ہندوستان کا نظریہ

   

اروپ کمار دتہ
میں اپنے مضمون کا آغاز اپنے شخصی تجربہ کو دہراتے ہوئے کرتا ہوں۔ کچھ سال پہلے دہلی کے ایک اسکول کے طلباء و طالبات سے بات چیت کا ایک سیشن یا اجلاس رکھا گیا تھا جس میں ایک لڑکے نے مجھ سے دریافت کیا کہ آخر آپ اپنی کتابوں میں چھوٹے بچوں کے نام عجیب و غریب رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر تھنیاک، چھنگن اور دادی ماں کملونگ جیسے نام بھی اس نے دہرائے تھے۔ میں نے اپنی کتاب ’’کرسٹل کیف‘‘ جسے نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا نے شائع کروایا یا ایک اور کتاب چوکانگ پن اینڈ چوٹاپن ان ریونج جسے چلڈرنس بک ٹرسٹ نئی دہلی نے شائع کروایا ان کتابوں میں مذکورہ نام کے کردار پیش کئے تھے لیکن میری بعض کتابوں میں میں نے ہوپیکس، یوریانسیس اور دھنائس جیسے لڑکے لڑکیوں کے نام یا ان کے کردار کے طور پر پیش کئے۔ اگرچہ ان ناموں کی آوازیں عجیب و غریب لگتی ہیں اور شمالی ہند کے کسی شہری بچے کے کانوں کے لئے یہ نام عجیب و غریب یا کسی خلائی مخلوق کے لگتے ہیں لیکن نام نام ہوتے ہیں جس طرح امیتابھ اور شاہ رخ کے نام نوجوان نسل میں بہت زیادہ مقبول ہیں اور ان ناموں سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔ بہرحال میں نے اس لڑکے کے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے مثال کے طور پر بتایا کہ دی کرسٹل کیف میں تھینیاک، چھنگون اور کاملونگ جیسے نام میں نے پیش کئے۔ وہ نام دراصل اروناچل پردیش جیسی خوبصورت ریاست کے دور دراز علاقوں میں پائے جانے والے نوکٹے قبائلیکے نام ہوا کرتے ہیں۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں کی تہذیب و تمدن اور نسلی امتیاز ہندوستان کے دیگر حصوں سے بہت مختلف ہے لیکن ان میں اپنی ہندوستانیت کی شان و وقار پر فخر پایا جاتا ہے۔

شمالی ہند میں کئی دور گذرے ہیں جن کے دوران اخلاقی تمدن کے مکاتب فکر رائج ہوئے جبکہ جنوبی ہند میں اس طرح کے مختلف دور نہیں گذرے۔ شمال مشرقی ہند کے عناصر چین، ہند چینی تبت اور مائنمار کے تہذیب و تمدن سے طویل عرصہ تک متاثر رہے۔ اس طرح یہاں ایک ملاجلا اور پیچیدہ تہذیب و تمدن رائج ہوا جو کہیں بھی نہیں پایا جاتا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تقریباً 22 سرکاری زبانیں ہندوستان میں مسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی بولیاں اپنی ادبی روایات کے ساتھ ملک گیر سطح پر رائج ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان نے دنیا کے کسی مذہب اور تمدن کا مکمل طور پر اثر قبول نہیں کیا بلکہ یہاں ایک مشترکہ تہذیب و تمدن رائج ہوا، یہاں تک کہ ہندو ازم میں بھی جین ازم، بدھ ازم اور سکھ ازم اور دیگر مذاہب جیسے اسلام، عیسائیت، یہودیت اور زرتشتی مذہب کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ سرحدی ہندوستانی سماج میں تمام مذاہب اور روایات کے تانے بانے موجود ہیں۔ اس طرح ’’ہندوستان کے نظریہ‘‘ کی تخلیق ہوئی اور یہ کئی عالمی مذاہب، تہذیب و تمدن کا ایک حسین امتزاج بن گیا۔

مثال کے طور پر 1857 کی فوجیوں کی بغاوت جسے ہندوستان پہلی جدوجہد آزادی قرار دیتا ہے ہندوؤں اور مسلمانوں کی جانب سے شانہ بہ شانہ کی گئی تھی۔ درحقیقت یہ ایک ناقابل قیاس اور مالامال نمونہ تھا جس نے مختلف برادریوں، مذاہب، روایات، تمدن اور زبانوں کو متحد کرکے ’’ہندوستان‘‘ کا نظریہ پیش کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانیت مختلف مذاہب و عقائد کا حسین گلدستہ ہے۔ ان میں دورافتادہ علاقوں کے فنون لطیفہ، موسیقی اور رقص کی مختلف اشکال بھی موجود ہیں۔ یہاں کئی اقسام کے جانور، گلیاں، کھیل، پہاڑ، دریائیں اور صنعتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہاں کے سماجی کارکن، سائنسدانوں، فنکاروں اور عوام پر مشتمل ہیں اور یہ سب ہندوستانیت کو مستحکم بناتے ہیں اور یہ ملک ایک حقیقی جمہوری نظام بن جاتا ہے۔ نئی نسل میں سیکولر جذبات کی فراوانی ہے جن میں جنسی اور صنفی مساوات، ماحولیات، صورتحال کو بہتر بنانا، مسائل جو بچپن سے محروم بچوں میں پائے جاتے ہیں خوبصورتی کے ساتھ سمولئے گئے ہیں۔ اس کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان تمام نظریات اور اصولوں کے مخالف ہیں۔ اب نظریہ انتشار پسند عناصر پر توجہ مرکوز کرنے کا نام ہے اور ان ہی عناصر کو عروج حاصل ہو رہا ہے۔ سماج کے ذات پات، فرقوں اور اخلاقی خطوط پر انتشار کا عالم ہے جو افراد برسر اقتدار ہیں وہ ان عناصر پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش نہیں کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں انتشار اور تقسیم کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ جدوجہد آزادی بھی ہمیں دو قومی نظریہ عطا کرچکی ہے جس کی بناء پر برصغیر ہند کی تقسیم عمل میں آئی اور تین مختلف ممالک یعنی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش قائم ہوئے۔ دہلی میں بھی فرقہ پرستی پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے کئی انسانی جانیں ضائع ہوئی اور سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے۔ گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کردیا گیا اور اس طرح اجتماعی نفسیات مجروح ہوگئی۔

بدقسمتی سے بڑے پیمانے پر یہ بات بالکل درست ہے کہ انتشار پسند عناصر نے ہماری ذہنیت میں اپنی جڑیں پیوست کردی ہیں اور ہم صدیوں قدیم اجتماعی نفسیات کو تباہ کرنے پر تل گئے ہیں۔ اب ہم آہنگی مذہبی خطوط پر پیدا کی جارہی ہیں اور پورا سماج ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے والے انتہا پسند مذہبی رہنما پیدا کررہا ہے۔ آج قومی سطح پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اجنبی بن گئے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے جو مساوات اور یکجہتی پر مبنی سماج کا نظریہ پیش کیا تھا وہ آج علاقائی بنیادوں پر کھیل کا میدان بن گیا ہے۔ نفرت پسند عناصر عصر حاضر میں فرقہ پرستی اور نفرت پسندوں سے تحریک حاصل کرکے ایک انتشار پسند سماج کی تخلیق کررہے ہیں۔
قومی یکجہتی اتحاد و سالمیت پر مبنی ہندوستان کا نظریہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ 2020 کی دنیا کی آزادی کی رپورٹ کے الفاظ میں چین اور ہندوستان کے درمیان اصولوں اور اقدار کی بناء پر نہیں بلکہ انتشار پسند عناصر کے زیر اثر تصادم کا سلسلہ جاری ہے اور درحقیقت یہ ایک عظیم سانحہ ہے کہ گزشتہ 100 سال تک جدوجہد کرکے ہم نے ہندوستانیت کے نظریہ کو استحکام عطا کیا تھا۔ اس کو بری طرح نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ جمہوری ادارے ختم کئے جارہے ہیں۔ دنیا کی عظیم ترین جمہوریت اپنے بنیادی نظریہ کو بھولتی جارہی ہے۔