ہندوستان کو اسلام کی ضرورت ہے

   

ایڈوکیٹ عثمان شہید
قارئین کرام ! انسان نے بہت ترقی کی ہے، چاند پر جاکر واپس آگیا ہے اور اب تو سورج کے دروازہ پر دستک دے رہا ہے۔ گویا سورج کو بھی مسخر کرنے کی کوشش کررہا ہے،ہوسکتا ہے کہ کامیاب ہوجائے۔ لیکن تمام کوششوں کے باوجود انسان کئی ایک بیماریوں پر آج بھی قابو نہیں پاسکا۔ لاک ڈائون ہوا لاکھوں لوگ مارے گئے، پھر لاک ڈائون ہونے کا خدشہ سائنسدانوں نے ظاہر کیا ہے۔ لاک ڈائون بیماری نہیں، بیماری کا علاج ہے۔ لوگوں نے لاکھوں روپے خرچ کئے لیکن اس بیماری کا علاج نہ ہوسکا۔
فرزندان آدم ؑکے وجود سے لے کر آج تک انسان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا رہا ہے اور اس پیاس کو بجھانے کے لئے کسی نہ کسی عنوان پر ایک دوسرے کا قتل کرارہا ہے۔ لیکن انسان کی اس ذلیل ترین حرکت کا کوئی مداوا نہیں ہوسکا۔ کب کون انسان جانور کے روپ میں اچانک آجاتا ہے ہم یقین نہیں کرسکتے۔ مغربی بنگال میں ایک بیچاری ڈاکٹر کا کوئی قصور نہیں تھا اپنی رات کی ڈیوٹی پر اپنا فرض انجام دے رہی تھی لیکن ایک درندہ انسان کے روپ میں اچانک ظاہر ہوا اور یہ بے بس لڑکی کو بلاوجہ اپنی ہوس پورا کرنے کے لئے وہاںنہ صرف اس لڑکی کو قتل کرتا ہے بلکہ اس کی عصمت ریزی بھی کرتا ہے۔ آخر ہندوستان میں جتنے واقعات اس قبیل کے ہوئے ہیں اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہم اس نتیجہ کو پہنچتے ہیں کہ الحمدللہ کم سے کم مسلمان ایسے واقعات میں ملوث نہیں پائے گئے ہیں۔ یہ سب اسلام کے اُصولوں کا نتیجہ ہے۔ اسلام میں چونکہ زنا کی سزا موت ہے اس لئے ڈر موت کا اتنا گہرا ہے کہ بس سے بدترین گنہگار ایسا فعل کرنے سے پہلے دس بار سوچتا ہے۔ اسی لئے اڈوانی نے جب وہ وزیرداخلہ تھے کہا تھا کہ زنا کی سزا پھانسی دی جائے۔ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ زنا کے ملزم کو پھانسی پر لٹکادیا جائے۔ وہ ملک جہاں زنا کی سزا پھانسی ہے ایسی حرکت سے محفوظہے۔اور کم سے کم واقعات کے شاہد ہیں۔
صرف اڈوانی نہیں غرض یہ کہ قانون نیا نہیں، عام انسان بھی اس امر کا داعی ہے کہ واقعی زنا کی سزا موت ہونی چاہئے اور انسان کو خطرناک جرائم سے روکنے کے لئے اسلام کے اصولوں کے تحت سزا دی جانی چاہئے۔ چوری کی سزا کے بطور انسان کے ایک ہاتھ کو کاٹ دیا جائے اور دیکھئے کتنے انسان چوری سے باز رہتے ہیں۔ مار پیٹ، دھوکہ دہی ،عورتوں پر ظلم ایسے کئی اور واقعات صفحات کی زینت نہیں بنیں گے۔ ایسے واقعات بہت کم ہوتے تھے جب مسلمان بادشاہت کرتے تھے اور ازروئے اسلام حکومت کرتے تھے ۔ الحرا بالحرے کے اصول پر عمل پیرا تھے۔ نام نہاد ترقی پسندی نے عام انسان کو نئی تہذیب سے آشنا کردیا۔ کپڑے زیب تن کردیئے بلکہ عام کپڑوں کی جگہ سوٹ اور شیروانی نے لے لی، لیکن اس کی فطرت کو نہیں بدل سکے۔
موجودہ قوانین انسان کو بری حرکتوں سے محفوظ نہیں کررہے ہیں۔ reformative theory ، crpc کے ضابطہ کے تحت جنم تو لے چکی ہے لیکن موثر ثابت نہیں ہوسکی۔ ایک ہفتہ کے اندر عصمت ریزی وقتل کے تین واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ انسان شرافت کا لبادہ تو پہن رہا ہے لیکن کون کب درندہ بنتا ہے کہا نہیں جاسکتا۔ اس کو روکنے کے لئے اسلامی اصول کا سختی سے نفاذ ضروری ہے۔ اللہ نے جو قوانین نافذ کئے ہیں وہ انسانوں کے حق میں بہتر ہیں۔ آج نہیں تو کل انسان ایسے قوانین پر عمل کرے گاکیونکہ ایسے قوانین کے تحت ہی اس کی بقاء اور دردندگی سے حفاظت ہوسکتی ہے۔
دو وقت کی روٹی اور دو گز کپڑا تو انسان کی ضرورت ہے، یہ تو پورا کرو، دنیا چاند بن جائے گی۔ چاند پر جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، سورج کی طرح جگمگائے گی، ہر پھول تاروں کی طرح چمکیں گے۔ یونانی فلاسفر دیودانس کلبی نے کیا خوب کہا تھا جب سکندراعظم ملنے آیا تھا اِس نے سکندر سے صرف اتنا کہا تھا کہ آپ میرے سامنے سے ہٹیئے ورنہ آپ دھوپ کو روک رہے ہیں۔ یہ کہنا یا کلبی کا فرمان ثابت کررہا ہے کہ انسان کو کسی چیز کی ضرورت نہیں صرف دھوپ چاہئے زندہ رہنے کے لئے۔ رشی منی، بڑے بڑے بندگانِ خدا نے کبھی دنیوی خواہشات کی پیروی نہیں کی، دنیا کو ٹھوکر پر رکھا اور ہمیشہ یہی کہا کہ
مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہئے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتاہے
رنگا بلاکی زندگی کتے کی زندگی ہے،قانون پر سختی سے عمل ثابت کرتا ہے کہ بادشاہوں کے قبور تک ملیامیٹ ہوگئے لیکن اللہ والوں کے مزار آج بھی مرجع خلائق بنے ہوئے ہیں۔