انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی تازہ رپورٹ میں مودی حکومت کے دور میں گئو رکشا کے نام پر مسلم اقلیت کو نشانہ بنائے جانے کو لے کر تبصرہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی حکومت کو مبینہ گئو رکشا کے نام پر اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے گروہوں کو روکنا چاہیے اور ان پر قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔
ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے ’ہندوستان میں پُر تشدد گائے کا تحفظ : گئو رکشکوں کے نشانے پر اقلیت‘ عنوان سے جاری کی گئی 104 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برسر اقتدار بی جے پی کے لوگ فرقہ وارانہ بیان بازی کرتے ہیں اور انہوں نے گوشت کاروباریوں اور مویشی تاجروں کے خلاف پُر تشدد مہم چھیڑی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مئی 2015 سے دسمبر 2018 کے درمیان 44 افراد کا قتل ہوا جن میں سے 36 مسلمان تھے۔ پولس نے اکثر حملہ آوروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جبکہ کئی بی جے پی رہنماؤں نے عوامی طور پر حملوں کو جائز قرار دیا۔
ہیومن رائٹس واچ کی جنوب ایشیائی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا، ’’ہو سکتا ہے کہ گئو رکشا کی مہم ہندو ووٹوں کو راغب کرنے کے لئے شروع ہوئی ہو لیکن یہ ہجوم کے لئے اقلیتوں کے خلاف حملے کرنے اور ان کے قتل کی کھلی چھوٹ میں تبدیل ہو گیا۔ ہندوستانی حکومت کو ان حملوں کو اکسانے یا جائز ٹھہرانے، متاثرین کو مجرم قرار دینے اور اصل قصورواروں کی حفاظت کرنے پر روک لگا دینی چاہیے۔‘‘
سال 2016 میں گئو رکشک گروہ نے ایک مسلم مویشی تاجر اور ایک بارہ سالہ لڑکے کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ یہ لوگ جھارکھنڈ میں ایک مویشی میلے میں جا رہے تھے۔ ان کی بری طرح سے مسخ لاشیں، جن کے ہاتھ پیچھے باندھ دیئے گئے تھے، درخت پر لٹکتی پائی گئیں۔ لڑکے کے والد جھاڑی میں چھپ کر یہ حملہ دیکھتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اگر میں باہر نکلتا تو وہ مجھے بھی مار ڈالتے، میرا بیٹا مدد کے لئے چلا رہا تھا لیکن میں بہت ڈر گیا تھا اور چھپا رہا۔ ‘‘
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ان پالیسیوں اور گئو رشک گروہوں کے حملوں نے ہندوستان کے مویشی کاروبار اور دیہی معیشت کو درہم برہم کر دیا ہے۔ ساتھ ہی کھیتی اور ڈیری شعبہ سے وابستہ چمڑے اور گوشت کی درآمد پر بھی اس کا اثر پڑا ہے۔ یہ حملے اکثر ایسے گروہوں کی طرف سے کیے گئے ہیں جو بی جے پی سے وابستہ انتہا پسند تنظیموں سے جڑے ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ ان کے حملوں کے شکار زیادہ تر مسلم، دلت اور آدیواسی طبقات ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ ان حملوں پر حکومت کی ناکافی کارروائی ہندؤوں سمیت ان طبقات کو نقصان پہنچا رہی ہے جن کی معاشی زندگی مویشی پروری سے وابستہ ہے، ان میں کسان، چرواہے، مویشی ٹرانسپورٹر، گوشت کے کاروباری اور چمڑے کی صنعت کے مزدور شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق تقریباً تمام معاملات میں پولس نے شروع میں جانچ کو روکا، عمل کو نظر انداز کر دیا اور یہاں تک کہ قتل جیسے معاملات پر پردہ ڈالنے میں بھی شامل رہی۔ راجستھان کے ایک سبکدوش سینئر پولس افسر نے کہا، ’’پولس کو گئو رکشکوں کے تئیں ہمدردی رکھنے، کمزور جانچ کرانے اور انہیں کھلی چھوٹ دینے کے لئے سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان گئو رکشکوں کو سیاسی پناہ اور مدد حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘
کئی معاملات میں ہندو قوم پرست گروہوں کے سیاسی رہنماؤں اور بی جے پی نمائندگان نے ان حملوں کا بچاؤ کیا۔ دسمبر میں اتر پردیش میں مشتعل ہجوم نے ایک پولس چوکی کو جلا دیا اور کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔ یہ تشدد گاؤں کے باشندگان کو کچھ جانوروں کی باقیات برآمد ہونے کے بعد بھڑکی، بتایا گیا کہ باقیات گائے کی ہیں۔ ہجوم کا مقابلہ کرنے والے ایک پولس افسر سمیت دو لوگ ہلاک ہو گئے۔ تشدد کی مذمت کرنے کی بجائے وزیر اعلیٰ نے دو لوگوں کے قتل کو حادثہ بتایا اور ایک تنبیہ جاری کر دی۔ ریاست بھر میں نہ صرف گئو کشی بلکہ غیر قانونی طور پر جانوروں کے ذبح پر پابندی عائد ہے۔ ایک سینئر پولس افسر نے کہا کہ تفتیش کار گائیوں کا قتل کرنے والوں پر قانونی کارروائی کرنے کے لئے پُرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گئو کشوں کو سزا دلانا ہماری اولین ترجیح ہے، قتل اور فساد کا معاملہ فی الحال ہماری ترجیح نہیں ہے۔‘‘
کئی معاملات میں پولس نے متاثرین کے اہل خانہ اور معاونین کے خلاف گئو کشی پر روک لگانے والے قوانین کے تحت شکایات درج کی ہیں، اس سے گواہ اور خاندان انصاف کی مانگ کرنے سے ڈر جاتے ہیں۔ کچھ معاملات میں افسران اور ملزمان کی دھمکی کی وجہ سے گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ یہاں تک کہ افسران نے غیر قانونی طور پر گئوکشی کے مشتبہ افراد کے خلاف قومی سلامتی قانون (این ایس اے) کے تحت بھی معاملہ درج کیا۔
ہندوستان بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین پر ہوئے معاہدوں کا اہم حصہ ہے، جو نسل، ذاتیاتی یا مذہب پر مبنی بھید بھاؤ پر روک لگاتے ہیں اور ان کے تحت حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو مساوی قانونی تحفظ فراہم کریں۔ ان کے خلاف تعصب اور تشدد کے ذمہ دار لوگوں پر مکمل غیر جانب دارانہ قانونی کارروائی کرنے کے لئے پابند ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو سپریم کورٹ کی ہدایات کو لاگو کرنا چاہیے۔ میناکشی گنگولی نے کہا، ’’پولس کی طرف سے ہجومی تشدد کے معاملات کی جانچ میں جرائم سے متاثر اقلیتوں پر ہی الزام عائد کیے جانے کا پورا خدشہ رہتا ہے کیونکہ پولس حکومت کے نزدیکی گئورکشکوں پر کارروائی کرنے سے کتراتی ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو اپنے انسانی حقوق کے فرائض کو نظر انداز کرنے کے بجائے ہجومی تشدد میں ہونے والے قتل کے معاملات کے خلاف سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔‘‘