بنگلورو۔9؍نومبر ( ایجنسیز ) راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ ہندوستان کو ‘دھرم’ پر مبنی قوم کے طور پر ابھرنا چاہیے اور مستحکم ہونا ہوگا۔ ہفتہ کو بنگلورو میں آر ایس ایس کی صد سالہ یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی قومیں اپنے اپنے ‘سوَدھرم’ کی تعریف خود طے کرتی ہیں۔موہن بھاگوت نے کہاکہ وہ (قومیں) اپنے لوگوں میں خوشحالی لانے اور انسانیت کی بھلائی میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس لیے، ہماری پہلی فکر اپنے کام کو ہر گاؤں اور ہر طبقہ تک پہنچانا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ہندو سماج کو ایک یکساں اکائی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہمیں تنوع کے ہر طبقے تک پہنچنا ہے اور ہندو سماج کو منظم کرنا ہے۔ تمام 142 کروڑ لوگوں کو جن میں بہت سے مذہبی فرقہ بھی شامل ہیں جن میں سے کچھ تاریخ کے دوران باہر سے آئے ہیں۔ہندو، ہندوی اور ہندوستانی سب مترادف الفاظ ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ بات چیت شروع کی ہے جو خود کو ہندو نہیں مانتے۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ ہندو نہیں بلکہ ہندوی (ہندی) ہیں۔ دوسرے کہتے ہیں کہ وہ انڈک (ہندوستانی) لوگ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب مترادف الفاظ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہندو لفظ کا استعمال اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ یہ خلاصے کو ظاہر کرتا ہے۔ ہندو کسی بھی طرح سے محدود نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں برے کے مقابلے میں کم از کم چالیس گنا زیادہ اچھا ہو رہا ہے۔ اس لیے یہ اچھے کا وقت ہے، برے کا وقت گذر چکا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ ہمارے خوابوں کے ہندوستان کو شرمندہ تعبیر کرنا ہوگا لیکن اس کے لیے پہلے صحیح سوچ کا ہونا ضروری ہے۔ ہم ملک گیر سطح پر غور و خوض اور چرچا شروع کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ہم سب ایک ہی نوآبادیاتی ذہنیت کے ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ ایک معاشرے کے طور پر ہمیں اس سے نکلنے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنا ہوگا۔ معاشرے کو خیر سگالی، ہم آہنگی اور مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ہمیں دھرم پر مبنی ملک کہا جاتا ہے۔ دھرم کو مذہب کے طور پر غلط ترجمہ کیا گیا ہے۔ دھرم مختلف ہے، اس میں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے، سچائی یا خدا تک پہنچنے کے طریقے مختلف ہیں۔ سچائی بہت وسیع اور عالی شان ہے اور فطری طور پر اس تک پہنچنے کے مختلف راستے ہیں۔ دوسرے کو پریشان کیے بغیر زندگی گزارنا ـضروری ہے۔ ایک ہندوستانی کے طور پر میں کہتا ہوں کہ اگر ہمارے ملک کو خوشحال ہونا ہے تو ہمیں دھرم کی ضرورت ہے۔