ہندوستان میں جمہوریت ایک مذاق

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ
ہم ہندوستان میں رہتے ہیں اور یہاں مبینۂ جمہوری حکومت ہے۔ یہ بات اگرچیکہ سچ ہے لیکن جمہوریت میں سب سے اہم عوام کی رائے دہی ہوتی ہے جس کی تکمیل انتخابات کے ذریعہ ہوتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حق رائے دہی کا سرقہ ایک کھلی حقیقت ہے یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) کا غلط استعمال ہوتا ہے جس کی مثال یہ ہے کہ ایک گھر میں 6 افراد پر مشتمل خاندان ہو تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعہ ووٹ نہ ڈالے تو بعض دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس کے افراد خاندان کے ووٹ سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں یعنی مذکورہ بالا افراد کے علاوہ اگر اس کے افراد خاندان کا ووٹ استعمال کرے بھی تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعہ فائدہ اُٹھانے والے بعض سیاسی جماعتیں اس کے افراد خاندان کا ووٹ اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں جو قطعی طور پر جمہوری طرز حکومت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس معاملے میں دھاندلیوں سے کام لیا جاتا ہے اور کسی نہ کسی طرح بارسوخ اور طاقتور پارٹیاں ووٹوں کے ناجائز استعمال کے ذریعہ اقتدار حاصل کرلیتی ہیں جس کا خمیازہ جس کی قیمت عوام کو چکانی پڑتی ہے اور اسی طرح سے بددیانتی سے اقتدار حاصل کرنے والی جماعتیں 5 سال تک لوٹ مار کرتی رہتی ہیں اور عوام اپنے جائز حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان کے موجودہ حالات پُرآشوب ہیں۔ نام نہاد جمہوریت میں صرف بعض نام نہاد قائدین کا ہی فائدہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں جبکہ عوام کی نصف سے زیادہ تعداد سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، بے روزگاری اور فرقہ پرستی اپنی انتہا پر ہے۔ عوامی قائدین کا فریضہ عوامی مسائل کی یکسوئی ہوتا ہے لیکن وہ صرف اپنے اپنے خاندانوں کا ہی بھلا سوچتے ہیں اور ان کے لئے محنت کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا جنھیں ایک وقت کا کھانا بھی بڑی مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ فرقہ پرستی اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہے اور پڑھے لکھے لوگ ملازمتوں اور روزگار سے محروم ہیں لیکن حکمرانوں کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نام نہاد جمہوری ملک میں حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے سے پہلے عوام کی مشکلات اور ان کی ضروریات تکمیل کا اندازہ کرتے ہوئے ان کی تکلیف کو دور کریں لیکن اس دور کے بعض حکمران جو جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتے اور ان کے افعال و اعمال اس کے برعکس ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ جمہوریت میں عوام کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور غریبوں کے لئے ایک وقت کا کھانا اور آرام کی نیند فراہم نہیں اور شدید بارش اور دھوپ میں بے حساب بے گھر لوگوں کو دیکھا جاسکتا ہے جو لوگوں کے دیئے ہوئے کھانے پر زندگی بسر کرتے ہیں لیکن اس نام نہاد جمہوریت جس کے بارے میں ابراہام لنکن نے کہا تھا Democray is of the People, By the People, and For the People افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں اس قول کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں جمہوریت ایک ڈھونگ اور المیہ بن گئی ہے اور بعض نام نہاد حکمراں صرف اپنی روٹی کی فکر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں بھولی بھالی عوام کی کوئی فکر نہیں۔ ایسے افسوسناک حالات میں جمہوریت صرف نام کی چیز رہ گئی ہے اور عملی طور پر یہ اپنے مفہوم کو کھو بیٹھی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ موجودہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) سے عوام مطمئن نہیں ہیں اور حقیقی اعتبار سے ساز باز کی گنجائش بھی موجود رہتی ہے لہذا EVM کی برخاستگی سے عوام میں رائے دہی کے استعمال سے دلچسپی پیدا ہوگی ورنہ اس طرح کی بوگس ووٹنگ مستحق جماعت کو اقتدار پر آنے سے روکتی رہے گی اور سیاسی جماعتیں من مانی طور پر رائے عامہ کا استحصال کریں گی اور موجودہ حالات میں رائے دہی میں ووٹرس کا تناسب یا Percentage کم ہوتا جارہا ہے اور ان کی رائے دہی سے دلچسپی بھی ختم ہورہی ہے اور عوام موجودہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) سے انتہائی ناراض ہیں۔ ان حالات میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف انڈیا اور الیکشن کمیشن آف انڈیا سے درخواست ہے کہ اپنے وسیع تر اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ووٹنگ میں Biometric Voting System متعارف کروانے کی ہدایت دے جس کے ذریعہ بدعنوانی کا خاتمہ ہوگا اور عوام کا استحصال بھی ختم ہوسکتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) طریقہ کار کو ختم کرنا جمہوریت کے لئے سب سے اہم بات اور ان کا تحفظ ہے۔ بوگس ووٹ کے خاتمہ کے لئے Biometric Voting System سب سے بڑا حربہ ہوگی اور اس سلسلہ میں انتہائی اہم اقدام کرے تو یہ تاریخی عمل ہوگا کیوں کہ اس کے ذریعہ عوام کو اپنے حقوق کے صحیح استعمال کا موقع ملے گا۔ دھاندلیاں، بددیانتی ووٹ کا خاتمہ ہوجائے گا جس سے ہندوستان کے عوام میں جمہوریت پر اعتماد بحال ہوگا اور عوام خلوص دل سے انتخابات میں رائے دہی کا استعمال کریں گے اور ہندوستان کے عوام کے لئے یہ تحفہ ثابت ہوگا۔