ہندی مسلمان خبردار… تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

   

محمد عثمان شہید
(ایڈوکیٹ)

ہندوستان کا مسلمان آج بڑے وحشناک، دہشت ناک، خطرناک اور تشویشناک دور سے گذر رہا ہے۔ بی جے پی کی لوک سبھا میں ظالمانہ اکثریت سے جمہوریت کو آمریت میں بدل دیا ہے۔ اب ایسی کوئی سیاسی جماعت یا قائد نہیں جو بی جے پی کے سفلی عزائم کو ناکام بناسکے۔ اکثریت بشمول بعض مسلمانوں کے ،مودی کے گن گارہی ہے۔ امیت شاہ کے گیت گا رہی ہے۔ بی جے پی کے پرچم لہرا رہی ہے۔ بی جے پی کی رکنیت قبول کرنا باعث افتخار سمجھ رہی ہے۔
دنیاوی عہدے حاصل کرنے کیلئے مال و زر جمع کرنے کیلئے سستی شہرت حاصل کرنے، جائیدادیں خرید و فروخت کرکے دولت اکٹھا کرنے، قبرستان و زمینات پر ناجائز قبضہ کرنے اپنے حقیر ذاتی مفادات کی تکمیل کرنے، بی جے پی کو زینہ سمجھ رہی ہے۔ مذہب کی کوئی تخصیص نہیں۔ کل تک سکیولر اقدار کی حفاظت کیلئے جان کی بازی لگانے کے دعویدار آج بھگوا ٹوپی اوڑھے بی جے پی کی جئے جئے کار کررہے ہیں۔
ایسی بے رحمانہ اکثریت حاصل کرکے بی جے پی ہندوستان کو ’’اِسلام مکت‘‘ ، ’’ہندو راشٹرا‘‘ بنانے کا عزم صمیم رکھتی ہے جس طرح انہوں نے یعنی برہمن سماج نے گوتم بدھ کے ماننے والوں کو دیس سے نکالنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اسی طرح وہ محمدﷺ کے نام لیواؤں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے عزم و ارادہ کا اظہار آر ایس ایس کے معماروں نے کبھی بھی خفیہ نہیں رکھا۔ انہوں نے ببانگ دُہل اس کا اظہار کیا اور برملا تحریر کیا کہ آر ایس ایس کے معمار ایم ایس گرو گولوالکر نے اپنی تصنیف “We or Our Nationhood Defined” جو ایک کتابچے کی شکل میں ہے، ہندو راشٹر کے تعلق سے یوں خامہ فرسائی کی ہے۔
’’ہندوستان میں بیرونی نسلوں کو لازمی طور پر ہندو کلچر اور زبان اختیار کرنی چاہئے۔ ہندو دھرم کی تعظیم اور اس کا احترام کرنا سیکھ لینا چاہئے۔ ہندو نسل اور کلچر یعنی ہندو راشٹر کے نظریے کے علاوہ کسی اور پر فخر نہیں کرنا چاہئے۔ اپنی علیحدہ شناخت کو ترک کرکے ہندو نسل میں شامل ہوجانا چاہئے، بصورت دیگر انہیں اس ملک میں پوری طرح ہندو راشٹر کے ماتحت بن کر رہنا چاہئے جس میں وہ کسی قسم کا دعویٰ نہیں کریں گے۔ کسی ترجیحی سلوک تو الگ وہ کسی رعایت کے بھی مستحق نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ وہ ’حقوق شہریت‘ کے بھی حقدار نہ ہوں گے۔ ان کے اختیار کرنے کے لئے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا اور ہونا بھی نہیں چاہئے‘‘۔
گول والکر اس کے بھی داعی ہیں کہ دستور ہند میں ’’منو سمرتی‘‘ فیصلوں کے مطابق ترمیم ہونی چاہئے۔ منوسمرتی کے فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ایک بڑی آبادی (یعنی مسلمان) کو بنیادی حقوق نہیں ملنا چاہئے۔
اس پیام کی متابعت میں اس ارادے کی تکمیل کیلئے آر ایس ایس کے جنم دی ہوئی سیاسی پارٹی ’’بی جے پی‘‘ نے اپے انتخابی منشور میں ’’ہندی، ہندو، ہندوستان‘‘ کا نعرہ لگایا تھا یعنی ’’ایک زبان ، ایک قوم، ایک ملک‘‘ بعدازاں اس نعرے میں زبان کے بجائے قانون یعنی ’’ایک قانون‘‘ کا استعمال کیا گیا۔ ہندو راشٹر کی تکمیل کیلئے یہ نعرہ ضروری تھا اور اس میں بی جے پی کامیاب ہوگئی۔
آیئے! بی جے پی کے نعرے کا تجزیہ کریں۔ ایک زبان یعنی ہندی سارے ملک میں قومی زبان بن چکی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے۔ ہندوستان کی تمام ریاستوں میں ہندی ’راشٹریہ بھاشا‘ کی حیثیت میں مسلط کردی گئی ہے۔ شدھ ہندی، سنسکرت آمیز ہندی جو آسانی سے سمجھ میں نہیں آسکتی، ایک عام ہندوستانی کے سمجھ سے بالاتر ہے، اس زبان کو آسانی سے سمجھنا لکھنا پڑھنا مشکل ہے۔
اُردو کو ’’پاکستانی زبان‘‘ قرار دے کر اس پر ملک کو تقسیم کرنے والی زبان کا الزام رکھ کر صرف بول چال کی زبان کے درجے پر فائز کردیا گیا۔
ایک مذہب یعنی ہندوتوا کو ہندوستانی سماج، ہندوستانی معاشرے اور عدالتوں کی رگ رگ میں داخل کردیا گیا۔ مسلم لا کو تباہ کرنے کیلئے یکے بعد دیگرے ایسے قوانین وضع کئے جارہے ہیں یا ایسی ترمیمات لائی جارہی ہیں جس سے مسلم لا کا پیرہن تار تار ہوچکا ہے۔ یکساں سیول کوڈ کی آڑ میں ہندوتوا کو نافذ کرنے کی سعی مذموم کی جارہی ہے۔
طلاق ثلاثہ قابل سزا جرم، سن بلوغت کی حد میں تبدیلی قانون سرپرستی نابالغ سے اسلامی قانون کا اخراج، اسلامی قوانین کو ملکی قوانین اور ہندوستانی عدالتوں کے فیصلوں کے تابع کردینا، قانون و نفقہ کا ہندوستانی مسلم مطلقہ خواتین پر اطلاق، یہ تمام قوانین شریعت محمدیؐ کے اثرات کو زائل کرنے بے اثر، بے وقعت، غیراہم بنانے اور ہندولا میں ضم کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔
وہ دن دُور نہیں جب ہندوستانی مسلمانوں سے کہہ دیا جائے گا کہ وہ ہندولا اور ہندو کلچر کے تحت ہندوانہ نام رکھ کر اکثریت کے پاؤں اپنی گردن پر رکھ کر ہندوستان میں زندگی گذاریں یا پھر ملک سے ہجرت کرلیں اور یوں مسلمانوں کو کتوں کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا جائے گا۔ مسلمانوں کے بنیادی حقوق بھی سلب کرلئے جائیں گے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا کہ انسانی حقوق یا بنیادی حقوق کے خاتمے کی صورت میں انسان انسان نہیں رہتا، جانور بن جاتا ہے۔
اگر ایسا کوئی بی جے پی اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے ملک کو ہندوراشٹر بنانے کیکلئے قدم اٹھائے تو ہم اس کو روک سکتے ہیں؟ کوئی جماعت ہے؟ کوئی قائد ہے؟ جو آر ایس ایس اور بی جے پی کو ایسا مسلم دشمن منصوبے پر عمل کرنے سے روک سکتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ آج ہم بی جے پی کے عزائم سے خوف زدہ ہیں۔ ان کے بڑھتے قدم کو روکنے ہمارے پاس نہ اتحاد ہے۔ نہ طاقت ،نہ قوت ،نہ ہمت ،نہ دلیری ،نہ بہادری، نہ بے خوفی۔ اگر ہے ہمارے پاس کچھ اثاثہ تو وہ ہے بزدلی ، نکمہ پن، کمزوری ، آپسی انتشار ، مسلکی اختلافات ، کفر کے فتوے ، باہمی قتل کے منصوبے ، پڑوسیوں و رشتہ داروں سے دشمنی، لالچ ، ہوس، موقوفہ جائیدادوں پر قبضے کرنے کے منصوبے، جھوٹ، دغابازی، دھوکہ، اللہ سے دُوری، اسلام سے دُوری، قرآن سے دُوری، ان ہی وجوہات کی بناء پر جب ہم کو ’’حرام زادے‘‘ کہا گیا تو ہم نے ہنس کر یہ گالی برداشت کرلی۔
گوبر منہ میں ٹھونسا گیا تو ہم مہر بہ لب رہے۔ تین طلاق کو جرم قرار دیا گیا تو ہم نے خاموشی کا کفن پہن لیا۔ گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمان قتل کئے گئے تو ہم نے صرف بیان بازی پر اکتفا کیا۔
ہمارے نام نہاد رہبروں نے مسلمانوں کو صحیح راستہ بتایا ہی نہیں، وہ صرف ذاتی دولت میں اضافے کیلئے، دنیاوی لذتوں سے مستفید ہونے کیلئے اپنی جائیدادوں میں اضافہ کرنے کیلئے لیڈر بنتے ہیں۔ انہیں مسلمانوں کی پریشانیوں سے کوئی واسطہ نہیں،نہ ان کی آنکھ ان کی بیچارگی ، مجبوری اور غربت پر آنسو بہاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں مسلمان کیا لائحہ عمل طئے کریں۔ ہجرت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ طلوع آفتاب آزادی کے ساتھ ہم نے یہ قسم کھائی تھی کہ ہم اپنے اَسلاف کی یادگاریں تاج محل، قطب مینار، جامع مسجد دہلی، لال قلعہ، چارمینار، مکہ مسجد، قلعہ گولکنڈہ اور ہزاروں مساجد اپنے شاندار ماضی کی یادگاریں چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔ یہیں پیدا ہوئے ہیں اور یہیں دو گز زمین کو اپنا آخری مسکن بناکر سوجائیں گے۔ اور آج تک ہم اپنی قسم پر قائم ہیں۔ حالات کا مقابلہ ہم صرف قوت ایمانی سے کرسکتے ہیں۔ ہم اپنی قوت ایمانی کو متزلزل ہونے نہ دیں، پیدا ہوئے ہیں تو مرنا یقینی ہے، پھر موت سے کیا ڈرنا، دو دن کی زندگانی ہے موت تو ہر حال آنی ہے۔ چاہے زندگی گیدڑوں کی طرح گزارو یا چوہوں کی طرح یا پھر بھیڑ بکریوں کی طرح یا پھر شیر کی طرح۔ یہ ایمان رہے کہ صرف اللہ ہی ہماری حفاظت کرسکتا ہے، صرف اللہ ہی ہم کو دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اسی لئے ہم ہر نماز میں سورۂ فاتحہ میں پڑھتے ہیں : ایاک نعبدو وایاک نستعینہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہم پھر مکی دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ ابوجہل اور ابولہب پھر ہمارے درپہ ٔ آزار ہے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا زبردست اور غالب ہیں۔ وہ کبھی ہمارے دشمنوں کو ہم پر غالب ہونے نہیں دے گا بشرطیکہ ہم مومن ہوں۔
یاد رکھو مسلمانو! تم مرسیڈیز کار، آڈی کار، کروڑوں کی گاڑیاں جو تم نے زکوۃ دیئے بغیر جمع کی ہیں، وہ آخرت میں تمہارے کسی کام نہ آئیں گی۔ یہ جو لاکھوں روپیوں کی ساڑیاں اور زیور اپنی بیویوں کو اللہ کے احکامات کے خلاف اسراف کرکے ان کو پہنا کر خوش ہورہے ہیں، وہ بھی تمہارے نیک اعمال کی فہرست میں اضافہ کا باعث ثابت نہیں ہوں گے۔ صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت، عبادت، سخاوت، ریاضت ہی کام آئیں گی۔ ہندوستان ،آج تمہارے لئے میدان کربلا بنا ہوا ہے، ہر طرف یزیدی فوج تلواریں لہراتے، نیزے چمکاتے ہوئے تمہارے خاتمے کیلئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایمان حسینی کا مظاہرہ کرو، استقامت حسینی کا مظاہرہ کرو، دہکتی ہوئی آگ بھڑکتی ہوئی آگ سے مت ڈرو، ایمان ابراہیمی ؑ کا مظاہرہ کرو، دنیا سے محبت ترک کردو، یہ دنیا ایک دن تباہ ہونے والی ہے ، ہر شئے فنا ہونے والی ہے، ہر عمارت زمین دوز ہونے والی ہے، ہر صورت خاک میں ملنے والی ہے۔کل من علیھا فان صرف اللہ کی ذات باقی رہنے والی ہے، اُسی سے مدد مانگو، وہی تمہاری حفاظت کرے گا۔٭