کرسٹوف جیفری لاٹ
ہمارے ملک میں ہر پانچ سال بعد لوک سبھا انتخابات ہوتے ہیں اور یہ انتخابات پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی کا جائزہ لینے اس کا تجزیہ کرنے کا ایک موقع فراہم کرتے ہیں ۔ اس نقطہ نظر سے 2024ء کے لوک سبھا انتخابات نے اُس ساختی رجحان کی تصدیق کی ہے کہ پارلیمنٹ یا ایوان میں اس مرتبہ مسلمانوں کی نمائندگی یا اُن کا حصہ مزید کم ہوا ہے ۔ 2014 کے عام انتخابات میں جو مسلم امیدوار منتخب ہوئے پارلیمنٹ میں اُن کی نمائندگی ؍ حصہ 4.6فیصد تھا جو 2024ء کے عام انتخابات میں گھٹ کر 4.4 فیصد ہوگیا ۔ اگر ہم ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مردم شماری 2011 ء کے مطابق مسلمانوں کی آبادی ہندوستان کی جملہ آبادی کا 14.5 فیصد ہے ۔ اگرچہ حکمراں بی جے پی نے ان انتخابات میں کوئی زیادہ مسلم امیدوار میدان میں نہیں اُتارے تھے ۔ ایک دو جن کو بھی میدان میں اُتارا وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔ اس طرح نہ صرف بی جے پی بلکہ اس کے ساتھ قومی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں نے بھی جن مسلمانوں کو ٹکٹ دیئے تھے وہ بھی میدان ہارگئے غرض پارلیمنٹ میں فی الوقت بی جے پی کا ایک بھی مسلم ایم پی نہیں ہے ۔ ایک طرف بی جے پی کی زیرقیادت حکمراں ’’این ڈی اے ‘‘ اتحاد ہے جس کا ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہ ہوا ۔
دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں ہیں جو کانگریس کی زیرقیادت ’انڈیا بلاک ‘ کا حصہ ہیں ، یہاں صورتحال مختلف ہے۔ لیکن ان جماعتوں سے منتخب ہونے والے مسلم ارکان پارلیمان کی تعداد ہنوز جتنی نمائندگی ہونی چاہئے اس سے بہت کم ہے ۔ انڈیا بلاک کے منتخب ارکان پارلیمان میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کا حصہ صرف 7.9فیصد ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 2019ء میں بی جے پی نے کامیابی کے بعد حکومت تشکیل دی تھی اس میں مختار عباس نقوی کو بھی شامل کیا گیا تھا جو بی جے پی کے واحد رکن پارلیمنٹ ( راجیہ سبھا ) تھے۔ اس مرتبہ راجیہ سبھا میں بھی بی جے پی کا کوئی مسلم رکن نہیں ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو اس کالم میں ہنری لونس فاؤنڈیشن کی مالی اعانت سے چلنے والے انڈین مسلم پراجکٹ کے فریم ورک میں کئے گئے سروے کی بنیاد پر پوچھے گئے ہیں۔ سائنس پی او پرنسٹن یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی کے اسکالرس کی جانب سے 2020 ء میں شروع کئے گئے اس پراجکٹ میں ہندوستان ، امریکہ اور کولمبیا یونیورسٹی کے تقریباً 50 محققین شامل ہیں۔ ملک کے 100 پارلیمانی حلقوں میں پھیلے 100 اسمبلی حلقوں میں شامل 400 مراکز رائے دہی کا مطالعاتی جائزہ لیا گیا ۔ یہ مطالعاتی جائزہ یا اسٹڈی ، نیشنل الکٹورل اسٹڈی کے ایک حصہ کے طورپر سی ایس ڈی ایس نے 28 مارچ تا 8 اپریل 2024 ء اہتمام کیا تھا اور اس میں ہندوستان کی 19 ریاستوں میں پھیلے 10119 افراد سے بات کی گئی یا اُن کے Sample حاصل کئے گئے ۔ ہم نے جن 19 ریاستوں کا تذکر کیا ہے اُن میں آندھراپردیش ، آسام ، بہار ، گجرات ، ہریانہ ، کرناٹک ، کیرالا ، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹرا ، اُوڈیشہ ، پنجاب ، راجستھان ، ٹاملناڈو ، اُترپردیش ، مغربی بنگال ، دہلی ، جھارکھنڈ ، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ شامل ہیں ۔ نمونے حاصل کرنے کا جو ڈیزائن اپنایا گیا وہ Mult Stage RandomSampling تھا ۔
اس طریقہ کار نے اس امر کو یقینی بنایا کہ منتخب کردہ نمونہ ملک میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے رائے دہندوں کا مکمل نمائندہ نمونہ تھا یعنی اس سروے میں تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے رائے دہندوں سے بات کی گئی ، اُن کے خیالات سے آگہی حاصل کی گئی ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کے مذکورہ سروے ہندؤوں میں مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے تعصب کے منصفانہ درجہ کا انکشاف کررہا ہے ۔ سروے کے دوران اس بات کا پتہ چلا کہ 27 فیصد ہندو پوری طرح یا کسی حد تک مسلمانوں کو ناقابل بھروسہ سمجھتے ہیں یعنی ان پر اعتماد نہیں کرتے ۔ دلت ہندو اور ہندو قبائل سے تعلق رکھنے والوں ( جیسا کہ سروے کے مطابق درجہ بندی کی گئی ) میں بالترتیب 28.7 فیصد اور 31 فیصد نے یہ خیالات ظاہر کئے لیکن سب سے بڑی خرابی سماجی نہیں بلکہ جغرافیائی ہے ۔ ہاں جنوبی ہند میں اس تعلق سے جن رائے دہندوں سے بات کی گئی ان میں صرف 13 فیصد نے پوری طرح یا کسی حد تک اس آئیڈیا سے اتفاق نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلمان اس طرح قابل بھروسہ و قابل اعتماد ہیں جس طرح دوسرے ہندوستانی ہیں۔ جبکہ اس قسم کے خیالات ظاہر کرنے والوں کی تعداد ہندی ریاستوں میں 27 فیصد اور مغربی ہندوستان میں 20 فیصد رہی ۔
اس طرح جن ہندوؤں کے سروے میں انٹرویو لئے گئے ان میں سے 26 فیصد نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ مسلمانوں بھی اسی طرح محب وطن ہیں جس طرح کوئی اور ہندوستانی اپنے ملک سے محبت رکھتے ہیں ۔ اس معاملہ میں پھر ہندو دلت اور ہندو قبائلی دیگر ہندوؤں کی بہ نسبت زیادہ متعصب ثابت ہوئے جن میں سے بالترتیب 30فیصد اور 28 فیصد (24.3 فیصد اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے برعکس ) زیادہ متعصب دیکھے گئے ۔ اور ہاں اس معاملہ میں قابل ذکر بات یہ رہی کہ شمالی ہند اور جنوبی ہند کی ریاستوں میں جو قابل لحاظ خلیج پائی گئی صرف 18.1 فیصد رائے دہندوں نے پوری طرح یا کسی حد تک اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ ہندوستانی مسلمان دوسرے ہندوستانیوں کی طرح محب وطن ہیں ۔اس تعلق سے ہندی ریاستوں میں 28.1 فیصد اور مغربی ریاستوں میں 21 فیصد لوگوں نے ( جن سے بات کی گئی ) ایسے ہی خیالات ظاہر کئے ۔ یہ خیال ایک پرانے آئیڈیا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسلمانوںکی غیرضروری طورپر تائید و حمایت کی جاتی ہے یا غیرضروری طورپر ان کی طرفداری کی جاتی ہے ۔ ہندو رائے دہندوں کی ایک بڑی تعداد سے انٹرویوز لئے گئے جن میں 47 فیصد نے پوری طرح یا کسی حد تک اس خیال سے اتفاق کیاکہ مسلمانوں کی غیرضروری طورپر خوشامد کی جاتی ہے حالانکہ دستیاب تمام اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان ایک ایسے پرآشوب دور سے گذر رہے ہیں اُنھیں جاب مارکٹ ( روزگار کے بازار ) ہاؤزنگ مارکٹ ( امکنہ کے بازار ) کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام میں ( کم از کم شمالی اور مغربی ہند کی ریاستوں میں ) حاشیہ پر پہنچادیا گیا ہے ، وہ مذکورہ تینوں میدانوں میں انتہائی کمزور اور پسماندہ ہیں۔ ذات پات اور برادریوں کے نقطہ نظر سے بھی یہاں مسلمانوں کے خلاف اتفاق رائے دکھائی دیتا ہے ۔ دلت اور قبائل اس نظریئے کو شیر کرنے کیلئے اعلیٰ ذاتوں اور اعلیٰ او بی سیز کی بہ نسبت ( 43.4 فیصد اور 43.5 فیصد ) ۔ 46.8 فیصد اور 49.9 فیصد پر تھوڑا کم مائل ہیں۔
یہ نقطۂ نظر بتاتا ہے کہ ہندوؤں کا ایک بڑا حصہ 22 فیصد یہ سمجھتا ہے کہ صرف ہندوؤں کو ہی تحفظات سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے ۔ اس کے برعکس 71 فیصد مسلمانوں کا یہ سمجھنا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو اس مثبت امتیاز کی شکل ( تحفظات ) تک رسائی حاصل کرنی چاہئے ۔ تاہم جب سوال بہت زیادہ مخصوص ہوگیااور جب سروے میں ان لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ہندوؤں اور مسلمانوں کو درج فہرست ذاتوں کے زمرہ میں تحفظات دیئے جانے چاہئے، اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت نے اتفاق کیا ( ہندو دلتوں میں صرف 28.1 فیصد نے اتفاق نہیں کیا) جو اس بات کاایک واضح عکس ہے کہ مسلمان دلتوں کی کم از کم خوشامد نہیں کی گئی ایسے میں اُنھیں اسی قسم کے سپورٹ کی ضرورت ہے جو دیگر دلتوں کو حاصل ہے ۔ جن ہندوؤں سے بات کی گئی اُن میں سے اکثر نے اس خیال کا اظہار کیا کہ دیگر مسلمانوں کیلئے کوئی خاص اقدام نہیں کیا جانا چاہئے ۔ کاسٹ گروپ کے مطابق 60 تا 68 فیصد ہندوؤں کا سوچنا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ریاست کے حکام نے غیرمنصفانہ رویہ نہیں اپنایا ۔ جن مسلمانوں سے بات کی اُن میں سے 43 فیصد اس کے برعکس سوچتے ہیں ۔