئے وزیراعظم اپنی پارٹی کے بزرگ قائدین کو واضح طور پر سبکدوش ہونے کیلئے نہیں کہہ سکتے تھے اور نہ ہی وہ ان پر جبراً سبکدوشی کا لیبل چسپاں کرسکتے تھے ان حالات میں مارگ درشک منڈل قائم کرتے ہوئے پارٹی کے اہم بزرگ قائدین کو باہر کا راستہ دکھایا گیا جس میں خود مودی کے اتالیق ایل کے اڈوانی بھی شامل تھے۔ آج ان رہنماؤں کا کوئی مقام نہیں ہے، حالانکہ ان لوگوں نے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ مودی نے ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے پارٹی میں 75 سال سے زائد عمر کے قائدین کو عہدے نہ دینے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بی جے پی قائدین کیلئے اعظم ترین حد عمر 75 سال مقرر کی گئی، اس طرح بی جے پی نے موثر انداز میں اندرون پارٹی نسلی تبدیلی انجام دی۔ ایسے میں پارٹی قیادت کو زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اگر آپ دیکھیں تو جن ریاستوں میں بی جے پی زیراقتدار ہے، وہاں کے وزرائے اعلیٰ کی عمریں 70 سال سے کم ہے۔ کئی تو 50 سال کے ہیں۔ مثال کے طور پر دیویندر فڈنویس اور یوگی آدتیہ ناتھ 40 سال کی عمر میں عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہوئے۔ ہاں بی جے پی نے عمر سے متعلق اپنے قاعدے کو کرناٹک کے معاملے میں توڑا جہاں بی ایس یدی یورپا 78 سال ہونے کے باوجود عہدہ چیف منسٹری پر فائز کئے گئے لیکن پچھلے ماہ یورپا کو مستعفی ہونے کیلئے مجبور کیا گیا اور وہ مستعفی بھی ہوگئے۔ آج مودی بی جے پی میں ایک ایسے لیڈر بن گئے ہیں کہ ان سے سوال کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا۔ گزشتہ ہفتہ ہم نے دیکھا کہ کس طرح انہوں نے ایک سرجیکل اسٹرائیک کرتے ہوئے گجرات میں چیف منسٹر کو تبدیل کیا، اگر کسی پارٹی میں قیادت کمزور ہو تب اس پارٹی کے لیڈر کو پارٹی کے لیڈروں پر کنٹرول کیلئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب شاید کانگریس کی قیادت کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ پارٹی پر اس کی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات میں فیصلہ کن موقف اختیار کرنا ہی پارٹی کے بزرگ لیڈروں سے چھٹکارہ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ چنانچہ کانگریس نے پنجاب میں 79 سالہ کیپٹن امریندر سنگھ کو ہٹاکر 49 سالہ چرنجیت سنگھ چنی کو چیف منسٹر بنایا ہے۔ دوسری طرف علاقائی جماعتیں ہیں جو زیادہ تر پارٹی پر اپنے خاندان کی اجارہ داری کو یقینی بنائیں ہوئے ہیں۔
ملک کو نوجوان خون کے ذریعہ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کیلئے زیادہ سے زیادہ چار تا پانچ میعاد کی حد رکھی جانی چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پارٹیوں میں صدارت یا قیادت باری باری دی جانی چاہئے اور سیاسی جماعتوں کو اس بات کا پابند بنانا چاہئے کہ کوئی بھی فرد دو میعادوں سے زیادہ پارٹی کا صدر نہیں رہ سکتا اور ہر میعاد چار سال پر مشتمل ہوگی۔ اس کے علاوہ تمام سطحوں پر ایک شخص ایک عہدہ کا اصول لاگو ہونا چاہئے۔ پارٹی کی مختلف کمیٹیوں میں بھی اسی اصول پر عمل کیا جانا چاہئے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ انتخابات میں کم از کم آدھے ٹکٹس 50 سال سے کم عمر کے لوگوں کو دیئے جانے چاہئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے مارگ درشک منڈل کے ذریعہ بڑی عمر کے قائدین کو منظر عام سے ہٹا دیا ہے، لیکن کیا مسٹر مودی جو 2025ء میں 75 سال کے ہوجائیں گے ، سبکدوشی کا اس قاعدہ کا خود پر بھی اطلاق کرپائیں گے یا پھر کیپٹن امریندر سنگھ اور دوسروں کی طرح عوام کی خدمت جاری رکھنے کا اعلان کریں گے۔