ہندوستان کا ایک اور خلائی کارنامہ

   

سیاست فیچر
خلائی سائنس کے شعبہ میں ہندوستان کی ترقی قابل رشک ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی تنظیم NASA کی طرح ہمارے ملک کی خلائی تنظیم اِسرو (انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن) ساری دنیا میں شہرت رکھتی ہے اور اس کا شمار خلائی سائنس کی انتہائی اڈوانسڈ تنظیموں میں ہوتا ہے۔ اسرو نے کمرشیل سیٹلائٹس کی لانچنگ کے ذریعہ دنیا بھر میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ آپ کو یاد دلادیں کہ 26 مئی 1999ء میں جبکہ ہندوستانی معیشت عالمی مارکٹ میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کیا، اس نے پہلی مرتبہ پولار سیٹلائٹ لانچ وہیکل (PSLV) کے ذریعہ 45 کیلوگرام وزنی جرمنی کا سیٹلائیٹ اور 110 کیلوگرام کوریائی سیٹلائیٹ کو مدار میں داخل کیا۔ وہی دن ہندوستانی خلائی پروگرام کا سنہری دن تھا، اس کے بعد سے ہندوستان نے خلائی سفر بڑی تیزی سے طئے کیا اور تب سے اب تک اسرو نے کمرشیل مشق کے تحت 343 بیرونی سیٹلائیٹس پی ایس ایل وی جیسے خلائی گاڑیوں کے ذریعہ مدار میں داغے۔ ہندوستانی خلائی سائنس میں جی ایس ایل وی MK3 ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اسے دنیا جیو سنکروٹس سیٹلائیٹ لانچ وہیکل مارک 3 (GSLV-MK3) یاLVM3 کے نام سے جانتی ہے۔ اتوار کو 12.07 منٹ پر لندن سے کام کرنے والی سیٹلائٹ کمپنی ون ویب کی عالمی براڈ بینڈ انٹرنیٹ سسٹم کے 36 سیٹلائٹس مدار میں داغ کر ایک نئی تاریخ رقم کی، اس نے 1:30 بجے تک ون ویب کے تمام 36 سیٹلائیٹس کو مدار میں داخل کیا۔ ان سیٹلائٹس کے 1500 کیلومیٹر قطبی مدار میں منتقل ہونے کیلئے کچھ ہفتہ درکار ہوں گے۔ یہ ہندوستانی خلائی سائنس کی نہ صرف تجارتی لحاظ سے بڑی کامیابی سے بلکہ ٹیکنالوجی کے حساب سے بھی ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اُمید ہے کہ اس کامیابی کے بعد ہندوستان کے عالمی صارفین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ آپ کو بتادیں کہ ون ویب کی اپنے مواصلاتی نیٹ ورک کو مدار میں تعینات کرنے کی کوششیں مارچ میں روک دی گئی تھی۔ اس کی وجہ روس ۔ یوکرین جنگ ہے۔ ون ویب نے اپنے سیٹلائٹس کو مدار میں پہنچانے کیلئے پہلے روسی ساختہ سوبوز راکٹس استعمال کرنے والی تھی لیکن ون ویب کو روسی راکٹوں کے استعمال کو معطل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اتوار کو کئے گئے لانچ کے بعد اب زمین کے اوپری مدار میں موجود سیٹلائٹس کی جملہ تعداد 462 ہوگئی ہے۔اس سے ون ویب کمپنی کو عالمی سطح پر اپنی کوریج کیلئے ان کی ضرورت کا 70% سے زیادہ حصہ حاصل ہوگا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ یہ ان کا فرسٹ جنریشن سیٹلائیٹ کی کہکشاں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ون ویب کے کچھ حصے کی ملکیت حکومت برطانیہ کے پاس ہے اور اس نے جیوسینکرونس سیٹلائیٹ لانچ وہیکل (جی ایس ایل وی) استعمال کرکے عالمی سطح پر اس کی دھاک بٹھا دی ہے۔ ویسے بھی جی ایس ایل وی ہندوستان کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ قابل اعتماد راکٹ ہے جہاں تک ون ویب کا سوال ہے، یہ کمپنی ڈائرکٹ ٹو ہوم ٹی وی کی دنیا میں سب سے بڑے اور اہم ڈسٹری بیوٹرس میں سے ایک ہے۔ جی ایس ایل وی ہندوستان کا پہلا راکٹ ہے جو 5,796 کیلوگرام وزن کے ساتھ روانہ ہوا۔ آپ کی اطلاع کیلئے یہ بتانا ضروری ہوگا کہ جون 2019ء میں GSLV-MK3 کے آغاز کا اعلان کیا گیا۔ اس سے پہلے اس نے چندرائن 2 لانچ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے نام کے ساتھ کئی ’’پہلے‘‘ ، ’’سب سے پہلے‘‘ جڑے ہوئے ہیں۔ اسپیس پی ایس یو نیواسپیس انڈیا لمیٹیڈ NSIL نے ون ویب کے مزید 36 سیٹلائٹس زمین کے زیریں مدار میں داخل کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور توقع ہے کہ 2023ء کے اوائل میں GSLV-MK3 کو استعمال کرتے ہوئے اس مشن کی تکمیل کرے گی۔ NSIL اپنی خلائی گاڑی کے ذریعہ 30-40 سیٹلائیٹس زمین کے زیریں مدار میں داخل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جہاں تک ان سیٹلائیٹس کا تعلق ہے، ان کی زندگی 5 تا 7 برسوں کی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 5 تا 7 برسوں میں ان کی تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ GSLV-MK3 ، 40 تا 42 سیٹلائیٹس یا 6,000 کیلوگرام تا 6,300 کیلوگرام وزن زمین کے زیریں مدار میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اس راکٹ کو مدار میں 8,000 کیلوگرام وزن لے جانے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 23 اکتوبر 2022ء تک ہندوستان نے 34 مختلف ملکوں کے 381 سیٹلائیٹس خلاء میں داغے ہیں جبکہ ہندوستان نے اپنے 47 سالہ خلائی سفر میں خود اپنے 120 سیٹلائیٹس خلاء میں بھیجے ہیں۔