ہندوستان میں لڑکیوں کی لڑائی کون لڑے گا

   

Ferty9 Clinic

محمد مصطفی علی سروری
اکتوبر کی 31 تاریخ تھی۔ صبح کے ساڑھے نو بجے کا وقت تھا اور حیدرآباد سے تقریباً 12 کیلو میٹر دور جوبلی بس اسٹینڈ، سکندرآباد میں پولیس نے ایک چار دن کی نوزائیدہ لڑکی کو زندہ دفن کردینے کے الزام میں تین لوگوں کو گرفتار کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق کمار نام کے ایک آٹو ڈرائیور نے پولیس کے گشتی جوانوں کو اطلاع دی کہ ایک شخص مشتبہ انداز میں گڑھا کھود کر ایک نومولود کو اس میں دفن کرنے جارہا ہے۔ پولیس کے جوان دوڑ کر جائے وقوع پر پہنچتے ہیں۔ تو پتہ چلتا ہے۔ ایک ادھیڑ عمر کا شخص اپنی ہی پوتری کو مرگئی ہے کہہ کر بس اسٹیشن کے پیچھے گڑھا کھود کر دفن کرنے جارہا تھا۔ لیکن پولیس جوانوں نے قریب سے اس نومولود کو دیکھاتو اس کے جسم میں جان بھی تھی اور دل کی دھڑکن بھی جاری تھی۔ پوچھ تاچھ کرنے پر پتہ چلا کہ مناسا اور راجو کریم نگر کے رہنے والے ہیں۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق 27؍ اکتوبر کو مناسا نے ایک لڑکی کو جنم دیا۔ ڈاکٹرز کے مطابق پیدائش کے وقت لڑکی میں کچھ نقص تھا۔ علاج کے لیے دادا دادی اور ایک جاننے والا فرد لڑکی کو لے کر شہر حیدرآباد میں نیلوفر دواخانہ پہنچے جہاں پر ڈاکٹرز نے انہیں کچھ دن بعد آنے کا مشورہ دیا۔ اپنے گائوں کریم نگر واپس جانے سے پہلے لڑکی کے دادا، دادی نے لڑکی کو زمین میں دفن کردینے کا فیصلہ کیا۔ ابھی گڑھا کھودا ہی تھا کہ عینی شاہد ہی نے دادا کو اپنی نومولود لڑکی کے ساتھ پولیس کے ہاتھوں پکڑا دیا۔ قارئین کرام ایک نومولود لڑکی کو اس کے دادا زندہ دفن کرنا چاہتا تھا، اگر پولیس والے وہاں بروقت نہیں پہنچتے تو (4) دن کی معصوم زندہ درگور ہوجاتی اور یہ واقعہ کسی گائوں دیہات کا نہیں بلکہ شہر حیدرآباد میں پیش آیا۔ جب شہر میں لڑکیوں کی پیدائش پر ایسا سلوک رکھا جاتا ہے تو ذرا گائوں دیہات کا اندازہ کیجیے گا، جہاں نہ تو ہر جگہ پولیس ہی پہنچ پاتی ہے اور نہ کوئی دوسرا۔ لڑکیوں کو ہندوستانی سماج میں کس طرح کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اندازہ لگائیے۔ لڑکی اگر پیدائش کے وقت بیمار ہے یا اس میں نقص ہے تو اس کو مار دینا گوارہ ہے، مگر علاج کروانا پسند نہیں؟ کریم نگر کے اس دادا دادی کو برا بولنا مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کا حل تو یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان شعور بیدار کیا جائے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں لڑکیوں کی زندگی کو ہر موڑ پر ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ تبھی تو پیدائش سے لے کر زندگی کی آخری گھڑی تک عورت کو ہر قدم پر امتحان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ پہلے تو دنیا میں آنے سے روکا جاتا ہے اور جب لڑکیاں جی بھی لیں تو انہیں بہت کم رحمت تصور کیا جاتا ہے۔
لڑکیوں کو پیدائش کے بعد زندگی کا سب سے بڑا امتحان شادی کے لیے دینا ہوتا ہے اور آج ہندوستانی لڑکی شادی کے نام پر بھی ہر دوسرے دن دھوکہ کا شکار ہو رہی ہے۔ کہیں اور کی نہیں میں شہر حیدرآباد کی ہی بات کروں گا۔ انگریزی اخبار نیو انڈین ایکسپریس نے 25؍ اکتوبر کو “Hyderabad woman loses Rs. 1 Crore to ….” کی سرخی کے تحت لکھا کہ ایک حیدرآبادی خاتون نے ایک نوجوان سے آن لائن دوستی شروع کی۔ آئی ٹی سیکٹر میں کام کرنے والی اس خاتون کو ایک نوجوان نے خود کو برٹش ایئرویز کے پائلٹ کے طور پر متعارف کروایا۔ آن لائن دوستی فون پر چیاٹنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ اخبار نے اگرچہ لڑکی کے نام کا انکشاف نہیں کیا لیکن مزید یہ کہا کہ اس آئی ٹی پروفیشنل خاتون کی برٹش ایئرویز کے پائلٹ سے شادی تو نہیں ہوئی مگر خاتون کو اس نوجوان نے مختلف حیلے بہانوں سے ایک کروڑ کا چونا لگادیا اور اپنا سب کچھ پیسہ لٹانے کے بعد اس 31 سالہ خاتون کی آنکھ کھلی۔
صرف شادی کے لیے لڑکیاں ہمارے ملک میں پریشانیاں نہیں جھیلتیں۔ جن لڑکیوں کی شادیاں آسانی سے ہو بھی جاتی ہوں انہیں میں سے بعض لڑکیوں کو نوکری کے دوران مصیبتیں جھیلنے کی نوبت آنپڑتی ہے۔ جی ہاں۔ ہمارے ملک ہندوستان میں حکومت نے بیٹی پڑھائو بیٹی بچائو کا نعرہ تو لگایا ہے مگر زمینی سطح پر ملک کی بیٹیاں بدستور مسائل اور وہ بھی جان لیوا مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔
وجیا ریڈی کی عمر 37 سال تھی۔ مریال گوڑہ نلگنڈہ کی اس خاتون نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ٹیچر کیا تھا۔ سال 2009ء میں آندھرا پردیش پبلک سروس کمیشن کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد منڈل ریوینیو آفیسر بن گئی۔ 14؍ نومبر 2019 کو وجیا ریڈی اپنے دفتر واقع عبداللہ پور مٹ میں مصروف تھی۔ دوپہر دیڑھ بجے کے آس پاس وجیا ریڈی کے دفتر میں سریش نام کا ایک شخص داخل ہوتا ہے اور پھر عبداللہ پور مٹ کی تحصیلدار وجیا ریڈی پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادیتا ہے۔ آگ کے شعلوں میں لپٹی وجیا ریڈی، جان بچانے کے لیے اپنے کمرے سے باہر نکلتی ہے اور بالآخر اپنے آفس کے دروازے سے باہر نکل کر گر پڑتی ہے اور قبل اس کے جان بچانے کی کوشش ہوتی اور وجیا ریڈی کو آگ کے شعلوں سے بچانے کے لیے کچھ کیا جاتا وہ وہیں پر دم توڑ دیتی ہے۔ وجیا ریڈی کو آگ میں زندہ جلانے والا حملہ آور خود بھی جھلس تو جاتا ہے مگر زندہ بچ جاتا ہے۔ وجیا ریڈی نہ صرف ایک تحصیلدار تھی بلکہ ایک بیوی اور دو بچوں کی ماں بھی تھی۔ اخباری اطلاعات میں بتلایا گیا کہ حملہ آور سریش کو تحصیلدار آفس سے کچھ شکایات تھیں جن کی عدم سنوائی پر بطور انتقام اس نے تحصیلدار میڈم ہی کو جلاڈالا۔
زندگی کے ہر شعبہ حیات میں ہندوستانی عورتوں کو امتیاز اور تعصب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اخبار انڈین ایکسپریس کی 6؍ نومبر کی رپورٹ کے مطابق 5؍ نومبر کو اترپردیش کے علاقے پریاگ راج کے ایک اسکول میں میڈیکل کیمپ لگایا گیا تھا۔ اس کیمپ کے دوران طلباء کی طبی جانچ چل رہی تھی جس کے دوران لڑکوں کی جانب سے لڑکیوں کو ہراساں کیا جارہا تھا۔ لڑکوں کو اس طرح کی حرکات سے باز رہنے کے لیے جب اسکول کے ٹیچر نے منع کیا اور انہیں ڈانٹ پلائی تو لڑکوں نے اپنے گھر جاکر مزید لوگوں کو اسکول طلب کرلیا اور پھر ان سب نے مل کر اس اسکول ٹیچر کی خوب پٹائی کی جس نے لڑکوں کو لڑکیوں کو ستانے سے منع کیا تھا۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی حالیہ عرصے میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صرف 2017ء کے دوران ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کے 56,011 کیسس دج رجسٹرڈ کیے گئے۔
کسی ایک شہر اور ریاست کی بات نہیں ہندوستان بھر کی یہی صورت حال ہے اور جب لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے تو وہ کیسا کمال کرسکتی ہیں اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگا ہے کہ 6؍ نومبر کے ہی اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق IIT دہلی کی جانب سے کیمپس میں طلبہ کو روزگار دلانے کے لیے منعقدہ پروگرام میںاندرا پرستھا انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹکنالوجی کی ایک طالبہ نے ایک کروڑ پینتالیس لاکھ کی تنخواہ کے ساتھ سب سے پرکشش پیاکیج حاصل کیا۔
کیا کوئی ہندوستانی سماج میں لڑکیوں اور خواتین کی اس حالت زار پر غور کرنے تیار ہے۔ کیا کوئی اس بات پر سوال کرے گا کہ مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے کے نام پرتین طلاق کے خلاف قانون سازی کی جاسکتی ہے تو ہندوستانی سماج میں خواتین کی عزت و ناموس جان و مال کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات کیوں نہیں۔ مسلم خواتین تو اقلیت میں ہیں جبکہ ہندوستانی خواتین کی اکثریت غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ کیا ان کو تحفظ کی ضرورت نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے موضوع کو مذہب کی عینک سے نہیں بلکہ انسانیت کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے؟ کیا کوئی ہے جو اس جانب توجہ دے۔ مسلم تنظیموں، اداروں، انجمنوں کو بھی اس حوالے سے فکر کرنا ہوگا کہ جو حکومت مسلم خواتین کو تین طلاق سے بچانے قانون بناتی ہے وہ حکومت خواتین کو بااختیاربنانے پارلیمنٹ میں 33 فیصد خواتین کے لیے تحفظات کیوں نہیں دیتی۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]