ہندوستان روزگار کے شدید بحران سے دوچار

   

Ferty9 Clinic

اپرنا گوپالن

ہندوستان اس وقت ویسے تو کئی ایک مسائل کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ فرقہ پرستی ہے جس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ معیشت اور بے روزگاری ہے اور اب تازہ ترین رپورٹ میں واضح ہوگیا ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ملک اس وقت بے روزگاری کے اس بحران سے دوچار ہے جو اس سے قبل نہیں تھا۔ ہندوستان میں بے روزگاری مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اس کے لیے مودی حکومت کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ نے مودی حکومت کے لیے مزید پریشانی کھڑی کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملازمت ختم ہونے کی شرح گزشتہ 6 برسوں میں جو درج کی گئی ہے وہ آزاد ہندوستان میں اب تک کی سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں چھ سال کے اندر روزگار میں 90 لاکھ کی گراوٹ آئی ہے۔ یہ رپورٹ عظیم پریم جی یونیورسٹی کے سنٹر آف اسسٹنیبل امپلائمنٹ کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ اس تازہ رپورٹ میں واضح لفظوں میں لکھا گیا ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے جب روزگار میں اس طرح کی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ اعداد و شمار سال 12-2011 اور 18-2017 کے درمیان کے ہیں۔ اگر دوسری طرح سے دیکھیں تو 12-2011 اور 18-2017 کے درمیان ہر سال تقریباً 26 لاکھ لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں۔سنتوش مہروترا اور جے کے پیرزادہ نے سنٹر آف اسسٹنیبل امپلائمنٹ کے لیے اس رپورٹ کو تیار کیا ہے جس میں دونوں نے لکھا ہے کہ 12-2011 سے 18-2017 کے درمیان جملہ روزگار میں 90 لاکھ کی کمی آئی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سنتوش مہروترا جے این یو میں شعبہ اقتصادیات کے پروفیسر ہیں جب کہ جے کے پیرزادہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ واضح رہے کہ کچھ دنوں پہلے سی ایم آئی ای کا سروے آیا تھا جس میں حالات کچھ الگ ہی نظر آ رہے تھے۔

سی ایم آئی ای کے سروے میں بتایا گیا تھا کہ سال مئی سے اگست کے درمیان تقریباً 40 کروڑ 49 لاکھ لوگوں کے پاس ملازمت تھی جب کہ گزشتہ سال اسی دوران 40 کروڑ 24 لاکھ لوگوں کے پاس ملازمت تھی۔ یعنی سی ایم آئی نے پچھلے سال کے مقابلے اس سال ملازمتوں کی صورت حال بہتر بتائی تھی۔ ساتھ ہی اس نے یہ ضرور واضح کیا تھا کہ ملازمتیں بڑھنے کا معاملہ زراعت کے شعبہ میں سامنے آیا ہے۔ ہندوستان میں بے روزگاری شرح تین سال کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ سنٹر فارم مانیٹرنگ انڈین اکونومی (سی ایم آئی ای) کے ذریعہ جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مہینے یعنی اکتوبر میں بے روزگاری شرح 8.5 فیصد رہی، جو اگست 2016 کے بعد کی سب سے اونچی سطح ہے۔ یہ اعداد و شمار اسی سال ستمبر میں جاری اعداد و شمار سے بھی کافی زیادہ ہے۔اس کے علاوہ عظیم پریم جی یونیورسٹی کے سنٹر فار سسٹنیبل ایمپلائمنٹ کی ایک تحقیق میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ چھ سالوں میں لوگوں کو روزگار ملنے کی تعداد میں کافی گراوٹ آئی ہے۔ 12-2011 سے لے کر 18-2017 کے درمیان 90 لاکھ لوگوں کو اپنی ملازمت گنوانی پڑی۔ ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ ملک کی تین ریاستوں میں حالات سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار کے مطابق تریپورہ، ہریانہ اور ہماچل پردیش میں عوام کو ملازمتیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی ہیں۔ آٹو سمیت کئی شعبوں میں حالات بگڑنے سے بھی یہ اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ٹیکسٹائل، چائے، ایف ایم سی جی، رئیل اسٹیٹ جیسے شعبوں میں زبردست بحرانی کیفیت ہے۔ سی ایم آئی ای نے جو ڈاٹا جاری کیا تھا اس کے مطابق 2016 سے 2018 کے درمیان 1.1 کروڑ عوام کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ فروری 2019 میں بے روزگاری کا نمبر 7.2 فیصد پر پہنچ گیا۔ وہیں گزشتہ سال فروری میں یہ نمبر 5.9 فیصد تھا۔ رپورٹ کے مطابق جہاں گزشتہ سال 40.6 کروڑ لوگ ملازمت کر رہے تھے، وہیں اس سال فروری میں یہ نمبر صرف 40 کروڑ رہ گیا۔ اس حساب سے 2018 اور 2019 کے درمیان تقریباً 60 لاکھ لوگ بے روزگار ہو گئے۔ اسی سال مئی میں جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شہری علاقوں میں بے روزگاروں کی تعداد 7.8 فیصد رہی، وہیں دیہی علاقوں میں یہ 5.3 فیصد رہی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے نئی ملازمتوں کی تعداد میں کافی گراوٹ آ گئی تھی جو ابھی سنبھلی نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 لوک سبھا انتخابات کے دوران وعدہ کیا تھا کہ اگر ان کی حکومت بنی تو ہر سال 2 کروڑ لوگوں کو روزگار دیا جائے گا۔ اب جبکہ ان کی پہلی معیاد ختم ہوگئی اور دوسری معیاد کے بھی تقریبا 6 ماہ گزرچکے ہیںلیکن ملازمتوں کا کوئی بہتر نتیجہ نہیں نکل رہا ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار ظاہر کر رہے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری 45 سال کی سب سے اونچی سطح کو چھوتی ہوئی 6.1 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار نیشنل سیمپل سروے آفس کے پیریوڈک لیبر فورس سروے سے رواں برس کے ابتدائی عرصہ میں سامنے آئے ہیں۔ بزنس اسٹینڈرڈ اخبار میں شائع رپورٹ میں اس تعلق سے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رپورٹ ہے جس پر تنازعہ ہوا ہے اور اسی کی وجہ سے نیشنل اسٹیٹسٹکل کمیشن یعنی این ایس سی کے چیئرمین سمیت دو اراکین نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان لوگوں کا الزام تھا کہ حکومت نے اس رپورٹ کو چھپا رکھا ہے اور برسرعام کرنے میں سست روی اختیار کر رہی ہے۔ بزنس اسٹینڈرڈ نے کہا تھا کہ اس رپورٹ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری 73-1972 کے بعد ہائی لیول پر پہنچ چکی ہے۔ اسی سال سے این ایس ایس او نے بے روزگاری کے تعلق سے موازنہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 12-2011 میں بے روزگاری 2.2 فیصد تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این ایس ایس او نے جولائی 2017 سے جون 2018 کے درمیان پیریوڈک لیبر فورس سروے کیا تھا۔ یہ سروے اس معنی میں بے حد اہم ہے کیونکہ نومبر 2016 میں نوٹ بندی کے اعلان کے بعد کسی سرکاری ایجنسی نے پہلی مرتبہ بے روزگاری کے اعداد و شمار جمع کرنے کا کام کیا تھا۔ سروے میں سامنے آیا کہ بے روزگاری کی شرح گاوں کے مقابلے شہروں میں کہیں زیادہ ہے۔ شہروں میں یہ شرح 7.8 فیصد ہے جب کہ گاوں میں بے روزگاری کی شرح 5.3 فیصد ہے۔ اتنا ہی نہیں، بڑی تعداد میں لوگ لیبر فورس سے باہر جا رہے ہیں کیونکہ لیبر فورس پارٹیسپیشن یعنی مزدوری میں شراکت داری کے تعلق سے گزشتہ برسوں کے مقابلے بے حد کمی آئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بے روزگاری کی شرح نوجوانوں میں زیادہ ہے۔ سبھی عمر کے لوگوں میں سے 18-2017 کے درمیان نوجوانوں میں شرح بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 18-2017 میں گاوں کے 29-15 سال عمر کے مردوں میں بے روزگاری کی شرح 17.4 فیصد ہے جب کہ 12-2011 میں یہ شرح 4.8 فیصد تھی۔ بزنس اسٹینڈرڈ نے این ایس ایس او کی جس رپورٹ کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے اس کے مطابق نوجوان اب زراعتی شعبوں میں کام سے باہر جا رہے ہیں کیونکہ اس سے انھیں واجب محنتانہ نہیں مل پا رہا ہے۔ یہ نوجوان اب شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ اخبار نے اس سلسلے میں کچھ ماہرین معیشت سے بھی بات چیت کی ہے۔ کیئر ریٹنگ ایجنسی کے چیف اکونومسٹ مدن سبنویس کے مطابق شہری علاقوں میں پہلے شعبہ تعمیرات میں روزگار کے مواقع تھے، لیکن 18-2017 میں اس شعبہ میں زبردست اتھل پتھل دیکھنے کو ملی جس کے سبب روزگار میں کمی آئی۔ 12-2011 میں اس شعبہ میں مزدوروں کی شراکت داری 39.5 فیصد تھی جو 18-2017 میں گھٹ کر 36.9 فیصد ہو گئی۔ تعلیم یافتہ لوگوں میں بے روزگاری کی شرح بھی تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوئی ہے۔ 05-2004 میں تعلیم یافتہ خواتین میں بے روزگاری کی شرح 15.2 فیصد تھی جو 18-2017 میں بڑھ کر 17.3 فیصد پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح شہروں میں تعلیم یافتہ مردوں میں بھی بے روزگاری کی شرح 12-2011 کے 4.4-3.5 فیصد سے بڑھ کر 18-2017 میں 10.5 فیصد پہنچ گئی ہے۔٭