مارکنڈے کٹجو
غزہ میں حیوانیت کا سلسلہ جاری ہے وہاں فلسطینیوں کی نسل کشی، ان کی نسلی تطہیر اور ان کا قتل عام کیا جارہا ہے جس کے خلاف عالمی سطح پر انسانیت نواز لوگ زبردست احتجاج بھی کررہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کے مختلف مقامات پر مظلومین غزہ کی تائید و حمایت میں مظاہرے کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران بمبئی ہائیکورٹ نے پولیس کے اس انکار کو برقرار رکھا جو اس نے چند لوگوں کے پرامن طور پر جمع ہوکر غزہ میں جاری اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا۔ حالانکہ اُن لوگوں نے پولیس سے دستور ہند کی دفعہ 19(1)(b) کے تحت پرامن احتجاج کی اجازت دینے کی درخواست کی تھی۔ یہ دفعہ ایسی ہے جو ہندوستانی شہریوں کو بنا کسی اسلحہ کے پرامن طور پر جمع ہونے کا حق دیتی ہے۔ بمبئی ہائیکورٹ کے ججس جنھوں نے اس کیس کی سماعت کی، کہاکہ ہندوستانی عوام کو ملکی مسائل پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے نہ کہ بیرونی ملکوں کے مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ یہیں سے جڑے رہیں… یہیں سے … یہیں سے! ہائیکورٹ نے درخواست گذار کو مشورہ دیا کہ وہ حب الوطنی کا مظاہرے کرے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا حب الوطنی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ہندوستانی شہری کسی بیرون ملک میں برپا کئے جارہے خوفناک مظالم پر احتجاج نہیں کرسکتا۔ ہندوستان کے مقبول ترین پورٹل دی وائر کا اس بارے میں کہنا تھا کہ بمبئی ہائیکورٹ کے مشاہدات میں مرکزی حکومت کی سیاسی جانبداری جھلکتی ہے۔ میرے خیال میں بمبئی ہائیکورٹ کا یہ خیال دستور کی دفعہ 19(1)(b) میں ترمیم کے مترادف ہے جس میں لکھا ہے کہ تمام ہندوستانی شہریوں کو بناء اسلحہ کے پرامن طور پر جمع ہونے کا حق ہے لیکن اب بظاہر یہ حق صرف اُس وقت دیا جارہا ہے جب صرف ملکی معاملات پر احتجاج ہو غیر ملکی معاملت پر نہیں۔ جہاں تک ترمیم کا سوال ہے صرف پارلیمنٹ کسی بھی قانون میں دو تہائی اکثریت سے ہی ترمیم کرسکتی ہے جو آئین میں یا دستور میں اختیارات کی علیحدگی کے اُصول کے خلاف Judicial Outreach کی خلاف ورزی ہے (اس سلسلہ میں ڈیویژنل منیجر اراولی گولف کلب بمقابلہ چندرہاس مقدمہ سے متعلق فیصلہ کے پیرا 17 سے دیکھئے) اس کے علاوہ دستور ہند کا تمہید یہ کہتا ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن یہ کس قسم کی جمہوریت ہے جہاں شہریوں کو پرامن طور پر جمع ہونے اور تمام مسائل پر بات کرنے کی اجازت نہیں چاہے وہ ملکی مسئلہ ہو یا بیرونی ملک کا مسئلہ۔اگر بمبئی ہائیکورٹ کے نکتہ نظر کو قبول کیا جائے تو ہندوستان میں ایک اور عدالت نے بمبئی ہائیکورٹ کے حکم سے متاثر ہوکر مزید آگے بڑھتے ہوئے دستور کی دفعہ 19(1)(b) کی تشریح کرتے ہوئے یہ کہہ سکتی ہے کہ دفعہ 19(1)(b) کا مطلب یہ ہے کہ شہریوں کو بناء ہتھیار کے پرامن طور پر جمع ہونے کا حق حاصل ہے لیکن انھیں یہ اعلان کرنا ہوگا کہ وہ حکومت پر تنقید نہیں کریں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد جمہوریت میں کیا باقی رہ جائے گا؟