اسد مرزا
ہندوستانی مسلمان 1947 سے مسلسل فرقہ پرستی اور نسل کشی کا شکار ہیں جو حالیہ عرصہ میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے لیکن خود اس طبقہ نے اپنا پیشرفت کا راستہ ڈھنڈلیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان اجتماعی محاصرہ میں ہیں جو داخلی اور خارجی طاقتوں کی جانب سے دباؤ ڈالتے ہوئے کیا جارہا ہے۔ بیرونی دباؤ نفسیاتی اعتبار سے کمزور کردیتا ہے اور اخلاقی اعتبار سے اس کے پیروؤں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور اس کی بجائے انہیں اپنی برادری کی طاقت اور ملک کی ترقی پر انحصار کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ ان کے سامنے چیالنج پیش کئے جاتے ہیں جن کا سامنا کرنے کے لئے کافی طاقت ضروری ہے۔ برادری کے وسائل کو ضائع نہیں کیا جانا چاہئے۔
تاہم بہتر ہوگا کہ مسلم برادری اس مسئلہ کو اس کی موجودہ حیثیت دے، اس کا تجزیہ کرے اور ان عناصر کو دریافت کرے جو اس کی وجہ بن گئے ہیں۔ برادری کا موجودہ حشر اور غیر یقینی صورتحال اس کی عدم موجودگی کا نتیجہ ہے۔ ان مسائل پر غالب آنے کیلئے ایک کثیر جہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو واضح ہو اور جس کی آسانی سے شناخت کی جاسکتی ہو۔ اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ بہتر نتائج نکلیں، ہندوستانی مسلمانوں کو سماجی، سیاسی، معاشی اور مذہبی مسائل درپیش ہیں لیکن حکمت عملی جس کے ذریعہ ان مسائل سے نمٹ سکتی ہے کثیر جہتی نہیں ہے۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران سیاسی تبدیلیاں اور خاص طور پر گزشتہ مئی 2019 کے دوران ہندوستان میں تبدیلیاں تمام مسلم برادری کے دانشوروں، ہمدردوں، قائدین اور بہی خواہوں کو مجبور کر چکی ہیں کہ وہ قنوطی بن جائیں۔ کئی حالیہ سیاسی تبدیلیوں کے ردعمل میں مسلمانوں نے مذہبی رنگ اختیار کرلیا۔ برادری کے قائدین ان مسائل سے نمٹتے رہے تاہم کوئی مثبت کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ قنوطیت کا یہ رویہ اور محرومیت کا احساس برادری کیلئے مفید ثابت نہیں ہوا۔
اس کی بجائے ان کو ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جس میں نہ تو اپنے آپ پر ترس کھایا جائے اور نہ حالات پر بلکہ سنجیدگی کے ساتھ خود احتسابی کرتے ہوئے مسائل کی شناخت اور ان کا تجزیہ کیا جائے تاکہ ان کے نتائج برادری کے حق میں نکلیں۔ ہمیں ان کے خوش گوار حل دریافت کرنے چاہئیں جو ملک اور برادری کے حق میں مفید ثابت ہوں۔ بیشتر برائیوں کا جو برادری میں خود احتسابی کے ذریعہ ظاہر ہوں گی اور مسائل کے تجزیہ سے معلوم ہوں گی جن کی وجہ سے برادری اب تک مایوسی اور پسماندگی کا شکار رہ چکی ہے۔ گہرے غور و فکر اور خلوص کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہمیں مسائل کو ترجیح دینا سیکھنا چاہئے۔ مسائل کا حل احتساب اور تجزیہ میں مضمر ہوتا ہے جو برادری کو مایوسی اور پسماندگی کا شکار بنادیتے ہیں۔ اگر سنجیدگی سے بات کی جائے تو برادری کو متحد ہو جانا چاہئے اور مسلکی اختلافات کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
مسلمانوں کو درپیش مسائل
برادری کے لئے ایک تحریک شروع کی جانی چاہئے اور معمولی مسلکی انتشار کو مذہبی رہنما بھول جائیں، دیگر رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کو جسد واحد میں تبدیل کردیں۔ ان میں معمولی اختلافات نہیں ہونے چاہئیں اور نہ ان اختلافات کو اہمیت دینا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ متحد ہوکر کارروائی کریں۔ یہ کہنا کرنے کی بہ نسبت بہت آسان ہے لیکن اس کے لئے کافی جدوجہد اور صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مذہبی رہنماؤں اور ان سے عقیدت رکھنے والوں کو چاہئے کہ بہتری کی امید رکھیں۔
دوسری بات یہ کہ برادری کو چاہئے کہ ایک سرگرم رویہ اختیار کرے، ردعمل ظاہر نہ کرے۔ سیاسی سطح پر جن افراد کونمائندگی نہیں ملتی ہو برادری کو چاہئے کہ انہیں آگے بڑھایا جائے۔ برادری کی نمائندگی کی جائے اور صبر و تحمل کو طاقتور بنایا جائے، اس کی بجائے ہم ماضی میں کھوئے ہوئے ہیں۔ ہمیں مخلص اور نتائج برآمد کرنے والے افراد بن جانا چاہئے۔ فیصلہ سازی کرنی چاہئے اور 14 ملین مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک نظام قائم کرنا چاہئے۔ تیسری بات یہ کہ برادری کو دیگر مذاہب کے ساتھ جیسے پارسی، سکھ اور عیسائی ہوں، روابط پیدا کرنا چاہئے اسے سیکھنا چاہئے کہ دیگر اقلیتوں کی ذہنیت کیا ہے اور وہ کس طرح تعلیمی، سماجی اور معاشی شعبوں میں ترقی کررہے ہیں۔ اپنی برادری کے وسائل کا استعمال کررہے ہیں اور اپنے قائدین کی رہنمائی قبول کررہے ہیں۔ ہمیں صبر و تحمل اور بقائے باہم کا سبق سیکھنا چاہئے۔
چوتھی بات یہ کہ مسلمانوں کو پرخلوص طور پر خود احتسابی کرنی چاہئے اور برادری کے رسوم و رواج میں اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کی وجہ سے بحیثیت اجتماعی مسلم برادری ترقی کرسکے گی یہ رسوم و رواج نہ صرف غیر اسلامی ہیں بلکہ اس سے مالی نقصان بھی ہوتا ہے جسے ہمیں کچل دینا چاہئے۔ شادیوں اور دیگر مذہبی تقاریب کیلئے فضول خرچی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی شبیہہ پر زیادہ توجہ دیں، تعلیم اور صفائی پر زور دیں، یہ دو مسائل ایسے ہیں جس کی قرآن مجید میں بار بار تاکید کی ہے۔
ترقی کا راز
جہاں تک ملک کے سیاسی عمل میں سرگرم حصہ لینے کا تعلق ہے ہمیں اس کے لئے سیکولر طاقتوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر جدوجہد کرنی چاہئے۔ ہم کبھی اس کے بغیر مثبت اور تعمیری نمائندگی حاصل نہیں کرسکتے۔ ہمیں سیاستدانوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کرنے چاہئے۔ ان کے سامنے اپنی شکایات پیش کرنی چاہئے جن کے ذریعہ سے ان کی یکسوئی ہوسکے اور ایک ٹیم کے طور پر کام کرنا چاہئے۔ مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی پائی جاتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ دیہات کی سطح سے اسکولس اور کالجس کو مضبوط بنائیں۔ ضلعی سطح پر برادری کے لئے معیاری تعلیم کا انتظام کریں۔ تعلیم کا سلسلہ ترک کرنے کی شرح صفر ہو جانی چاہئے اس کے لئے ہمیں تدریسی عملہ کا انتظام بھی کرنا پڑے گا اور معیاری تعلیم کو یقینی بنانا ہوگا۔ تعلیمی اداروں کو سرگرم اور پیداواری بنانے کے لئے اجتماعی جدوجہد ضروری ہے جو مسلمانوں کا ایک وفاق بنانے سے کیا جاسکتا ہے۔ ملک میں ہر جگہ گزشتہ 25 سال کے دوران تعلیمی اور سماجی تنظیمیں ابھر آئی ہیں جن کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں مشترکہ پلیٹ فارم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ انسانی اور مالی وسائل ان کیلئے وقف کردیئے جاسکتے ہیں۔ تعلیم کے علاوہ مجوزہ کل ہند تنظیم میں مسلمانوں کی نمائندگی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ ہمیں ہر مصیبت کے وقت حکومت کی مدد کرنی چاہئے اور اس کی تائید کرنی چاہئے۔ مصیبت زدہ لوگوں اور بیمار افراد کو اجتماعی طور پر دواؤں اور غذاؤں کی فراہمی ضروری ہے۔ ہمیں ایک ایسی برادری بن کر ابھرنا چاہئے جو متحدہ طور پر فلاحی خدمات میں دوسروں سے آگے آگے رہتی ہے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ متحدہ طور پر جدوجہد کرتی ہے۔