برکھا دت
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنون ہی وقت کا تقاضہ ہے، چنانچہ یوپی کے گینگسٹر وکاس دوبے کے انکاونٹر سے صدمہ کی کوئی لہر پیدا نہیں ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا انکاونٹر ہر ایک کے لئے متوقع تھا۔ تنقید صرف اس وقت کی گئی تھی جبکہ حیدرآباد پولیس نے عصمت ریزی کے چار ملزمین کو گزشتہ سال ہلاک کردیا تھا۔ امکان ہے کہ انہیں برطرف کردیا جائے گا۔ پولیس کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دوبے کے انکاونٹر کے بعد تمام آزادانہ خیال کارکنوں پر پابندیاں عائد کرنے کے جنون میں مبتلا ہوگئی ہے۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ قتل کی کئی وارداتوں کا ملزم 8 ملازمین پولیس کی جانب سے ہلاکت کا مستحق تھا۔ اس جیسے ایک شخص کے خلاف غم و غصہ اور برہمی بیکار ہے۔
ہم اس نکتہ پر توجہ نہیں دے رہے ہیں کہ اپنے مقتول ملازمین کا انتقام لینا ایک مقام پر تو پولیس کے لئے جائز ہو جاتا ہے اور وہ اس کے لئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں لیکن تاملناڈو میں باپ اور بیٹے کی جوڑی اگر اپنے پوشیدہ اعضاء میں چھپاکر سلاخیں اور لاٹھیاں رکھیں تو یہ قانون کے خلاف کیسے ہو جاتا ہے۔ یہ تاملناڈو کے جائے راج اور بینکس کا تذکرہ ہے۔ آپ ایک کے خلاف غم و غصہ کے اظہار نہیں کرسکتے جبکہ دوسری طرف اس لاقانونیت کی اجازت دیتے ہوں۔
ہاں ایک واقعہ میں متاثرہ شخص بے بس شہری تھا جس کے پاس مبینہ طور پر ہتھیار چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی صرف اس نے اپنا گیسو تراشنے کا اپنا مرکز کچھ وقت کے لئے کھلا رکھا تھا جبکہ لاک ڈاون اور معلنہ کرفیو کا وقت شروع ہوکر صرف چند ہی منٹ ہوئے تھے۔ کان پور میں خودساختہ طور پر اپنے آپ کو غنڈہ قرار دینے والے بے رحم ٹھگ کی کارروائی انتہائی وحشیانہ تھی۔ جن لوگوں نے ماورائے عدالت طریقہ سے اس کو ہلاک کیا پولیس والے نہیں تھے۔ اس لئے ان کی کارروائی کو بے رحمانہ قرار دیا گیا۔
سیدھے سادھے الفاظ میں آپ فرضی انکاؤنٹرس کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔ اس کا کوئی منظر نامہ پیشگی طور پر تیار نہیں کیا جاتا۔ صرف کہانیاں پھیلتی ہیں اس کا منصوبہ بہت کمزور ہوتا ہے اور ہدایت کاری اس سے بھی زیادہ کمزور ہوتی ہے۔
ہم درحقیقت یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ڈرمائی انداز میں پانچ روزہ فرار ہوتے رہنے کے بعد اترپردیش سے ہریانہ، راجستھان اور مدھیہ پردیش پہنچتا ہے اور اجین کے ایک مندر میں پولیس سے خطاب کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن جس کار کے ذریعہ اسے یوپی منتقل کیا جارہا تھا۔ وہ الٹ جاتی ہے۔ اسی شخص کو آپ نے ویڈیو فلم میں دیکھا ہوگا ۔ وہ چلا رہا تھا ’’میں وکاس دوبے ہوں کانپور والا‘‘۔
بے شک یہ ذرائع ابلاغ کے لئے ایک حیرت انگیز واقعہ تھا کہ دوبے مدھیہ پردیش سے یوپی تک ایک قافلہ کی شکل میں لے جایا گیا اور ایک ایسے مقام پر روک دیا گیا جو مقام واردات سے دو کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا، مبینہ طور پر اس کا قافلہ حادثہ کا شکار ہو گیا تھا۔ بعد ازاں انکاونٹر کا واقعہ پیش آیا اور پولیس کو وضاحت کرنی پڑی کہ آخری لمحات میں دوبے کی کار بند کردی گئی تھی۔ ویڈیو کی جھلکیوں سے پتہ چلتا ہے کہ دوبے کے پاس سفر کے دو حصوں میں دو مختلف کاریں استعمال کی گئی ہیں اور بے شک انتہائی بنیادی سوال یہ ہے کہ اس خوف ناک گینگسٹر کے انکاونٹر کے وقت اس کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں تھے۔ بے شک یہ تمام سوالات میں بنیادی اہمیت کا سوال ہے خوفناک گینگسٹر کے ہاتھ بندھے ہوئے کیوں نہیں تھے جبکہ اس کی گاڑی الٹ گئی اور کون اس کے بعد اس کو گولی مارنے میں کامیاب رہا۔ اس کو گولی مارنے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ اس کے پیر میں کیوں گولی نہیں ماری گئی تاکہ اسے زندہ گرفتار کیا جاسکتا اور اس سے تفتیش کی جاسکتی؟
یا حقیقی توجہ کے قابل نکتہ یہ ہے کہ دوبے 62 فوجداری مقدمات میں مطلوب تھا جن میں قتل کی وارداتیں اور 8 قتل کا ارادہ کرنے کی وارداتیں بھی شامل ہیں۔ 30 سال تک کیسے زندہ رہ سکا جبکہ اسے دولت مند اور بارسوخ افراد کی سرپرستی بھی حاصل نہیں تھی۔ اس نے ذائع ابلاغ پر ایک مکتوب گشت کروایا تھا مبینہ طور پر یہ دوبے کی ایما پر لکھا گیا ہے۔ مکتوب میں جس پر کسی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے سرکاری طور پر اس کی تردید ہوچکی ہے لیکن اس وقت جبکہ تیواری اور اس کے ایک اور ساتھی کو معطل کردیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ دوبے نے ان کے اقدامات کی تردید کردی تھی کہ پولیس نے اس کو گرفتار کرنے کے مقصد سے ان افراد کی زیر قیادت دھاوا کیا تھا۔
قبل ازیں مفاد عامہ کی ایک درخواست سپریم کورٹ میں چند دن قبل داخل کرتے ہوئے عدالتی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا تھا اور پیش قیاسی کی گئی تھی کہ دوبے کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا جس نے چند دن قبل 8 ملازمین پولیس کو ہلاک کردیا تھا۔ اترپردیش پولیس کی کارروائی پر اور ان کی وردی کی ساکھ پر تنقید کی جارہی ہے۔ کئی افراد کا خیال ہے کہ اگر پولیس انکاونٹر کا مقصد اجتماعی برہمی کا اظہار تھا کیونکہ جو کچھ گینگسٹر نے ان کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیا تھا اس پر پوری پولیس فورس برہم تھی۔
یہ شبہ کہ دوبے نے پوشیدہ طور پر راہ فرار اختیار کی تھی اور اس پر کامیابی حاصل کرنے کا ایک ہی متبادل باقی رہ گیا تھا کہ اسے قبر میں پہنچا دیا جائے، اب اسے کوئی ہلا نہیں سکتا۔ اس کی موت سے پہلے بھی وسیع پیمانے پر ایک ویڈیو جھلکی میں دکھایا گیا تھا کہ دوبے دعویٰ کررہا ہے کہ اسے دو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان اسمبلی کی تائید حاصل ہے (حالانکہ 2001 میں اس نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ ایک بی جے پی لیڈر کا پیچھا کررہا تھا جسے پولیس اسٹیشن تک پیچھا کرنے کے بعد دن دہاڑے اسے گولی ماردی گئی تھی)۔
اس کی والدہ نے علیحدہ طور پر دعویٰ کیا کہ اس کے بیٹے کو اب سماج وادی پارٹی سے متعلق ظاہر کیا جارہا ہے جبکہ سماج وادی پارٹی نے اس کی تردید کردی ہے۔
اس کے ریکارڈس کو طلب کرکے ان کے برسر عام انکشاف کا مطالبہ جائز ہونے کے سلسلہ میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کی پولیس کو یہ جاننا ضروری ہے کہ کونسے بارسوخ افراد کو کسی کی تائید کا حق ہے جبکہ وہ پولیس، حکومت یا اپوزیشن میں ہوں اور دوبے کے خلاف کارروائی کرسکتے ہوں۔
8 ملازمین پولیس کے ارکان خاندان جو اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے قتل کئے گئے تھے مبینہ طور پر ہنوز انصاف سے محروم ہیں، جبکہ ان کے ساتھ انصاف کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس کئی افراد جو کچھ پیش آیا اس پر خوش ہیں۔ اس کے باوجود ایک ایسے ملک میں جو فخر کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ 2008 کے ممبئی حملہ میں دہشت گرد ملوث تھے اور اجمل قصاب کو مقررہ طریقہ کار کی تکمیل کے بعد سزا دی گئی کیونکہ اس نے قانون کی بنیادوں کی خلاف ورزی کی تھی۔