کوویڈ۔ 19 بحران کیلئے بھی مسلمان موردالزام ، مسلم مخالف فسادات میں پولیس کا جانبدارانہ رویہ
امریکی رپورٹ میں شرجیل امام ، عمر خالد ،صفورہ زرگر اور دیگر سی اے اے مخالف احتجاجیوں کی گرفتاری کا تذکرہ
واشنگٹن ۔ 15 مئی (سیاست ڈاٹ کام) امریکی کمیشن برائے آزادی مذاہب (یو ایس سی آئی آر ایف) نے ہندوستان میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمان سماجی کارکنوں کی گرفتاری پر تحفظات کا اظہار کردیا۔یو ایس سی آئی آر ایف نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت جب ہندوستان کو قیدیوں کی رہائی پر غور کرنا چاہے وہ بنیادی حقوق کے حق میں احتجاج کرنے والوں کو نشانہ بنا رہا ہے‘۔یو ایس سی آئی آر ایف نے کووڈ 19 کی وبا کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور انہیں رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے، ”کووڈ 19 کے بحران کے دوران ایسی اطلاعات ہیں کہ ہندوستانی حکومت ان مسلم کارکنان کو گرفتار کر رہی ہے جو شہریت قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، اس میں صفورہ زرگر بھی شامل ہیں جو اس وقت حمل سے ہیں۔ یہ وقت ہندوستان کو ایسے زمرہ کے قیدیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے رہا کرنے کا ہے، جو احتجاج کے لیے اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کر رہے ہیں ‘‘۔امریکی ادارے نے اپنی ٹویٹ کے ساتھ وہ تفصیلات بھی شائع کی ہیں جن کی بناپر ہندوستان کو انتہائی تشویش والے ممالک کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ اس میں شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو حکومت کی طرف سے دبانے، دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں پولیس کا جانبدارانہ رویہ، بی جے پی رہنماؤں اور بعض وزراء کے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز بیانات اور بڑے پیمانے پر ہجومی تشدد کے واقعات کو شامل کیا گیا ہے۔امریکی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 2019 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے ’’اقلیتوں کے خلاف تشدد کی کھلی چھوٹ اور ان کے مذہبی مقامات کو بلا روک ٹوک نشانہ بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز اور تشدد کو بھڑکانے والے بیانات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے بلکہ اس کے رہنما بھی اس میں ملوث ہیں۔”یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہندوستان میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران پولیس نے ان نوجوان مسلم طلبہ و طالبات کو گرفتار کیا ہے جو شہریت قانون کے خلاف تحریک میں روح رواں تھے۔ شرجیل امام، عمر خالد، صفورہ زرگر اور میران حیدر یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالرز ہیں اور ان سب کو دلی کے ان فسادات کی سازش کے لیے گرفتار کیا گیا ہے جو اصل میں مسلمانوں کے خلاف برپا ہوئے تھے۔ انہیں ملک سے بغاوت اور ایسے سخت قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ہے کہ ان پر مقدمہ چلائے بغیر برسوں جیلوں میں رکھا جا سکتا ہے۔دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ظفرالاسلام خان کہتے ہیں کہ دہلی فسادات کے سلسلے میں پولیس نے 1300 مسلمانوں کو گرفتار کر رکھا ہے۔ دلی پولیس نے حال ہی میں مسٹر خان کی ایک متنازعہ ٹویٹ کے لیے ان کے خلاف بھی بغاوت کا مقدمہ درج کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اب ’’دنیا ان زیاتیوں کا نوٹس تو لینے لگی ہے۔ ‘‘ اک جرمن نیوزسائٹ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ’’یہ گرفتاریاں اور مسلمانوں کے خلاف تمام کارروائیاں حکومت کی ایما پر ہورہی ہیں۔ ہونہار مسلم نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرنے کے لیے انہیں نشانہ بنا یا جا رہا ہے‘‘ و اضح رہے کہ ‘اپریل کے اواخر میں جب امریکی ادارے نے بھارت کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے مدنظر’خاص تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں شامل کیا تھا تو بھارت نے اس رپورٹ کو جانبداری پر مبنی اور بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت بتاکر مسترد کر دیا تھا۔