پروفیسر اختر الواسع
حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے مختلف تعلیمی اداروں کی درجہ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔اس میں خوشی کی بات یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ہمدرد تینوں نے اپنے لیے بہترین پوزیشن حاصل کی ہیں۔ جہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے وہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے آٹھویںپائیدان پر اپنے کو پہنچایا ہے۔ جامعہ ہمدرد نے فارمیسی کے میدان میں اپنی اوّلیت اور سبقت کو برقرار رکھا ہے۔ وہیں یہ بات بھی کم اعزاز اور افتخار کی نہیں ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے انجینئرنگ کالج نے بہتر تعلیم اور وہ بھی کم سے کم فیس کے ساتھ دینے والے اداروں میں اپنی پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔
ہندوستان اور خاص کر علی گڑھ پر اس کو جتنا بھی فخر ہو، کم ہے کہ مسلم دنیا میں جدید، سیکولراور مغربی علوم کا ادارہ ۲۴ مئی ۱۸۷۵ کو علی گڑھ ہی میں جیل روڈ پر سمیع منزل کے گیراج میں پانچ بچوں سے شروع ہوا۔ وہی ادارہ فروری ۱۸۷۷ میں ایم اے او کالج کے نام سے جانا گیا۔ اور دسمبر ۱۹۲۰ میں اسی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کی۔ علی گڑھ سر سید اور ان کے رفقا کی صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے۔ سر سید تھے تو ہم یہاں پر ہیں۔ اگر سر سید نہ ہوتے تو ہم کہاں ہوتے۔ یہ سوال ہے جس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔علی گڑھ کا یہ فیضان ہے کہ مسلم یونیورسٹی کی پہلی منتخب چانسلر ایک خاتون سلطان جہاں بیگم تھیں اور آج جب اس کے قیام کو ایک سو سال سے زیادہ ہو چکے ہیں، اس کی وائس چانسلر ایک خاتون پروفیسر نعیمہ خاتون ہیں جو کہیں اور کی نہیں وہیں کی تعلیم یافتہ ہیں اور اس ایک صدی سے زیادہ کے عرصے میں علی گڑھ کے پروردہ لوگوں نے بقول مجاز کے اپنے علم و فضل کے ابر باراں سے ساری دنیا کو مستفیض فرمایا ہے اور جو ابر یہاں سے اٹھا ہے وہ سارے جہاں پر برسا ہے۔ہمیں خوشی ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی موجود ہ خاتون وائس چانسلر محترمہ نعیمہ خاتون نے ۱۵؍ اگست کو سلامی لینے کے بعد علی گڑھ کی امتیازی درجہ بندی کے حصول پر نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ اگلے سال ان شاء اللہ علی گڑھ پانچویں پائیدان پر پہنچے گا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ علی گڑھ نے یہ سب کچھ جو حاصل کیا ہے اور قومی تعلیم کے زمرے میں جس درجہ بندی پر پہنچا ہے وہ تمام الجھنوں اور پریشانیوں کے باوجود پہنچا ہے۔ سرکار اور اغیار دونوں نے علی گڑھ کو نیچا دکھانے میں اور اس کے اصل کردار کو مسخ کرنے کی کسی کوشش سے گریز نہیں کیا۔ تب بھی اس نے بہر حال جو جگہ بنائی ہے وہ قابل فخر بھی ہے اور اطمینان کا باعث بھی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ جو مہاتما گاندھی کے آشیرواد، شیخ الہند مولانا محمود حسن کی دعاؤں، مولانا محمد علی جوہر کے جذبۂ صادق، حکیم اجمل خان کی قربانیوں، ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی ایثار پیشگی، اے ایم خواجہ کی لگن اورعلامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزادکی تائید اور ڈاکٹر ذاکرحسین کی بے پناہ جد وجہد کا نتیجہ ہے۔ ہماری تحریک آزادی کا وہ ثمرہ ہے جس کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ، جس کا قیام ۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ کو علی گڑھ میں خیموں کی ایک بستی میں ہوا، ۱۹۲۵ میں جو علی گڑھ سے دہلی قرول باغ میں کرائے کی عمارتوں میں آ گئی اور پھر ذاکر صاحب اور ان کے رفقا کی محنت اور کاوشوں سے جس نے جمنا کے کنارے اوکھلا کی بستی کو میں اپنا مستقل مستقر بنایا۔یہ وہ ادارہ ہے جس کے بنانے والوں نے ’’ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول‘‘ کو اپنا عملی وظیفہ بنا لیا۔ جامعہ والے ہمیشہ استغنا اور توکل کے پیرو رہے۔ انھوں نے یہ سوچ کر اپنے دلوں کے داغوں کو روشن رکھا اور جد وجہد کی کہ اگر ہم ملک کو فوری طور پر آزاد نہیں کرا سکتے تو کم سے کم اپنی تعلیم کو استعماریت کے پنجے سے آزاد کرا لیں۔ آزادی کے بعد ۱۹۶۴ میںڈاکٹر ذاکر حسین کی تحریک پرپروفیسر محمد مجیب کی سربراہی کے دور میں جامعہ ڈیمڈ ٹو بی یونیورسٹی اور پروفیسر علی اشرف کے دور سربراہی میں ۱۹۸۸ میں جناب خورشید عالم خان کی کوششوں سے مرکزی یونیورسٹی بنی اور پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور کیمپس کی آرائش و زیبائش سے لے کر علم و فضل کی نئی بلندیوں کو چھوتی چلی گئی اورآج اس کے پاس میڈیکل کے علاوہ تمام علوم کی ترویج و اشاعت کا سامان موجود ہے ۔ جامعہ کے سلسلے میں ایک دلچسپ حقیقت کا اظہار کرنا بہت ضروری ہے، جامعہ کے شعبۂ اردو کے سربراہ پروفیسر گوپی چند نارنگ تھے تو اسی زمانے میں شعبۂ ہندی کے سربراہ پروفیسر مجیب رضوی تھے۔ آج جامعہ تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور اس نے بہت جلد ملک کی یونیورسٹیوں میں اپنی انتہائی قابل فخرامتیازی شناخت قائم کر لی ہے او ر وہ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے ملک کی تیسری دانش گاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ امید ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ آنے والے دنوں میں اپنے اساتذہ کی توجہ، اپنے طلبہ کی محنت اور اپنے غیر تدریسی عملے کی جاں فشانی سے اور زیادہ بہتر جگہ بنا لے گی۔
یہ کم دلچسپ حقیقت نہیں ہے کہ ۱۸۵۷ کے بعد دلی نے ہندوستانی مسلمانوں کو سرسید دیے اور ۱۹۴۷ کے بعد اسی دلی نے ہندوستانی مسلمانوں کو حکیم عبد الحمید دیے جنھوں نے ہمدرد دواخانے کو وقف کر کے اس کی آمدنی سے نہ صرف مسلمانوں کی سفید پوشی کا بھرم رکھا بلکہ نئے سرے سے ادارہ سازی کر کے امید کی ایک نئی کرن جگائی۔ انھوں نے طب یونانی کی ترویج، تحقیق وتدقیق کے ذریعے حکیم اجمل خان کے بعد اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ اس کے علاوہ انھوں نے زبان و ادب، تہذیب و ثقافت، معاشی خود مختاری اور تعلیم کے نئے نئے ادارے بنائے۔ یہ بات کم اہمیت کی نہیں ہے کہ انھوں نے اپنی دور رس نگاہی سے لوگوں کی بھرپور مخالفت اور مذاق کے باوجود ایسے علاقوں میں مٹی کے مول زمینوں کو خریدا اور وہاں پر تعلیم اور تحقیق کے نئے ادارے قائم کیے جو آج سب کے لیے فخروانبساط کا موجب ہیں۔ یہ بات سب کو پتہ ہونی چاہیے کہ دہلی میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کی بنیاد سب سے پہلے حکیم عبد الحمید صاحب نے ہی رکھی تھی اور یہ ان کے اخلاص نیت ہی کا نتیجہ ٍتھا کہ ۱۹۸۸ میں اس وقت کے وزیر اعظم نے جامعہ ہمدرد کا افتتاح کیا اور ایک اقلیتی ادارے کی حیثیت سے جامعہ ہمدرد نے مختلف پیشہ ورانہ مہار ت کے مضامین کے ساتھ ہیومینیٹیز اور سوشل سائنسیز میں اپنی جگہ بنائی ہے اور اس کی فارمیسی میں جو ممتاز ترین حیثیت ہے، اس کی پوری دنیا معترف ہے۔ اسی طرح یونانی طریقۂ علاج اور اس کی ادویہ سازی میں جامعہ ہمدرد جو خدمات انجام دے رہی ہے وہ ساری دنیا پر آشکارا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد کے علاوہ مسلمانوں نے جو علم و دانش کے فروغ کے لیے ادارہ سازی کی ہے اس میں میگھالے کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، انٹگرل یونیورسٹی لکھنو(اتر پردیش)، جودھ پوری(راجستھان) کی مولانا آزاد یونیورسٹی، کٹیہار (بہار)کی الکریم یونیورسٹی، دھوج(ہریانہ) کی الفلاح یونیورسٹی، چینئی(تمل ناڈو) کی بی ایس عبد الرحمن انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ممبئی کی انجمن اسلام، اور انجمن خیر الاسلام مسلمانوں میں جہالت کی تاریکیوں کو دور کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ صرف مسلمانوں ہی کو نہیں غیر مسلموں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں۔ (مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ہیں)