س
پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
سرحدوں سے ملکوں کا تعین ہوتا ہے اور ملکوں کا سرحدوں سے اندازہ لگایا جاتا ہے، اگرچہ یہ سرحدیں ملکوں کو ملکوں سے الگ کرتی ہیں ، لیکن سرحدیں لوگوں پر قابو نہیں پا سکتیں۔ عالمی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں کثیر تعداد میں لوگوں نے ایک ملک سے دوسرے ملک کو نقل مکانی کی ہے۔ اس معاملے میں بیسویں صدی قابل ذکر تھی اور اب اکیسویں صدی قابل ذکر ہے۔ عالمی سطح پر مہاجرین یا نقل مکانی کرنے والوں کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے 1951ء میں ایک تنظیم انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن (آئی او ایم) قائم کی گئی۔ یہ دراصل اقوام متحدہ کے نظام کے ایک حصہ کے طور پر قائم کی گئی تھی۔ اس تنظیم نے ہجرت اور اقتصادی، سماجی اور تہذیبی فروغ کے ساتھ ساتھ نقل مکانی کی آزادی سے متعلق حق کے درمیان تعلق کو تسلیم کیا۔ جہاں تک نقل مکانی کا سوال ہے، کوئی بھی اپنے ملک میں بھی نقل مکانی کرسکتا ہے اور اپنے ملک سے بھی دوسرے ملک کو ہجرت کرسکتا ہے۔ اسے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ (خود ہمارے ملک ہندوستان میں 65 ملین لوگوں نے بین ریاستی نقل مکانی کی ہے) ہم صرف کام کرسکتے ہیں جیسا کہ انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن نے کیا ہے اور یہ کام نقل مکانی کے انسانی نظم یا ہیومن مینجمنٹ میں مدد کو یقینی بنانے کیلئے کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک نقل مکانی کا سوال ہے، اس کی اصل وجہ ملک کی تقسیم ہوتی ہے جبکہ دوسری وجہ جنگ و جدال ہے۔ ہندوستان نے ملک کی تقسیم اور جنگ دونوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ 1947ء میں ملک کا بٹوارہ ہوا اور اس بٹوارہ میں سمجھا جاتا ہے کہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی یا ہجرت واقع ہوئی تھی اور یہ نقل مکانی لوگوں نے اپنی مرضی سے نہیں کی تھی بلکہ انہیں اس کیلئے مجبور کیا گیا تھا۔ ایک اندازہ کے مطابق 1947ء میں ملک کی تقسیم کے بعد 18 ملین لوگوں نے ہجرت کی۔ اسی طرح آزادی کی جنگ سے پہلے اور بعد میں جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی تخلیق کی شکل میں نکلا، اس وقت بتایا جاتا ہے کہ 8 تا 9 ملین پناہ گزین ہندوستان آئے اور ان میں سے زیادہ تر مغربی بنگال میں مقیم ہوگئے۔ ایک قابل لحاظ تعداد نے آسام میں بود و باش اختیار کی۔ ان پناہ گزینوں میں ہندو اور مسلمان سب شامل تھے ۔ تقسیم کے وقت لاکھوں کی تعداد میں مسلمان ہندوستان میں ہی رہ گئے جبکہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہندو اور سکھ پاکستان میں رہ گئے۔ دوسری طرف ہندوؤں کی ایک قابل لحاظ تعداد نے بنگلہ دیش میں رہنے کو ہی ترجیح دی۔ ان تینوں ملکوں میں سے ہندوستان اور بنگلہ دیش نے خود کے جمہوری ملک ہونے کا اعلان کیا اور یہ دو ممالک پناہ گزینوں کے معاملے میں خطرناک آزمائش سے گزرے۔
پچھلے کئی برسوں کے دوران لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانیوں بشمول ہندو، مسلم اور سکھ نقل مکانی کرتے ہوئے امریکہ پہنچ گئے اور وہیں مقیم ہوگئے اور ہم انہیں بڑے فخر سے سمندر پار ہندوستانی کہتے ہیں، لیکن یہ ہندوستانی نژاد شہری سکیولر لیکن عیسائی اکثریتی ملک میں ایک اقلیت ہیں۔ اسی طرح کئی یوروپی ممالک جیسے کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی مقیم ہیں۔ جب کبھی ان ملکوں میں کسی ہندوستانی کو نسلی یا مذہبی تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو حکومت ہند تشویش کا اظہار کرتی ہے جو قانونی طور پر جائز بھی ہے۔
اکثریتی ایجنڈہ
ہندوستان میں 213 ملین مسلمان بستے ہیں، یہ وہی ملک ہے جس میں ان کے آباء و اجداد رہا کرتے تھے۔ اسی طرح 15 ملین ہندو (160 ملین آبادی میں 15 ملین) بنگلہ دیش میں رہتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی اولاد ہیں یا ان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے تقسیم ملک یا آزادی کی جنگ کے دوران ہندوستان ہجرت کرنے یا نقل مکانی کرنے سے گریز کیا۔ ہندوستانی شہریوں کی اولاد یا وارث اور نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کے دونوں گروپ ہندوستان میں رہتے ہیں، انہیں وقفہ وقفہ سے مذہبی تعصب کا شکار بنایا گیا۔ اب بھی مودی حکومت ان کے تحفظ یا ان کے خلاف برپا کئے جانے والے تشدد کی مذمت سے انکار کرتی ہے اور اگر کوئی ملک سوالات اٹھاتا ہے تو مودی حکومت اسے انتباہ دیتے ہوئے یہی کہتی ہے کہ ان ملکوں کو ہندوستان کے داخلی اُمور میں مداخلت سے باز رہنا چاہئے۔ حکومت ہند کا یہ موقف ان واقعات میں بالکل برعکس ہوتا ہے جب بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے مذہبی مقامات پر حملے کئے جاتے ہیں۔ اس موقع پر ہندوستانی حکومت تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ہم سب نے دیکھا کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور ہندوؤں کی عبادت پر حملے کئے گئے جس کے ساتھ ہی بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے بیانات جاری کئے اور بلوائیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی اپنے وزیر داخلہ کو ہدایت کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوؤں اور ہندوؤں کی عبادت گاہوں پر حملوں کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی اور اس طرح کی کارروائی میں ملوث عناصر کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔
مجھے یہ یاد دلانے دیجئے کہ آر ایس ایس کے بانیوں میں سے ایک ایم ایس گولوالکر نے اپنی کتاب
We or Our Nationhood Define
میں لکھا ہے کہ جو لوگ ہندو نسل اور اس کی تہذیب کو تسلیم کرتے ہیں، اسے بڑا مانتے ہیں، وہ ملک میں رہ سکتے ہیں، لیکن انہیں ہندو قوم کے ماتحت ہوکر رہنا پڑے گا۔ کسی چیز پر ان کا دعویٰ نہیں ہوگا ، یہاں تک کہ شہری حقوق پر بھی نہیں۔ اس کتاب میں ایک طرح سے مسلمانوں کو کسی قسم کے حقوق نہ دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا آر ایس ایس ؍ بی جے پی کے موجودہ قائدین نے خود کو گولوالکر کے اس فلسفہ سے دور رکھا ہے؟ ان کے اقدامات ، ان کی حرکات اور ان کے الفاظ سے تو ایسا نہیں لگتا۔ درحقیقت آر ایس ایس اور بی جے پی قائدین کی خاموشی اور مسلمانوں پر ڈالے جانے والا دباؤ ہمیں بہت کچھ بتا دیتا ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا سکیولر ملک امتیازات پر مبنی شہریت ترمیمی قانون کو منصفانہ قرار دے گا اور ایسا قانون جس میں مذاہب کے ماننے والوں کو شامل کیا گیا لیکن مسلمانوں کو شامل کرنے سے گریز کیا گیا۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ سی اے اے یا شہری ترمیمی قانون اور لاکھوں کی تعداد میں مبینہ بیرونی باشندوں کو گرفتار کرنے کی دھمکی سے بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک میں اثر نہیں پڑے گااور حکومت ہند کے اقدامات کے اثرات وہاں مرتب نہیں ہوں گے؟ آیا ایک ہمہ تہذیبی ملک میں پہلو خاں کی ہجومی تشدد میں ہلاکت کو درگذر کیا جائے گا۔ پہلو خاں کا قصور کیا تھا؟ پہلو خاں راجستھان میں واقع اپنے چھوٹے سے ڈیری فارم کیلئے گائے منتقل کررہا تھا یا محمد اخلاق کو جس انداز میں ان کے گھر میں گھس کر صرف اس شک کی بنیاد پر مارا گیا کہ انہوں نے یوپی میں واقع اپنے مکان میں گائے کا گوشت رکھا ہے۔ کیا ہم اسے بھی معاف کریں گے؟ آیا ایک ہمہ مذہبی و تہذیبی ملک میں لو جہاد کے نظریہ کو برداشت کیا جائے گا جب دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہوتے ہیں اور شادی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کیا ایک اور جدیدیت پر یقین رکھنے والا ملک ایک پاپولر برانڈ ’’تنشق‘‘ پر زور دے گا کہ وہ اپنا وہ اشتہار ہٹا دے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ بین مذہبی جوڑا بڑی خوشی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے جس میں لڑکی ہندو ہے اور وہ اپنے مسلم شوہر کے خاندان کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہے۔ کیا ایک ہمہ تہذیبی اور متنوع تہذیب کی نمائندگی کرنے والا ملک اس بات کی اجازت دے گا کہ فیاب انڈیا جوکہ ملبوسات اور دیگر مصنوعات کا ایک انٹرنیشنل برانڈ ہے، اس کے اشتہار میں استعمال کئے گئے اُردو نام کو ایک جرم قرار دے اور یہ الزام عائد کرے کہ ایک ہندو فیسٹیول کو اس اشتہار میں اسلامی رنگ دیا گیا۔ آیا ایک غیرمتعصب و غیرجانبدار ریاست ،مظفر نگر اور شمال مشرقی دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات کی جو تحقیقات ہوئی، اس تحقیقات کے جو نتائج برآمد ہوئے، انہیں برداشت کرے گی؟ اگر کچھ ہندوستانی تمام نہیں، اپنے مسلم آبنائے وطن کو ستانے دھمکانے، گالی گلوج کرنے، نقصان پہنچانے، مجروح کرنے، دہشت زدہ کرنے یا قتل کرنے کے بہانے تلاش کرلیتے ہیں، انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ کیا دوسرے ملکوں میں رہنے والے ہندو اور سکھ اسی طرح کے تعصب، طعنوں، گالی گلوج، نقصان کا سامنا نہیں کریں گے۔ انہیں دہشت زدہ نہیں کیا جائے گا۔ خاص طور پر برصغیر میں ایکشن اور ری ایکشن کبھی بھی الگ نہیں رہے۔ کثرت میں وحدت ایک حقیقت ہے ۔ تکثیریت اور مشترکہ کلچر ہماری پہچان ہے۔ ہر ملک کیلئے ضروری ہے کہ وہ مختلف تہذیبوں کی نمائندگی کرنے مختلف مذاہب پر چلنے والوں اور مختلف زبانیں بولنے والوں کے ساتھ جینا سیکھے، ایک قوم کیا ہے، قوم دراصل قبولیت اور باہمی احترام کا نام ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں ہندوستان اس معاملے میں بالکل ناکام ہوگیا۔ صبر و تحمل اور برداشت کی جگہ ایسا لگتا ہے کہ تشدد نے لے لی ہے اور طرف ظلم و جبر اور نفرت ہے، کسی بھی وقت تشدد برپا کیا جاسکتا ہے، اگر آنکھ کے بدلے آنکھ نظریہ پر عمل کیا جائے تو پھر ساری دنیا نابینا ہوجائے گی۔ اپنے آپ سے پوچھئے یہ کس نے کہا؟