رام پنیانی
ملک بھر میں فی الوقت وزیر داخلہ امیت شاہ تنقیدوں کی زد میں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوںنے معمار دستور بابا صاحب مبیڈکر کی ایوان میں توہین کی ہے ان کے خلاف توہین آمیز لہجہ اپنایا (یہ اور بات ہے کہ دلت تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں ایسا لگ رہا ہے کہ امیت شاہ کے خلاف تھوڑے بہت بیانات جاری کرکے خاموشی اختیار کرچکے ہیں جبکہ امیت شاہ اور بی جے پی کو بے نقاب کرنے کا وہ ایک بہترین موقع تھا) ایک بات ضرور ہے کہ دائیں بازو ہندو قوم پرستوں کے نظریہ ساز ایک ایسا ماحول بنانے اور بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے ہندوستانیوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ بابا صاحب امبیڈکر اور ساورکر، آر ایس ایس اور خاص طور پر بی جے پی کی سیاست میں کچھ فرق نہیں یہ تمام ایک ہی صفحہ پر ہیں (اس ضمن میں X پر بلیر پنج The resurection of Dr. Ambedkar کے زیر عنوان خیالات کو دیکھا جاسکتا ہے) اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو آر ایس ایس بی جے پی اور ان کی قبیل کی جماعتیں تنظیمیں اور لوگ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے کاموں میں سے اپنی مرضی و منشا کے مطابق چنندہ کاموں کا انتخاب کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ یہاں وہاں سے کچھ حاصل کرکے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی ایک ایسی تصویر تیار کی جائے یا شبیہہ بنائی جائے جو ہندوتوا کے نظریہ سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہو اور دوسروں کو ایسا محسوس ہو کہ معمار دستور نے ہندوتوا کی تعریف و ستائش کرتے رہے۔ اس طرح کے عناصر نے یہ حوالہ دیا کہ سوامی شردھانند چھوت چھات کی مخالفت کرنے والے ایک عظیم اور سنجیدہ چمپئن تھے اور ایسا کسی اور نے نہیں بلکہ بابا صاحب امبیڈکر نے کہا ہے۔ ان لوگوں نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر سے ایک غلط بات منسوب کرتے ہوئے اس بات کو نظرانداز کردیا یہ وہی سوامی شردھانند تھے جو شدھی جیسی رسم میں ملوث رہے۔ آپ کو بتادیں کہ شدھی مسلمانوں کو ہندو بنانے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ شدھی کو لے کر مسلم علماء میں ناراضگی پائی جاتی تھی۔ ہندوتوا نظریہ سازوں کے برعکس اس شدھی کے بارے میں بابا صاحب امبیڈکر نے کچھ اس طرح اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا ’’اگر ہندو معاشرہ اپنی بقاء کی خواہش رکھتا ہے تو اسے اپنے مذہب کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ خود میں یگانگت وہم آہنگی پیدا کرنی ہوگی۔ ان کا مطلب ہندوازم میں ذات پات کا جو نظام اور ذات پات پر مبنی جو امتیاز پایا جاتا ہے اونچ نیچ ادنی اعلیٰ کی جو درجہ بندی یا زمرہ بندی پائی جاتی ہے اس کو ختم کیا جانا چاہئے۔ ذات پات پر مبنی امتیاز اور اس نظام کی منسوخی ہی ہندوئوں کی حقیقی تنظیم ہے طاقت ہے اور جب ذات پات کی بنیاد پر ہندو معاشرہ کی تقسیم کو حتم کیا جاتا ہے تب شدھی (مسلمانوں کو ہندو بنانا) غیر ضروری ہوگا۔ اگرچہ سوامی شردھانند بعد میں انڈین نیشنل کانگریس کا ایک حصہ بن گئے اس کے باوجود وہ ہندو سنگھٹن کا بھی حصہ تھے۔ وہ ہندو مہاسبھا کا حصہ بنے جو کھلے عام ہندوستان کو ہندو ملک بنانے کے لیے پابند عہد ہونے کا اعلان کرتی تھی اور آج بھی اس کا سلسلہ جاری ہے۔
اب ہندوتوا کے نظریہ ساز اس جھوٹ کو سچائی کی شکل میں ڈھال کر بہلارہے ہیں کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور ساورکر ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ساورکر نے پٹیٹ پون مندر شروع کیا جس نے دلتوں کو مندروں میں داخلہ کی اجازت دی لیکن بابا صاحب کے مطابق اس سے ایک الگ تھلگ مندر قائم ہوگی جہاں صرف دلتوں کو داخل ہونے کی اجازت رہے گی (اس کا مطلب یہی ہوا کہ مندروں میں اعلی ذات والوں کے ساتھ دلتوں کا داخلہ ہمیشہ کی طرح ممنوع رہے گا۔ ہاں ان کے لیے علیحدہ منادر ہوں گی جس میں صرف دلت ہی پوجا کرسکیں گے اور اس پوجا میں برہمن اور ہندوئوں کی دوسری اعلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے شامل نہیں ہوں گے)۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 12 اپریل 1929ء کو (Bahiskrit Bharat) کے شمارہ میں جو اداریہ تحریر کیا گیا تھا اس میں صاف طور پر بتایا گیا کہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے پٹیٹ پون مندر کی تعمیر کی شروع سے ہی مخالفت کی۔ ان کا ماننا تھا کہ بعد میں ان مندروں کو اچھوتوں کی منادر کہا جائے گا اگرچہ امبیڈکر کا احساس تھا کہ چھوت چھات کے خاتمہ سے اس طرح کے مندروں کی تقسیم کا کوئی تعلق نہیں انہوں نے ساورکر کی کوششوں کی ستائش کی۔ یہ ایسے چند نکات ہیں جو ہندوتوا کے نظریہ سازوں نے اٹھائے۔ وہ کانگریس کے ساتھ ڈاکٹر امبیڈکر کے تعلق پر بات کرتے ہوئے برہم ہوجاتے ہیں ان میں سے بعض ایک تو یہ بھی کہتے ہیں کہ گاندھی اور پٹیل کی موت کے بعد نہرو نے آمرانہ روش اختیار کرکے اپوزیشن کو یا مخالفین کو بالکلیہ طور پر نظرانداز کردیا جیسا کہ امیت شاہ نے کہا کہ دفعہ 370، خارجہ پالیسی اور درج فہرست طبقات و قبائل کی ابتر حالت کو لے کر امبیڈکر نے نہرو کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کی جانب سے استعفیٰ دینے کا سب سے بڑا نکتہ ہندو کوڈ بل کی مخالفت اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کی وجہ سے ان کی مایوسی تھی۔ آر ایس ایس نے اس کی شدید مخالفت کی۔ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے والنٹیرس بڑی تعداد میں آتے رہے اور پارلیمنٹ کے روبرو احتجاج کرتے رہے۔ یہ احتجاجی مظاہرے اور نہرو حکومت کے اقدامات کی مخالفت اُس وقت عروج پر پہنچ گئی جب 11 ڈسمبر 1949ء کو رام لیلا میدان پر زبردست احتجاج کیا گیا جس میں امبیڈکر اور نہرو کے پتلے نذر آتش کئے گئے۔ ہندوکوڈ بل کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر نے 7 ڈسمبر 1949ء کو اپنے شمارہ میں کچھ یوں لکھا ’’ہم ہندوکوڈ بل کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم اس کی اس لیے مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ یہ ایک اجنبی اور غیر اخلاقی اصولوں پر مبنی توہین آمیز اقدام ہے۔ یہ ہندوکوڈ بل نہیں یہ سب کچھ ہے لیکن ہندو نہیں یعنی یہ ہندو کے سوا سب کچھ ہے۔‘‘ ہندوکوڈ بل پر آر ایس ایس کی جارحانہ مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس بل کو پیش کرنے میں نہ صرف تاخیر کرنی پڑی بلکہ ایک طرح سے اسے کمزور کردیا گیا۔ چوں کہ اس بل کا مسودہ بابا صاحب امبیڈکرنے تیار کیا تھا اور متعارف بھی کروایا تھا۔ اس کی آر ایس ایس نے شدید مخالفت کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کئے۔ نتیجہ میں اسے کمزور کرنا پڑا۔ یہی لمحات بابا صاحب کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھے جس کی بناء پر انہوں نے نہرو کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بابا صاحب امبیڈکر کے استعفیٰ کے لیے آر ایس ایس بھی ذمہ دار تھی۔ آر ایس ایس اور بی آر امبیڈکر کے درمیان اختلافات کا سب سے اہم حصہ منوسمرتی، چتورواریتا کا سوال تھا۔ واضح رہے کہ 25 ڈسمبر 1927 کو بابا صاحب امبیڈکر نے منوسمرتی کو نذر آتش کردیا جس پر آر ایس ایس اور برہمن واد کے حامیوں میں برہمی کی زبردست لہر پیدا ہوگئی۔ جبکہ آر ایس ایس کے دوسرے سر سنچالک ایم ایس گولوالکر منوسمرتی کی تعریف و ستائش کرتے نہیں تھکتے تھے۔ انہوں نے منوسمرتی کی تعریف میں ڈھیر سارے مضامین لکھے۔ ساورکر نے نہ صرف چتورواریتا کی تائید و حمایت اور منوسمرتی کی تعریف و ستائش کی بلکہ یہاں تک لکھا کہ ہماری ہندو قوم کے لیے ویداس کے بعد منوسمرتی وہ کتاب ہے جس کی سب سے زیادہ تعظیم و تکریم کی جاتی ہے۔ اس میں ظاہر کردہ تعلیمات کے مطابق پوجا کی جاتی ہے۔ منوسمرتی ہی وہ کتاب ہے جو زمانہ قدیم سے ہماری تہذیب ہمارے رسم و رواج سوچ و فکر اور نظریات کی بنیاد بن گیا ہے۔ منوسمرتی نے صدیوں سے ہماری قوم کی روحانی اور باطنی ترقی کے منازل طے کرنے کی راہ ہموار کی۔ آج بھی کروڑوں ہندو اپنی زندگیوں میں منوسمرتی میں پیش کردہ تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ ہندو منوسمرتی کی تعلیمات پر عمل کو ہی اپنی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں جبکہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے دلتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کو دیکھتے ہوئے منوسمرتی کو آگ لگادی لیکن آج منوسمرتی ہندو قانون ہے یہ ہندو مذہب کی بنیاد ہے اور بھارت کے نئے دستور میں جو بدترین (چیز) ہے اس میں کچھ بھی بھارتی نہیں ہے۔ اس میں قدیم بھارتی قوانین کا نام و نشان تک نہیں ہے کوئی بھارتیہ نام اور یہاں تک کہ اس میں بھارتی طرز تحریر بھارتی اسلوب نہیں ہے۔ اگر ڈاکٹر امبیڈکر کے اور نظریہ ہندوتوا کے درمیان اختلافات کے مرکزی نقطہ پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان اختلافات کو مکمل طور پر چھپا کر رکھ دیا گیا۔ 1935 ء میں ڈاکٹر امبیڈکر نے ناسک کے قریب Yeola میں ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے ایسی بات کی جس پر ہندوتوا طاقتوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ انہوں نے کچھ یوں کہا تھا ’’ میں ایک ایسے شخص کے طور پر نہیں مروں گا جو خود کو ہندو کہتا ہو‘‘ بابا صاحب امبیڈکر کے مطابق اس مذہب میں آزادی، ہمدردی اور مساوات نہیں ہیں۔ اپنی کتاب Thoughts of Pakistan کے نظرثانی شدہ ایڈیشن میں ڈاکٹر امبیڈکر نے اسلامی ملک پاکستان کے قیام کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی تھی کہ اس سے ہندو راج یا ہندو راشٹر کی راہ ہموار ہوگی اور وہ اس کے عوام کیلیے بہت بڑی آفت ہوگی۔ امبیڈکر جی نے جیسے ہی یہ کہا کہ وہ بحیثیت ہندو مرنا نہیں چاہتے ان پر سکھ ازم یا اسلام قبول کرنے پر کئی حلقوں سے دبائو بڑھنے لگا۔ ہندو مہاسبھا کے ئاکٹر مونجے نے ڈاکٹر امبیڈکر سے ایک معاہدہ کیا کہ اگر وہ اسلام قبول کرنے سے گریز کریں گے تو ہندو مہا سبھا ان کے اقدام کی مخالفت نہیں کرے گی لیکن بابا صاحب کا گہرا مطالعہ ان کے بدھ ازم کے انتخاب کا ذریعہ بنا۔