بریڈ شرمن کی سربراہی میں امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں اراکین کانگریس نے ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق خارجہ امور کی قائم مقام نائب سیکرٹری ایلس ویلز سے سخت سوالات کیے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اجلاس میں شریک ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق خارجہ امور کی قائم مقام نائب سیکرٹری ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں انڈیا کے اقدامات کے حوالے سے امریکہ ‘فکرمند’ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال پر انڈیا سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین بریڈ شرمن نے بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔
ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جارہا ہے۔ پانچ اگست سے لاکھوں کشمیری روز مرہ زندگی کی سہولیات سے محروم ہیں، انٹرنیٹ اورٹیلی فون سروس کھولنے کے لیے انڈیا پر دباؤ ڈالتے رہیں گے۔
اجلاس کے حوالے سے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی نیہا مسیح نے ٹویٹ کیا کہ امریکی کانگریس میں ایوان نمائندگان کی جنوبی ایشیا پر ذیلی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیرمین بریڈ شرمن نے امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ایلس ویلز سے سوال پوچھا کہ کیا امریکہ نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے سفارتکار بھیجنے کی کوشش کی ہے؟ جس کے جواب میں ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ امریکہ نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اپنا وفد بھیجنے کی کوشش کی تھی لیکن انڈیا نے اس کی اجازت نہیں دی۔
واضح رہے کہ انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر میں 5 اگست سے لاک ڈاؤن جاری ہے جس کے باعث کشمیر وادی میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ وادی میں بچوں کے دودھ، ادویات اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر وادی میں ٹیلیفون سروس اور انٹرنیٹ بند ہے جبکہ گزشتہ روز عارضی طور پر موبائل فون سروس کچھ علاقوں میں بحال کی گئی تھی۔
امریکی کانگریس کے ارکان نے انڈیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرتے ہوئے وہاں عائد پابندیوں اور قدغنوں میں نرمی کرے۔ ایلس ویلز نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ ’ہم نے انڈین حکام سے اپنے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کرنے، انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک سمیت تمام سہولتوں کی مکمل بحالی پر زور دیا ہے۔‘
نیہا مسیح کی جانب سے کی گئی ایک اور ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ریاست ورجینیا سے منتخب خاتون رکن کانگرس اباگیل سپنبرگر نے ایلس ویلز سے سوال کیا کہ کیا انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ مواصلاتی نظام سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر کیا گیا ہے کیا ہمارے پاس اس کی کوئی مصدقہ مثالیں موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو مرکزی سیاسی رہنماؤں کی نظر بندی سمیت شہریوں کی حراست اور ملکی و غیر ملکی میڈیا کی کوریج میں حائل رکاوٹوں پر تشویش ہے۔
امریکی مسلم خاتون رکن کانگریس الہان عمر نے الزام عائد کیا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی صورتحال انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتہ پارٹی کے اسلام مخالف رحجان کا حصہ ہیں۔
انھوں نے انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں حراستی کیمپوں کی تعمیر کی اطلاعات کی نشاندہی کی جو مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں متنازعہ رجسٹریشن مہم میں تقریباً 20 لاکھ افراد اپنی انڈین شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے جبکہ مودی حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ‘غیر قانونی’ تارکین وطن انڈیا میں نہیں رہ سکتے۔
الہان عمر نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ‘روہنگیا میں قتل عام بھی ایسے ہی شروع ہوا تھا۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم انڈیا سے اس متعلق بات کب کریں گے؟ کیا ہم انتظار کر رہے ہیں کہ آسام کے مسلمانوں کو ان حراستی کیمپوں میں ڈال دیا دیا جائے؟’
امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ایلس ویلز کا جواب میں کہنا تھا کہ امریکہ نے اس بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن واضح رہے کہ آسام کی شہریت کا اندراج عدالتی حکم پر ہوا تھا اور اس ضمن میں اپیلوں کا عمل جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جمہوریت کے حیثیت سے ہم دیگر جمہوری ممالک کی خود مختاری اور خود انتظامی کا احترام کرتے ہیں۔‘
امریکی امور خارجہ کی ذیلی کمیٹی برائے جنوبی ایشیا کے سربراہ بریڈ شرمن کا کہنا تھا کہ ‘انسانی حقوق کی پامالی صرف اس لیے نہیں ہو سکتی کہ یہ انسانی حقوق کی پامالی کسی ملک کے قانون یا عدالت کے فیصلوں کے مطابق کی جا رہی ہے۔