ہندو راشٹر کا جلد اعلان مودی، امیت شاہ کا قطعی مقصد

   

سدھارتھ بھاٹیہ
’’ہندوستان کی دستوری تاریخ کا بدترین دن … جو اس ملک کے ٹکڑے ہونے کا موجب بن سکتا ہے۔‘‘ کانگریس کے پی چدمبرم جو وکیل اور سابق مرکزی وزیر داخلہ ہیں، اُن کے یہ سخت الفاظ ہوسکتا ہے واویلا مچاتے ہوئے کی گئی پیش قیاسی معلوم ہو۔ لیکن آرٹیکل 370 کی تنسیخ جس نے عملاً جموں و کشمیر کے موقف کو تبدیل کردیا ہے، اور ریاست کی تنظیم جدید کے ذریعے اس کی دو مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم ہونے کے بعد دیگر ریاستوں کے موقف پر بھی سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ واقعی، ہندوستان کی ریاستوں کے وفاق کے طور پر بنیادی اساس پر متزلزل معلوم ہوتی ہے۔ یہ اقدام جس انداز میں انجام دیا گیا… سکیورٹی فورسیس کی تعیناتی میں اضافہ، اپوزیشن قائدین بشمول دو سابق چیف منسٹروں کی گرفتاری اور تمام مواصلاتی ذرائع پر پابندی کے ذریعے… اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت تمام تر دستیاب وسائل بشمول بے رحمانہ طاقت کو بروئے کار لانے تیار ہے تاکہ اپنا مقصد حاصل کیا جائے اور یہ کہ عوامی اور سیاسی رائے کی شاید ہی کچھ اہمیت رہے گی۔
اب بی جے پی کیلئے اسٹیج تیار ہے کہ اپنے تمام پسندیدہ پراجکٹوں پر روکنا تو چھوڑئیے، چیلنج کئے جانے کے بھی کسی خوف کے بغیر آگے بڑھا جائے۔ ایودھیا میں رام مندر، یونیفارم سیول کوڈ، دستور کو بدلنا، مسلمانوں کو منظم طور پر حاشیہ پر کردینا اور مزید کئی موضوعات اس کی خواہشوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ آرٹیکل 370 سے چھٹکارہ پانا سنگھ پریوار کا دیرینہ خواب تھا جو آخرکار پورا ہوا ہے۔ کوئی اپوزیشن کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور کوئی تھوڑے سے قانونی یا دستوری اَبہام کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ جہاں تک عوامی رائے، یا راست طور پر متاثر ہونے والی آبادیوں کی فکرمندی کا معاملہ ہے… وہ کون ہوتے ہیں جب قوم نے حکومت کو زبردست مینڈیٹ (خط اعتماد) دے دیا ہے۔ غیرمعمولی ووٹ کے ذریعے دوبارہ اقتدار ملنے کو بی جے پی اور اس کے حامی ہر وقت ایک آڑ کے طور پر استعمال کررہے ہیں تاکہ اپنے ہر فیصلہ کو حق بجانب ٹھہرایا جاسکے، چاہے وہ کتنا ہی قابل اعتراض کیوں نہ ہو۔ لیکن اس حکومت کو بلکہ کسی بھی حکومت کو ضرور چیلنج کرنا اور اس سے سوال پوچھنا چاہئے؛ عوام کے تئیں جوابدہی تو جمہوریت کا بنیادی اُصول ہے جسے بی جے پی یکسر نہیں سمجھ رہی ہے۔ چاہے کسی آر ٹی آئی سوال کا جواب دینا ہو یا پریس کانفرنس منعقد کرنے سے انکار یا پھر جیسا کہ ہم نے وزارت فینانس کے معاملے میں دیکھا کہ میڈیا کو سوالات پوچھنے سے منع کردیا گیا، حکومت کو ایسی کوئی چیز پسند نہیں جو اسے جوابدہ بناسکتی ہے۔
اپنی پہلی میعاد میں مودی حکومت نے کچھ ناتجربہ کاری کا مظاہرہ کیا اور ایسے فیصلے کئے جو تنازعہ کا سبب بنے۔ اس پر کوئی پشیمانی ظاہر نہیں ہوئی اور نہ کوئی وضاحت کی گئی، لیکن یہ تو عیاں ہوگیا کہ دیگر سیاسی پارٹیوں یا مبصرین یا پھر متاثرہ عوام کی طرف سے تنقیدوں کا کچھ اثر نہ ہوا۔
راہول گاندھی کے طنز ’سوٹ بوٹ کی سرکار‘ نے مودی کو اس قدر چوٹ پہنچائی کہ انھوں نے اچانک معاشی پالیسیوں کی روش بدل ڈالی، جبکہ برنس والوں کی مسلسل شکایات پر گڈز اینڈ سرویسیس ٹیکس (GST) میں کئی تبدیلیاں لائی گئیں۔ کوئی معذرت خواہی حتیٰ کہ تاسف کا اظہار بھی نہیں کیا گیا، لیکن واضح ہوگیا کہ عوام کے تاثرات کی اہمیت ہے۔

اب ایسا معاملہ نہیں ہے۔ قوانین بڑی عجلت میں متعارف کرائے جارہے ہیں اور اپوزیشن کو یا تو حلیف بنایا جارہا ہے یا پھر نظرانداز کردیا جارہا ہے۔ بعض معاملوں میں اپوزیشن پارٹیوں بشمول کانگریس نے بی جے پی کی عاجلانہ قانون سازی اور کلیدی بلوں کی منظوری کی حمایت بھی کی۔
اس سے قبل کہ ہمیں خبر ہوتی، پارلیمنٹ نے ایسے قوانین نافذ کردیئے جو مملکت کو ہماری زندگیوں پر عدیم المثال اختیارات دیتے ہیں… کوئی بھی، کسی بھی وقت دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے اور ٹرائل کے بغیر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ قانون حق معلومات (RTI) میں ترمیم کردی گئی، جس نے عملاً اسے بے اثر بنا دیا ہے۔ ناراضگی کی چند آوازیں فیصلہ سازی کے عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا کرنے سے قاصر رہیں۔ کون جانتا ہے یا پرواہ کرتا ہے کہ سابق انفرمیشن کمشنرز نے آر ٹی آئی کو نرم بنانے کے خطرات سے متنبہ کردیا تھا؟ اس سے حکومت کا ذہن تبدیل ہونے والا نہیں۔
حکومت کو پارلیمنٹ میں اطمینان بخش اکثریت حاصل ہے اور اسے کئی دیگر اہم مقاصد کی تکمیل کرنا ہے، لیکن یہ جلدبازی کیوں؟ یقینا معیشت کو فروغ دینا سب سے زیادہ ترجیح ہونا چاہئے، جو موجودہ طور پر کافی خراب ہے۔ نوکریاں بڑھنے کے بجائے غائب ہوتی جارہی ہیں اور کنزیومر کی طلب اپنی اقل ترین شرح پر ہے؛ کیا اس پر حکومت کو فکر نہیں؟

معیشت کی اہمیت ہے، لیکن بی جے پی اور اس کے سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کیلئے اپنا دیرینہ سیاسی ایجنڈہ کلید ہے۔ سنگھ پریوار کا اپنا ویژن ہے اور وہ دہوں سے اس کیلئے بے تکان کام کرتا آیا ہے۔ جب بھی اسے موقع ملا، اس نے اپنا ایجنڈہ تھوڑا سا آگے بڑھادیا تاکہ اپنے مقصد کی آخرکار تکمیل ہوسکے۔ جن سنگھ کی حیثیت سے وہ جئے پرکاش نرائن کی تحریک میں شامل ہوئے، جنتا پارٹی کا حصہ بن گئے، حتیٰ کہ وی پی سنگھ کی مختصر میعادی حکومت کو سہارا بھی دیا… یہ سب شاطرانہ چالیں اقتدار سے قریب تر ہونے کیلئے رہیں۔
ایک مرحلے پر آر ایس ایس پر امتناع عائد کیا گیا تھا، اس کے قائدین ایمرجنسی کے دوران جیل میں تھے اور بی جے پی دو ایم پیز تک محدود تھی، لیکن عزم و استقلال میں کبھی تبدیلی نہیں آئی۔ واجپائی کی حکومت کے دوران غلبہ کا موقف تھا، پھر بھی اس کے کئی مقاصد مخلوط کی وجہ سے پورے نہیں ہوئے۔ اب مودی کی قیادت میں سنگھ پریوار اپنے ’قطعی انعام‘ کے حصول سے قریب ہے … یعنی ہندو راشٹر۔ ہر اقدام اسے اپنے مقصد سے قریب تر لارہا ہے۔ اور یہ کہ ہندو انڈیا کو دستور کا حصہ بناتے ہوئے اسے منتخب حکومت کے ذریعے حق بجانب ٹھہرایا جائے، اس سے کم کوئی بھی چیز غیراطمینان بخش رہے گی۔ اگر موجودہ دستور اجازت نہیں دیتا ہے تو اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے، لیکن اس پر منظوری کی مہر درکار ہے۔ تب آر ایس ایس فخر سے کہہ سکتا ہے کہ یہ عوام کی مرضی ہے۔ پریوار جلد از جلد وہاں تک پہنچنا چاہے گا… اس کیلئے 2022ء میں ہندوستانی آزادی کے 75 سال یا 2025ء میں آر ایس ایس کی صد سال کی تکمیل اچھی تواریخ ہیں جنھیں ملحوظ رکھا جاسکتا ہے، لیکن نریندر مودی اور امیت شاہ زیادہ انتظار کرنا نہیں چاہیں گے۔ یاد رکھیں کہ وہ تیزی سے فیصلہ کرنے والے لیڈر ہیں!
ہندوستان میں کئی گوشے موجودہ حالات اور تبدیلوں پر سہمے ہوئے ہیں جیسا کہ وہ بابری مسجد کے انہدام کے وقت تھے، اور اس میں کوئی شائبہ نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت کے اقدامات کو عوام کی بڑی تعداد کی تائید حاصل ہے جن کے پاس اقتدار ہے، جو مراعات کے حامل ہیں اور اپنی آوازوں کو سنانے کے اہل ہیں۔ یہ تائید و حمایت صرف ٹرولز یا بھکتوں یا گودی میڈیا کی طرف سے نہیں مل رہی ہے، بلکہ اچھے خاصے ’سمجھ دار‘ لوگ بھی خوش ہیں کہ ایسا کیا جارہا ہے اور آخرکار ہندو راشٹر کا اعلان کیا جائے گا۔ سنگھ پریوار تصوراتی دنیا میں واحد نہیں ہے!٭