اعجاز ذکا سید
اسپائیرو ایگنیو نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ بعض اخبارات کے لئے لفظ ’’چڑیا کا پنجرہ‘‘ بالکل فٹ ہوتا ہے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ کے آنجہانی نائب صدر موجودہ حالات میں ہوتے تو ہندوستانی میڈیا کے بارے میں کیا سوچتے؟ خاص طور پر ان بے سرے ٹی وی چیانلس کے بارے میں جن پر ہمیشہ ہندوستانی مسلمانوں کو باطل قرار دینے کا جنون سوار رہتا ہے۔ ویسے بھی مودی کے نئے ہندوستان میں مسلمان ہونا ایک چیالنج سے کم نہیں۔ ان حالات میں اب مسلمانوں کو ناقابل یقین دشمن میڈیا کے ہاتھوں غضب ناک حملے سے متاثر ہونا پڑ رہا ہے۔ حال ہی میں اس تعلق سے ٹائم میگزین میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کی سرخی کچھ اس طرح تھی ’’ہندوستان میں مسلمان ہونا پہلے ہی خطرناک تھا پھر کورونا وائرس کی آمد ہوئی‘‘ اس سرخی نے سب کی توجہ حاصل کرلی اور ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں بہت کچھ بتادیا۔
ایک طویل عرصہ سے ہندوستان کی حکمراں جماعت کے اہم قائدین بی جے پی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مختلف ذیلی تنظیموں کے نمائندوں کی حیثیت سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف غیر معالنہ جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔ خون کے اس بھیانک کھیل میں بیشتر میڈیا بھی شامل ہوگیا ہے اور پہلے سے ہی ظلم و جبر کا شکار اس اقلیت کے خلاف حملے شروع کردیئے۔ متعصب میڈیا انتہائی مضحکہ خیز انداز میں ہندوستان میں کورونا وائرس وباء کے پھیلنے کا ذمہ دار مسلمانوں کو قرار دے رہا ہے۔ جب سے شعلہ بیان شخصیت نے اقتدار حاصل کیا ہے ہندو ہجوم مسلمانوں کا تعاقب کرتے ہوئے انہیں دن کے اجالے میں اور ٹیلی ویژن کیمروں، پولیس و انتظامیہ کی موجودگی میں جانوروں کی طرح ہجومی تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے۔
جیسا کہ اسکرول میں روہن وینکٹاراماکرشنن نے لکھا ہے کہ پچھلے چند برسوں سے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت اکثریتی ہندو ووٹ بینک کی تعمیر کی جان بوجھ کر کوششیں کررہی ہے اور اس کے لئے مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے تاکہ ہندوستان کے قدیم نظریہ سیکولرازم، ایثار و خلوص کو ختم کیا جاسکے۔ اس طرح کورونا وائرس بحران ان لوگوں کے لئے اپنے پراجکٹ کو آگے بڑھانے کا ایک اور موقع میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مودی کا ہندوستان تباہ کن عالمی صحت عامہ کی ایمرجنسی کو بھی بدلنے میں کامیاب کیوں ہوا، حالانکہ کورونا وائرس کے پھیلاو سے جو بحران پیدا ہوا ہے وہ ملک کی آزادی کے بعد کا سب سے بڑا بحران ہے لیکن مودی کے نئے ہندوستان میں اس وباء کو بھی مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے اور انہیں قابل نفرت بنا کر پیش کرنے کے موقع میں تبدیل کیا گیا۔
تبلیغی جماعت کے خلاف مہم پر سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ تبلیغی اجتماع کو تمام کمیونٹی کے خلاف بہت جلد نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کیا گیا اور جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ارنب گوسوامی، سدھیر چودھری، انجنا کیشب، راہول کنوال اور ہندی و دیگر ہندوستانی زبانوں کے ان کے مختلف اوتار بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے مسلمانوں کے خلاف مہم میں کود پڑے اور ایک ایسی اقلیت کے خلاف نفرت و تعصب کی فحش مہم شروع کردی جو اپنا دفاع نہیں کرسکتی ۔ یہ تمام مرد و خواتین جو اپنے صحافی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اجتماعی طور پر اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلم کمیونٹی ہندوستان کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ایک سازش پر عمل پیرا ہے اور ان لوگوں نے اس سازش کو ’’کورونا جہاد‘‘ کا نام دیا اُسی طرح جس طرح عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری کو کووڈ۔ 19 کا نام دیا ہے۔
خود کو صحافی کہلانے والے یہ عناصر چیخ چیخ کر یہی کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں نے جان بوجھ کر خود کو اس وائرس سے متاثر کیا تاکہ ملک کے طول و عرض میں سفر کرتے ہوئے اسے دوسرے لوگوں میں پھیلائیں۔ اگر آپ اس طرح کی باتوں کو عجیب و غریب محسوس کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ہوا ہے کیونکہ ملک میں شہریوں کی اکثریت ایسا لگتا ہے کہ ان الزامات میں یقین رکھتی ہے۔ جیسے کہ آپ ملک بھر میں مسلمانوں پر بڑتے حملوں کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
ہندوستانی ٹی وی پر راتوں میں چلائی جانے والی یہ کنگارو عدالتیں بہت ہی زہریلی مہم چلا رہی ہیں۔ ایسی مہم جسے کوئی بھی عام آدمی دیکھنا برداشت نہیں کرسکتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹی وی کے ان پروگرامس میں جو مباحث ہو رہے ہیں ان میں خود ساختہ و نام نہاد مسلم لیڈروں کو مدعو کیا جارہا ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو ایک جملہ بھی صحیح طور پر ادا نہیں کرسکتے اور بیوقوفانہ گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح ان ٹی وی چیانلس پر یہ لوگ کورٹ مارشل کارروائی کا با آسانی شکار بن جاتے ہیں اور پھر اس طرح کے لیڈروں کی غیر ضروری اور عجیب و غریب گفتگو سے ساری مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کردی جاتی ہے۔ اس طرح کی حرکات برسوں سے ہو رہی ہیں اور ان حرکتوں کا دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کی قابل لحاظ اکثریتی آبادی کے اذہان اور قلوب میں زہر بھرنے اہم رول رہا ہے۔ اکثریتی طبقہ کے ذہن میں اس طرح ٹی وی مباحث کے ذریعہ یہ بات ڈالی جارہی ہے کہ گجرات 2002 قتل عام کے بعد ان کا ایک مسیحا نمودار ہوا ہے۔
برسوں سے ہندوستانی میڈیا کے یہ سرفہرست مرد و خواتین اپنے محبوب لیڈر کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہنے کو اعزاز تصور کرتے ہیں جبکہ ساری قوت تحقیقات اور پوچھ تاچھ صرف اور صرف غریبوں بے یار و مددگار مسلمانوں یا اپوزیشن سیاستدانوں کے لئے محفوظ ہے۔ آپ کبھی بھی میڈیا کے ان لوگوں کو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں سے سوالات کرتے نہیں سنیں گے۔ یہ لوگ ابھی خواب غلفت میں ہیں، انہیں پتہ نہیں کہ میڈیا کا سب سے اہم رول اقتدار رکھنے والوں کے سامنے سچائی پیش کرنا ہوتا ہے۔ ارنب گوسوامی باریش افراد کی موجودگی میں ایک بھوکا، خون کا پیاسا دکھائی دیتا ہے اور خود ساختہ انٹرویوز کے دوران اپنے محبوب لیڈر کے سامنے ایک وفادار پالتو کتے کے بچے کی طرح دبکا رہتا ہے۔ خود ساختہ انٹرویو اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ صحافتی انٹرویوز حقیقی ہوتے ہیں اور جن میں حقیقی سوالات کئے جاتے ہیں اور جوابات دیئے جاتے ہیں۔ پہلے سے ہی تیار کردہ اسکرپٹ کے مطابق سوالات نہیں کئے جاتے جیسا کہ اب تک ارنب گوسوامی کے انٹرویوز رہے ہیں، لیکن وہ بھی قابل فہم ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دیگر عقل مند صحافیوں کی طرح وہ بھی جانتے ہوں گے کہ کس طرف فائدہ زیادہ ہے۔ ویسے بھی ری پبلک ٹی وی ایک بی جے پی ایم پی کی ملکیت ہے اور اس ایم پی نے ہی سارا مالیہ فراہم کیا ہے۔ ایسے میں میں ایک کیچڑ اچھالنے والے اور اس کے آقا کے درمیان آنے والا میں کون ہوتا ہوں؟
جہاں تک نفرت کا سوال ہے اس کے حقیقی اور ناگزیر سنگین عواقب و نتائج برآمد ہوتے ہیں اور ایسے نتائج کو ہندوستان کے مختلف مقامات پر دیکھا گیا اور دیکھا جارہا ہے۔ مسلمانوں پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا جارہا ہے کہ یہ کورونا وائرس لانے والے ہیں یا کورونا وائرس پھیلا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اسپتالوں سے مسلم مریضوں کو واپس کیا جارہا ہے۔ تعصب روز کا معمول بن گیا ہے۔ اب چھوٹے مسلم کاروباریوں اور دکانات کا سرگرمی سے بائیکاٹ کیا جارہا ہے یا اترپردیش جیسی بی جے پی زیر اقتدار ریاست میں انہیں حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ الفاظ قتل کرسکتے ہیں اور حالیہ تاریخ سے اسے ثابت کرنے کے لئے کئی شواہد بھی موجود ہیں۔ 2003 کے اپنے فیصلے میں انٹرنیشنل کریمنل ٹریبیونل فار روانڈا نے پایا کہ روانڈا کے صحافی فرڈیننڈ نہیں مانا اور جین باسکو برایاگ ویزا قتل عام، نسل کشی کے لئے اکسانے، سازش کرنے اور انسانیت کے خلاف جرائم کے خاطی اور مرتکب پائے گئے۔ ان صحافیوں کے خلاف مقدمہ نے میڈیا اور اس کی سماجی خود احتسابی کے رول کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے ہیں۔
نیورم برگ مقدمہ کی سماعت کے بعد سے پہلی مرتبہ نفرت پر مبنی خطاب کو ایک جنگی جرم مان کر اس کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ جس طرح ان صحافیوں نے کام کیا اس سے یہی پیام گیا ہے کہ صحافت کو قتل عام کے لئے استعمال کیا گیاہے۔ ٹریبیونل نے یہ کہتے ہوئے روانڈا کے میڈیا کو وہاں کی تتسی آبادی کی تباہی کے لئے بے تکان نشانہ بنانے کا ذمہ دار قرار دیا۔ میڈیا کے بارے میں مزید کہاگیا کہ اس نے تتسی آبادی کو سیاسی خطرے کی حیثیت سے پیش کیا۔
واضح رہے کہ 1994 میں روانڈا میں نسل کشی کا بدترین واقعہ پیش آیا تھا جس میں 8 لاکھ سے زائد لوگوں کا قتل کیا گیا۔ تہذیبی امور پر نظر رکھنے والے ماہر تہذیبی بشریات پالیجسٹ چارلس میرانکو نے جو تجزیہ کیا ہے اس میں قتل عام کرنے کے پیچھے کارفرما تقریباً 100 لوگوں کے اعتراف جرم کا حوالہ دیا جس سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ میڈیا میں نفرت پھیلانے والے پیامات آبادی کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے یا انہیں انسان ہی نہ سمجھنے کا باعث بنے اور ان پیامات کے بدترین اثرات مرتب ہوئے۔ میڈیا کے پھیلائے گئے پیامات کے باعث ہی ابتداء میں آبادی کے خلاف فحش کلامی کی گئی، کیچڑ اچھالا گیا، طنز و طعنوں کے تیر برسائے گئے اور کئی ماہ تک یہ صورتحال رہی اور پھر ان کے قتل عام کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ سچترا وجین نے اپنی پولیس پراجکٹ میں ’’صحافت بطور نسل کشی‘‘ کے زیر عنوان اپنی رپورٹ میں یہ لکھا ہے کہ ہندوستانی میڈیا کا پچھلے چند دہوں سے جو رویہ رہا ہے وہ بالکل روانڈا کے اخبارات سے ملتا جلتا ہے۔ روانڈا کے ان اخبارات نے تتسی آبادی کے خلاف نفرت انگیز پیامات پھیلاتے ہوئے تشدد، نسل کشی، قتل عام کے لئے مخالفین کو اکسایا۔ ایسا ہی 2002 کے گجرات فسادات میں دیکھا گیا۔
2002 میں پی یو سی ایل کی ایک اسٹیڈی میں یہ پایا گیا کہ گجرات سماچار اور سندیش جیسے اخبارات نے جھوٹی کہانیاں شائع کیں، حقائق توڑ مروڑ کر پیش کئے خبروں کی سنسنی خیز سرخیاں لگائیں اور ان کا ارادہ فرقہ پرستی کو ہوا دینا اور لوگوں میں خوف و دہشت پیدا کرنا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے قتل کے لئے ہندووں کو حوصلہ ملا اور ان رپورٹس کے باعث وہ مسلمانوں کے صفائے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان اخبارات نے صحافتی اخلاقیات کی پاسداری کرنے کی بجائے جو صحافت کا اولین تقاضہ ہے بنا کسی شواہد و ثبوت کے زہر آلود مواد کی اشاعت عمل میں لائی جس سے تشدد بھڑک اٹھا۔
2002 کے بعد سے ہندوستان کو ایک طویل سفر طئے کرنا پڑا۔ اس واقعہ کے بعد مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف نفرت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ اسی طرح جس طرح روانڈا میڈیا کی حرکتوں کے نتیجہ میں تتسی آبادی کے خلاف ہوا تھا۔ اگر ہم اس واضح خطرہ پر بھی ہوش کے ناخن نہیں لیں گے اور خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوں گے تو پھر ہندوستان اس افریقی ملک یعنی روانڈا کے نقشہ قدم پر چل سکتا ہے۔ اگر ہندوستان کے رقبہ اور یہاں کی پیچیدگیوں کو ملحوظ رکھا جائے تو پھر عالمی سطح پر یہ بہت خطرناک ہو جائے گا۔ یاد رکھئے آج امن کو نفرت سے خطرہ لاحق ہے اور نفرت کووڈ ۔ 19 وائرس سے کہیں زیادہ نقصاندہ و خطرناک ہوتی ہے۔