ہندوستان کدھر جارہا ہے اور مسلمان کدھر…؟

   

محمد ریاض احمد

کسی بھی ملک اور معاشرہ کی ترقی و خوشحالی کیلئے اس معاشرہ کا صحت مند ، تعلیمی و فنی صلاحیتوں سے لیس اور معاشی طور پر مستحکم ہونا بہت ضروری ہے، اگر ان تینوں اہم چیزوں پر غور کیا جائے تو تعلیم اللہ عزو جل کی وہ نعمت ہے جس کے ذریعہ نہ صرف انسان معاشی طور پر مستحکم ہوتا ہے بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی صحت مند اور توانا ہوتا ہے، یعنی تعلیم ہی دولت، شہرت، عزت، طاقت کے حصول کا باعث بنتی ہے۔ دین اسلام میں حصول علم پر پر بہت زیادہ زور دیا گیا۔ قرآن مجید میں تدبر و تفکر کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی آیت قرآنی نازل ہوئی، وہ بھی پڑھنے یعنی علم سے متعلق ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’اگر علم حاصل کرنے کیلئے تمہیں چین بھی جانا پڑے تو جاؤ‘‘۔ حضرت سیدنا علیؓ فرماتے ہیں: ’’علم کا ایک قطرہ جہالت کے سمندر سے بہتر ہے اور عمل کا ایک قطرہ علم کے سمندر سے بہتر ہے، بے شک جہالت انسان کو اس کی قدر و منزلت پہچاننے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہے، لیکن انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تعلیمی شعبہ میں مسلمانوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ علم و عمل کے ذریعہ کبھی بیشتر دنیا پر حکومت کرنے والے مسلمان آج جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ حاکم سے محکوم، طاقتور سے کمزور، بااثر سے بے اثر صحت مند سے بیمار (تعلیمی و معاشی لحاظ سے) چاق و چوبند و حرکیاتی سے بے حس، کردار کے غازی سے گفتار کے غازی، نڈر سے ڈرپوک اور وقت کی پابندی کرنے والے سے وقت ضائع کرنے والے بن گئے ہیں۔ ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں مسلمانوں نے تقریباً 1145 سال حکومت کی لیکن آج اس ملک میں تعلیمی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے مسلمان ہی سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ حال میں راقم الحروف کی نظر سے ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم یا ہائیر ایجوکیشن کے 7 اہم رجحانات سے متعلق ٹی وی موہن داس پائی نشا ہلا کا ایک مضمون گذرا جس میں دونوں نے بہت ہی تفصیلی طور پر اعلیٰ تعلیم میں مختلف مذاہب کے ماننے اور طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے تناسب ان کی شرح کا جائزہ لیا۔ اس جائزہ میں پھر ایک مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ تعلیمی اعتبار سے مسلمان اب بھی سب سے زیادہ پسماندہ و کمزور ہیں۔ نتیجہ میں ان کے حق میں موثر آواز اٹھانے والا کوئی نہیں

اور جو ان کی قیادت و نمائندگی کے دعوے کرتے ہیں۔ وہ ٹی وی چیانلوں اور میڈیا کے دیگر ذرائع پر بیانات جاری کرتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے بڑھ کر ملت کا ہمدرد کوئی نہیں ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں۔ جو ہر چھوٹے بڑے مسئلہ پر ٹوئٹ کرنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ انہیں صرف اپنے بچوں کی فکر لاحق ہوتی ہے بلکہ نونہالان ملت کے بارے میں سوچ و فکر کرنے اور ان کی بہبود کیلئے کام کرنے کی زحمت نہیں کرتے، پر ایسے لوگ ہیں جنہیں اپنے مفادات تو عزیز ہوتے ہیں لیکن ملی مفادات کے تحفظ کیلئے صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔ یہ قائدین عام مسلمانوں سے ایسے ہی سلوک روا رکھتے ہیں جیسے اعلیٰ ذات کے ہندو دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ رکھتے ہیں۔ حالانکہ لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ زندگی مختصر ہے اور زندگی کا چراغ کبھی بھی گُل ہوسکتا ہے۔ جھوٹ، دھوکہ دہی، مکاری، و عیاری سے جو کچھ بھی بنایا ہے، وہ سب کا سب فنا ہونے والا ہے۔ بہرحال ہم بات کررہے تھے کہ اعلیٰ تعلیم کے اہم رجحانات کی ۔اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ کسی بھی ملک اور معاشرہ کی ترقی کیلئے تین اقسام کے سرمائے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ جسمانی، مالیاتی اور انسانی آج کے اس دور میں علوم یا نالج پر مبنی اقتصادی عنصر انسانی سرمایہ کے آنے والے برسوں میں سماجی و معاشی ترقی پر انتہائی اہم ا ثرات مرتب ہوں گے جہاں تک انسانی سرمایہ کا سوال ہے، اس کی شروعات ہمارے نظام تعلیم سے ہوتی ہے۔ سال 2011ء سے ہر سال وزارت فروغ انسانی وسائل نے آل انڈیا اِسٹاٹسٹکس آف ہائر ایجوکیشن (AISHE) اعلیٰ تعلیم سے متعلق کل ہند اعداد و شمار کے ذریعہ ایک غیرمعمولی ڈیٹا تیار کیا ہے۔ AISHE ایک ایسا سروے ہے جس سے ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں دلچسپ رجحانات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے ان رجحانات کے ذریعہ ہم انسانی سرمایہ کے فروغ سے متعلق ہم اپنی مہم کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ ہندوستان نے کامیابی سے صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے اور اب ساری توجہ معیار اور ناموں کے اندراج پر مرکوز ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان کے ہائر ایجوکیشن میں سال 2018-19ء میں ناموں کا جملہ اندراج 3.74 کروڑ تھا حالانکہ 2011-12ء میں اندراج 2.91 کروڑ تھا۔ اس کا مطلب کمپاؤنڈ انیول گروتھ ریٹ (CAGR) 3.6 فیصد رہا۔ اگر ہم چین کی طرف دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ 2018ء میں وہاں اعلیٰ تعلیم کیلئے اندراج کروانے والے طلبہ کی تعداد 3.8 کروڑ تھی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان بہت جلد دنیا کا سب سے بڑا نظام تعلیم بن جائے گا۔ آپ کو بتادیں کہ ہمارے ملک میں 51,649 تعلیمی ادارے ہیں جن میں 973 یونیورسٹیز یا جامعات ہیں۔ چونکہ ہماری چین سے مسابقت ہے، اس لئے دیکھا جائے تو چین میں اعلیٰ تعلیمی مشن کے مجموعی اندراج کا تناسب (GER) توقع ہے کہ 2020ء تک 50% کو عبور کرے گا جبکہ ہندوستان میں فی الوقت یہ تناسب 26.3% ہے جس سے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں ترقی اور امکانات کے اشارے ملتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو 2011-12ء کے دوران ہندوستان میں تعلیمی اداروں کی تعداد 46,651 تھی۔ اس مدت کے دوران 2,91,84,331 ناموں کا اندراج عمل میں لایا گیا۔ فیڈریشن کے قائدین، چیمبرس آف کامرس اینڈ (FICCI) نے ویژن 2030ء برائے اعلیٰ تعلیم اور قومی تعلیمی پالیسی 2019ء کے متعلق اپنی رپورٹ کے ذریعہ یہ بتایا کہ ہندوستان میں اپنے مجموعی اندراج کے تناسب کو 2030ء میں 50% تک بڑھانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ 2029-30ء میں5.5 کروڑ ناموں کے اندراج ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا۔ اس طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2029-30ء میں 18 تا 23 سال عمر کی حامل آبادی 14.5 کروڑ نفوس پر مشتمل ہوگی۔ اگر یہ امکانات پائے جاتے ہیں تو GEN تناسب میں صرف 38.1% کا اضافہ ہوگا۔ اگر ہم 2030ء میں 50% GEN کا ہدف رکھتے ہیں تو جملہ درکار اندراج 7.24 کروڑ ہونا چاہئے۔ سر دست ہم فی ادارہ 724 طلبہ رکھتے ہیں، تب ہی 2030ء میں اعلیٰ تعلیم میں 7.24 کروڑ طلبہ ہوں۔ فی الوقت معیار تعلیم اور GEN وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ٹی وی موہن داس پائی اور نشا ہلا کے مضمون میں یہ بھی بتایا گیا کہ اعلیٰ تعلیم کے کورسیس میں خواتین کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ سال 2018-19ء کے دوران 1.92 کروڑ طلبہ اور 1.82 کروڑ طالبات نے اپنے ناموں کا اندراج کروایا۔ 2011-12ء سے طلبہ کے اندراج میں 2.5% اور سی اے جی آر اور طالبات کے اندراج میں ناقابل یقین 4.9% سی اے جی آر کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں خواتین کی تعداد میں اضافہ کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور 2020-30ء کے دوران ایک دہے میں افرادی قوت میں زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ خواتین ہوں گی۔ 2017-18ء– 2018-19ء کے دوران طلبہ کی تعداد میں کمی درج کی گئی۔ 2011-12ء ہائیر ایجوکیشن کیلئے نام درج کروانے والی خواتین کی تعداد 44.6% رہی تھی اور اب ان کی تعداد 48.6% ہوگئی ہے۔ خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی، فینانس، کامرس، نگہداشت صحت، تعلیم، قانون، بزنس ایڈمنسٹریشن میں فی الوقت ہمارے ملک میں ماہرین کی بہت ضرورت یا طلب ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے طلبہ کن مضامین کو ترجیح دے رہے ہیں۔ 2018-19ء کے دوران دیکھا گیا کہ 1.09طلبہ نے بی اے اور بی اے آنرس، 52.6 لاکھ طلبہ نے بی ایس سی اور بی ایس سی آنرس، 40.3 لاکھ طلبہ نے بی کام، 37.7 لاکھ طلبہ نے بی ٹیک اور بی ای اور 12.2 طلبہ نے بی اے جیسے کورسیس کیلئے اپنے نام درج کروائے۔ ایم بی بی ایس میں داخلہ لینے والوں کی تعداد 2.7 لاکھ رہی اور طب سے جڑے مختلف کورسیس میں جملہ 1.2 کروڑ طلبہ نے داخلہ لیا۔ ان تمام کورسیس میں 99.9 لاکھ نے گریجویشن کی تکمیل کی۔ جہاں تک ایم بی بی ایس کا سوال ہے، ہندوستان کی 130 کروڑ آبادی کیلئے نگہداشت صحت کے جامع انفراسٹرکچر نیٹ ورک کی تعمیر جاری ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹروں کی تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ضروری ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مختلف کورسیس میں جو داخلے لئے جاتے ہیں، ان کا صرف .45% سے بھی کم داخلے پی ایچ ڈی میں لئے جاتے ہیں۔ 2018-19ء کے درمیان پی ایچ ڈی پروگرام میں 1.65 لاکھ طلبہ نے اپنے ناموں کا اندراج کروایا۔ 2018-19ء میں 40,813 طلبہ کو پی ایچ ڈی عطا کی گئی۔ حکومت نے دوسری طرف ایس سی ؍ ایس ٹی، او بی سی، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کیلئے مثبت اقدامات کئے۔ 2018-19ء میں ایس سی؍ ایس ٹی اور او بی سی طبقات کے طلبہ کا ہائیر ایجوکیشن میں تناسب ان کی آبادی کے تناسب سے بالکل قریب رہا۔ ایس سی کی آبادی 2011ء میں مردم شماری کے مطابق 16.6% ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں ان کے داخلوں کا تناسب 14.9% رہا۔ ایس ٹی کی آبادی 8.6% ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں ان کا تناسب 5.5% رہا۔ او بی سی کی آبادی 40.9% ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں ان کا تناسب 36.3% رہا۔ مسلمانوں کی آبادی 14.2% ہے لیکن اعلیٰ تعلیم میں ان کا تناسب صرف 5.2% ہے۔ مسلمانوں کی حالت ِ زار انتہائی ابتر ہے۔ مسلمانوں کو تعلیمی لحاظ سے آگے بڑھانے کیلئے ٹھوس اقدامات ہورہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ملک کی پانچ ریاستوں میں جہاں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے، ساتھ ہی سابق ریاست جموں و کشمیر جہاں مسلمانوں کی 68.3% آبادی ہے، وہاں بھی مسلمان تعلیمی شعبہ میں بہت پیچھے ہیں۔ جموں و کشمیر میں حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ 18.1% ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کو تعلیمی حالت بہتر بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں حکومت کو چاہئے کہ تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ کرے۔ خود مسلمانوں کو اپنے انسانی سرمایہ کو بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگا۔ اگر ایس سی، ایس ٹی اور او بی سیز تعلیمی شعبہ میں ترقی کررہے ہیں تو ہم مسلمان کیوں پیچھے ہیں، انہیں اس بارے میں ضرور سوچنا ہوگا، ورنہ مستقبل میں مسلمانوں کے حالات مزید ابتر ہوسکتے ہیں اور ان کی شناخت و سلامتی کے مسائل سنگین رُخ اختیار کرسکتے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا جب ایک انتہائی چھوٹی سی اقلیت ’’سکھ‘‘ زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاسکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں۔ ہماری آبادی 2 کروڑ نہیں بلکہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 17.22 کروڑ ہے۔ کاش! مسلم قائدین، علماء و مشائخین سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور کرتے تو کتنا بہتر ہوتا۔
[email protected]