ہندوستان صرف ہندوؤں کی سرزمین نہیں

   

رام پنیانی

ہجومی تشدد (بہ معنی: لنچنگ) ہی مقدس گائے کو ہندو قوم پرست بی جے پی اور اس کی ہندو راشٹر کی طرف پیش رفت میں ساتھ دینے والوں کے ایجنڈے کی مرکزیت بنانے کا واحد شاخسانہ نہیں ہے۔ لنچنگ کے خطرناک عمل میں بڑے شکار مذہبی اقلیتیں اور دلت رہے ہیں جیسا کہ 49 ممتاز فلم اور دیگر شخصیتوں کے مکتوب میں اُجاگر کیا گیا ہے۔ یہ تو گائے سے متعلق قضیہ کی بس شروعات ہے۔ گائے کے بہانے سے بہت کچھ ہونے والا ہے۔
اب یو پی میں یوگی کابینہ میں شامل وزیر شریکانت شرما نے ایک اسکیم کا اعلان کیا ہے جس کے ذریعے آوارہ مویشیوں کو دیکھ بھال قبول کرنے والوں کو 30 روپئے فی یوم ادا کئے جائیں گے اور حکومت نے اس کیلئے 110 کروڑ کا بجٹ رکھا ہے۔ یہ اس لئے ضروری ہوا کہ آوارہ مویشی بالخصوص گائے کی تعداد میں گاؤ رکشکوں کے پیداکردہ شرپسند ماحول کے سبب کافی اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ مویشی کسانوں کے کھیتوں کو روند رہے ہیں، جس کے سبب پہلے سے بدحال زرعی معیشت کو بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔ آوارہ مویشی کی بڑی تعداد کے سبب کئی حادثات پیش آرہے ہیں۔
ایک اور نکتہ جس کا ہم میں سے اکثر نے نوٹ نہیں لیا، بی جے پی کے انتخابی منشور (2019ء) میں دیا گیا ہے۔ منشور نے نیشنل کاؤ کمیشن (راشٹریہ کامدھینو آیوگ) 500 کروڑ روپئے کے بجٹ کے ساتھ تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کمیشن یونیورسٹیوں میں کامدھینو چیئرس کا منصوبہ بنائے گا تاکہ گائے کی خوبیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس تعلق سے بیداری بڑھائی جائے۔ اس کمیشن میں گایوں کے سائبانوں، کاؤ پراڈکٹس کے میڈیکل شاپس و دیگر کے قرب و جوار میں ہاؤزنگ کالونیاں شروع کرنے کا پراجکٹ شامل ہے۔ یوں تو دیہی معیشت کی ترقی کا خیرمقدم کرنا چاہئے جہاں مویشیوں سے زیادہ منظم اور سائنسی طرز پر استفادہ کیا جائے، لیکن صرف گائے کو یہ اعزاز دینا خالص سیاسی ایجنڈہ ہے۔

گاؤ رکھشک مہم کا ایک اور شاخسانہ مویشیوں کی تجارت اور ان کی منتقلی میں جبری وصولی میں ملوث ہونے والے کئی گروپ پیدا ہوگئے ہیں۔ انوسٹی گیٹیو جرنلسٹ نرنجن ٹاکلے نے پایا کہ گایوں کے ساتھ ٹرکوں کے ٹرانسپورٹ کیلئے 15,000 روپئے فی ٹرک اور بیلوں کیلئے 6,500 روپئے فی ٹرک کی شرحیں چل رہی ہیں۔ یہ اس سفر کا نصف حصہ ہے۔ اسے کوئی رفیق قریشی بتاتے ہوئے مویشیوں کے تاجر کا بھیس ڈالنے پر جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے۔ جبری وصولی کا تعلق چمڑے کی تجارت سے ہے جیسا کہ نرنجن نے نشاندہی کی ہے کہ ذبح کرنے کے بعد چمڑا دلالوں کو دیا جاتا ہے۔ یہ گاؤ رکھشک گروپ وقفے وقفے سے تشدد برپا کرتے ہیں تاکہ دباؤ برقرار رکھا جائے جو معمول کی جبری وصولی کے ریاکٹ کو جاری رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
دیگر دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ ایک طرف ہندوستان لنچنگ کے واقعات میں بڑھتا ہی جارہا ہے، دوسری طرف بیف کا ٹاپ اکسپورٹر بن کر بھی اُبھر رہا ہے۔ عام خیال کے برعکس اس تجارت سے فائدہ اٹھانے والے بڑے لوگ مسلمان نہیں بلکہ ہندو؍ جین ہیں۔ ان کمپنیوں پر نظر ڈائے جو بیف اکسپورٹ میں آگے ہیں: ال کبیر، عریبین اکسپورٹس، ایم کے آر فروزن فوڈ، النور وغیرہ۔ ان کے ناموں سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ملکیتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر کے مالک ہندو یا جین ہیں۔
دراصل گائے؍ بیف کا مسئلہ بنیادی طور پر انتشار؍ تفرقہ کے ایجنڈے کے تحت اُبھارا گیا ہے۔ ایسے دعوے ہیں کہ بی جے پی حکمرانی کے دوران کوئی بڑے فساد نہیں ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی نمایاں فسادات تو نہیں کرائے گئے لیکن کم شدت والا تشدد اور گائے؍ بیف کے بہانے لنچنگ کو انتشارپسندانہ سیاست کا مقصد حاصل کرنے کیلئے مؤثر طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ویدوں کے دور میں گایوں کی قربانی دی گئی اور بیف کھایا گیا۔

ڈاکٹر امبیڈکر (Who were the Shudras) اور پروفیسر ڈی این جھا (Myth of Holy Cow) کی ماہرانہ تصانیف کے علاوہ سوامی ویویکا نند اسی حقیقت پر ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں۔ وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ گائے کا گوشت ویدوں کے دور میں استعمال کیا گیا۔ گائے ویدوں کے رسوم میں قربانی کا جانور بھی ہوا کرتی تھی۔ انھوں نے امریکہ میں بڑے اجتماع سے خطاب میں کہا تھا: ’’آپ کو حیرانی ہوگی اگر میں یہ کہوں کہ پرانی رسوم کے مطابق وہ کوئی اچھے ہندو نہیں ہیں، جو بیف نہیں کھاتا ہے۔ بعض موقعوں پر انھوں نے بیل کو قربان کیا اور اسے کھایا ہے۔‘‘ ]ویویکانند، بحوالہ سوامی ویویکانند، دی کمپلیٹ ورکس آف سوامی ویویکانند، جلد 3 (کلکتہ: اَدویتا آشرم، 1997ء)، صفحہ [536
موجودہ طور پر رائج ہندو قوم پرستی بنیادی طور پر آر ایس ایس کے نظریہ پر مبنی ہے، دیگر بڑی ہندو قوم پرست دھارا ہندو مہاسبھا رہی ہے جس سے ساورکر کا تعلق رہا۔ وہ آر ایس ایس پریوار کیلئے عظیم مثالی شخصیت تھے، لیکن گائے کے بارے میں اُن کی مختلف رائے تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ گائے بیلوں کی ماں ہے انسانوں کی نہیں۔ نیز یہ مفید جانور ہے اور اسی طرح کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ ’وگیان نشٹا نبندھ (Pro Science Essays) میں اُن کی تحریر ہے کہ گایوں کی حفاظت کرنا چاہئے کیونکہ وہ انسان کیلئے کارآمد ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ مقدس مخلوق ہے۔ ہندو قوم پرستی کے دو دھاروں آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا میں اس آر ایس ایس کو غلبہ حاصل ہے اور سماج کو منقسم کرنے کیلئے گائے کو شناختی مسئلہ کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ وہی بی جے پی جو گائے کے نام پر اس طرح کا ہنگامہ پیدا کررہی ہے، شمالی ہند کے بڑے حصوں میں نیز کیرالا، گوا اور شمال مشرق میں اس مسئلے پر خاموش ہے۔
یوم آزادی کے موقع پر ڈاکٹر راجیندر پرساد نے مہاتما گاندھی سے رجوع ہوکر گاؤکشی پر امتناع عائد کرنے کی اپیل کی تھی۔ گاندھی جی کا جواب ایک مثال ہے جو ہمارے تکثیری سماج کی رہنمائی کرتا ہے ’’ہندوستان میں گاؤکشی پر امتناع عائد کرنے کیلئے کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ مجھے شبہ نہیں کہ ہندوؤں کو گایوں کو ذبح کرنا ممنوع ہے، لیکن کس طرح میرا مذہب بقیہ ہندوستانیوں کا مذہب بھی ہوسکتا ہے؟ اس کا مطلب وہ ہندوستانیوں کے خلاف جبر ہوگا جو ہندو نہیں ہیں … ایسا نہیں کہ انڈیا یونین میں صرف ہندو ہیں۔ مسلمان ہیں، پارسی، عیسائی اور دیگر مذہبی گروپ بھی یہاں ہیں۔ ہندوؤں کا ایسا سوچنا کہ ہندوستان اب ہندوؤں کی سرزمین بن چکا ہے، غلط خیال ہے۔ ہندوستان ان تمام کا ہے جو یہاں رہتے ہیں۔‘‘
لہٰذا، جہاں ملک کو ہماری سماجی زندگی کے اشاریے بڑھانے کے بہبودی اقدامات کا انتظار ہے، وہیں بی جے پی حکمرانوں کی زیادہ تر توجہ گائے کی دیکھ بھال پر آمادگی بڑھانے یا اس کی بیداری پیدا کرنے یا جھوٹی ریسرچ کرانے کیلئے بجٹ مختص کرنے پر مرکوز ہے، جو اشد ضروری سماجی بھلائی کے مقصد کی کسی بھی طرح تکمیل نہیں ہے۔
ram.puniyani@gmail.com