ہندوستان کو طالبان سے بات کرنی ہوگی

   

شیکھر گپتا
گڑبڑ زدہ ملک افغانستان میں امریکی فوج کے تقریباً تخلیہ نے علاقہ میں بے شمار تبدیلیوں کا آغاز کردیا ہے۔ امریکی فوج کے انخلاء کا سب سے زیادہ فائدہ حسب توقع طالبان کو ہوگا ۔ حالیہ عرصہ کے دوران ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ طالبان افغانستان کے طول و عرض پر کنٹرول حاصل کرتے جارہے ہیں۔ طالبان کی پیشقدمی اور امکانی اقتدار سے ہندوستان فکرمند ہوگیا ہے اور اس کی فکر غلط بھی نہیں ہے۔ طالبان کا جہاں تک سوال ہے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندوستانی حکومت طالبان کو پسند نہیں کرتی لیکن انہیں پسند کریں یا نہ کریں طالبان ایک حقیقت ہے۔ ہندوستان طالبان سے معاملت کرسکتا ہے اگر بی جے پی اپنی ملکی سیاست پر نظرثانی کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا فارمولہ ہے جو عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے سے بالاتر ہے۔ بہرحال طالبان کی بڑی تیزی سے پیش قدمی نے جہاں اشرف غنی حکومت کو پریشان کردیا وہیں ہندوستان میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ ایسے میں دہلی اور کابل کے درمیان سرگرمیوں میں شدت پیدا ہوئی ہے۔ ہندو کش کی دیواروں پر جو تحریر ابھر آئی یہ وہ واضح ہے۔ طالبان عروج پر ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ افغانستان کی موجودہ صورتحال بالخصوص طالبان کے عروج میں ہندوستان کہاں ٹھہرا ہے یا اس کا کیا موقف ہوگا؟ آیا ہندوستان کو مایوس ہونا چاہئے اس بات پر برہم ہونا چاہئے کہ نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے کلینکل انداز میں پسپائی اختیار کی ہے یا افغانستان میں رونما ہو رہی تبدیلیاں اس کے لئے مواقع ثابت ہوتے ہیں۔ ہندوستان اور طالبان کے تعلقات ہمیشہ عداوت پر مبنی رہے دوستانہ نہیں رہے کیونکہ ہندوستان نے ہمیشہ طالبان کو پسند نہیں کیا۔ ان کی مخالفت کی۔ موجودہ حالت میں ہم یہ کرسکتے ہیں کہ طالبان سے معاملت کرلیں ہیں یا پھر اس بات کو لیکر پریشان نہیں ہوتے کہ وہ پاکستان کے زیر کنٹرول ایک اسلامک ملیشیا ہے۔
جارج ڈبلیو بش نے جب افغانستان پر امریکی فورس کا قبضہ کروایا اس کے بعد واشنگٹن نے ہمیں علاقہ کے لئے علاقہ، اف ۔ پاک جیسی صراحت کا تحفہ دیا۔ کیا ہندوستان امریکہ کی جانب سے کی گئی اس صراحت کو قبول کرے گا؟ کیا ہم اپنی فوجی حکمت عملی سے متعلق سوچ و فکر کو کے نشان ربط کو ختم کرسکتے ہیں؟ آیا ہندوستان اب بھی 2011 کا ہندوستان ہے ؟ راقم نے یہ قومی مفاد میں تحریر کیا تھا اور اس کے لئے کئی وجوہات بھی دی تھیں کہ ہندوستان کو افغانستان (AF) پاکستان پر چھوڑ دینا چاہئے۔ لیکن ہم نے اس سلسلہ میں کیا کیا ہے؟
سب سے پہلی بات یہ کہ اس بات کے پورے پورے شواہد پائے جاتے ہیں کہ طالبان، پاکستان پر منحصر ہونے یا پھر اس کے احسان تلے دبے رہنے کے نتیجہ میں ہمیشہ پاکستان کے وفادار رہیں گے۔ یہ ایسے اتحادی ہیں جنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ دوستی کے ایک ایسے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں جو بلند و بالا پہاڑوں سے بھی بلند ہے۔ سمندروں سے بھی گہری ہے۔ اس طرح کے الفاظ اکثر و بیشتر چین اور پاکستان کی دوستی اور ان کے باہمی تعلقات کے بارے میں بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔
آپ کا یہ سوال ہوسکتا ہیکہ طالبان سے دوستی کیوں نہیں کی جاسکتی؟ کیا طالبان اب ویسے نہیں رہے جسے پاکستان کے ساتھ اپنی پہلی اننگز میں تھے، لیکن میچول فنڈس کے اشتہارات میں جس طرح کا قانونی انتباہ دیا جاتا ہے کہ ماضی کی کارکردگی یا شاندار مظاہرہ ضروری نہیں کہ مستقبل کے مظاہرہ کے لئے ایک گائیڈ یا رہنما بنے۔ ایسے ہی طالبان کے ساتھ تعلقات جغرافیائی نقطہ نظر سے ہندوستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں بہتر ہوں۔ اقوام، معاشرے جو کچھ بھی ان کی نظریاتی قوت ہو ہر حال میں ان کے اپنے مفاد میں کام کرتی ہے۔ اب یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہیکہ آیا اس بات کے کوئی اشارے پائے جاتے ہیں کہ طالبان اب کی بار ماضی کی بہ نسبت مختلف ہوں۔ ان کی طرز زندگی، اسلام کی تشریح، خواتین، تعلیم اور شہری آزادیوں پر ان کا نقطہ نظر جدید معاشروں سے مختلف ہوسکتا ہے۔ ان معاشروں کی نظروں میں وہ ناگوار نقطہ نظر کی حیثیت سے کھٹکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ طالبان کو ہندوستان کے دشمن بنا دے! یہ سوال بھی شاید لوگوں کے ذہنوں میں گردش کررہا ہوگا کہ آیا طالبان ہندوستان کے خلاف جنگ کا آغاز کریں گے؟ یا پھر ہمارے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ شامل ہوں گے؟ اس میں طالبان کا کیا فائدہ ہے؟ یا ان کے لئے اس طرح کی چیزوں میں کیا رکھا ہے؟ آیا وہ ہندوستان کو ایک اسلامی ملک میں تبدیل کرکے خلافت کا حصہ بنائیں گے؟ طالبان کے خلاف ظلمت پسند، قدامت پسند، ظالم و جابر و فرون سطی کی ذہنیت کے حامل، صنف نازک کے دشمنی اور لااعتبار جیسے بے شمار ناروا الفاظ کا استعمال کیا جاسکتا ہے اور وہ اس سے بھی برے ہوسکتے ہیں لیکن ایک بات ضرور ہیکہ وہ بے وقوف یا اپنے ہاتھوں اپنا خاتمہ کرنے والے نہیں ہیں۔ اگر وہ بیوقوف ہوتے تو 20 برسوں کی طویل جنگ میں بچ نہیں پاتے دو دہوں تک امریکہ جیسی سوپر پاور ملک کی فوج سے لڑ نہیں پاتے اور امریکہ کو شکست سے دوچار نہیں کرتے۔ ماضی کے مجاہدین کے برعکس طالبان کو ہتھیاروں کی سربراہی کے معاملہ میں بڑی طاقتوں کی سرپرستی بھی حاصل نہیں اور نہ ہی کسی بڑی طاقت سے انہیں کوئی فائدہ پہنچا۔ طالبان کی صرف پاکستان نے ہی مدد کی ہے اور وہ خفیہ طور پر ان کی مدد کرتا رہا۔
ہمیں اس بات پر بہت تکلیف ہے کہ امریکہ، افغانستان سے تقریباً نکل چکا ہے یا تخلیہ کرچکا ہے۔ اس طرح سے امریکہ نے پاکستان کو ایک مقبول کامیابی دی ہے اور وہ کامیابی یہ ہیکہ پاکستان کو ایک ایسی چیز حاصل ہوئی جس کا وہ ہمیشہ سے متمنی رہا ہے یعنی Strategic Depth پاکستان کو یہ عظیم فتح ایسے ہی حاصل نہیں ہوئی بلکہ اسے کافی نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ حسین حقانی نے فارن افیرس میں ایک بہترین مضمون لکھا ہے جس میں بتایا گیا کہ افغان جنگ میں 20 برسوں کے دوران پاکستان کو کس قدر نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ اس علاقہ کا آپ نقتہ دیکھ سکتے ہیں جس سے آپ کو علاقہ کی زمین کے بارے میں کچھ واقفیت حاصل ہوگی اور یہ بھی جان پائیں گے کہ جی ایچ کیو ہیڈکوارٹر راؤ لینڈی کے بہترین دماغ کیا چاہتے ہیں۔ انہیں جنرل کرشنا سوامی سندرجی کا آپریشن براس اسٹاکس اچھی طرح یاد ہے۔ ایسے میں پاکستانی فوجی قیادت علاقہ میں Strategic depth کے حصول کی خواہاں تھی۔ مذکورہ واقعہ کے 35 سال بعد دنیا بدل چکی ہے۔ اسی طرح فوجی حکمت عملی اور فوجی چالبازیاں بھی بدل گئیں ہیں اب جوہری ہتھیاروں کا دور ہے اس کے باوجود اگر کچھ پاکستانی جنرلس ہنوز یہ سوچتے ہیں کہ وہ ہندوکش سے ہوتے ہوئے افغانستان میں داخل ہوسکتے ہیں اور وہاں اپنی اہم فوجی سہولتیں منتقل کرسکتے ہیں تو اس کا مطلب وہ بے وقوف ہیں۔
وہ اتنے بھی برے نہیں، زائد از 75 برسوں کے دوران دنیا نے پاکستانی فوج کے بارے میں ایک چیز سیکھی ہے وہ حقیقت میں جنگی چالوں کے معاملہ میں بہت ہشیار ہے تاہم فوجی حکمت عملی کے معاملہ میں اتنے ہی خوش فہمی کا شکار اور لاپرواہ ہے اپنے طالبان بھائیوں کے لئے وہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ہمیں پوری غیر جانبداری سے اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ افغانستان میں کس کی جیت اور کس کی ہار ہوئی ہے؟ اگر ہم اس طرح جائزہ لیتے ہیں تو یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ طالبان کو کامیابی ملی جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن پاکستان کو کیا ملا؟ اگر طالبان نے پچھلے بیس برسوں میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی پاکستان سے کہیں زیادہ ہشیار ہیں تو پاکستان اس واہمہ سے یا خوش فہمی میں مبتلا رہا کہ اس نے طالبان اور افغانستان کو دفاعی لحاظ سے اہم مرکز کے طور پر استعمال کیا ان تمام برسوں میں طالبان نے سارا حساب کتاب الٹا کردیا اور ان لوگوں نے پاکستان کو اپنی Strategic depth (فرنٹ لائن اور جنگی علاقوں کے درمیان فاصلہ) کے طور پر استعمال کیا اور اس انداز اور طریقے کو اپناتے ہوئے طالبان نے افغانستان میں امریکہ کو شکست دی حالانکہ امریکی فورس اور ان کے اتحاد تمام عصری آلات حربی سے لیس تھے۔ اس کے باوجود امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکہ کی کامیابیکا دعوی کیا ہے جس میں کوئی سچائی نظر نہیں آتی۔ جہاں تک امریکہ کا سوال ہے ایک نئے افغانستان کی تعمیر امریکہ کا کبھی بھی مقصد نہیں رہا ، سیدھی سادھی انگریزی میں اسے ہم use and throw ’’استعمال کرو اور پھینک دو ‘‘کہہ سکتے ہیں۔ امریکہ نے تخلیہ کرتے ہوئے افغانستان میں ایک خلاء پیدا کیا۔ طالبان کی پیشقدمی جاری ہے اگر ایسے میں لڑائی طوالت اختیار کر جاتی ہے تو جلد سے جلد فائدہ حاصل کرنے سے متعلق پاکستان کی امیدیں ختم ہو جائیں گی۔ بہرحال افغانستان اور طالبان کے معاملہ میں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے چاہئے اور طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے ہوں گے۔ ویسے بھی افغانستان میں طالبان کو خود کئی ایک مسائل کا سامنا ہے۔ ہندوستان میں بھی بی جے پی کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی سیاست سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ ہندوستان کے اطراف جو دنیا ہے وہ بدل چکی ہے۔ مودی حکومت کے لئے ایک اچھی بات ہیکہ اس نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے خوشگوار دوستانہ تعلقات استوار کئے ہوئے ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود بی جے پی کو ایک ایسا فارمولہ تلاش کرنا ہوگا جو ہند و مسلم تفریق سے بالاتر ہو۔