’’ہندی‘‘ کے نام پر نیا سیاسی کھیل

   

امجد خاں
آج کل ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے جس میں سیاست داں اور فلم اسٹارس بھی کود پڑے ہیں، جہاں تک فلمی ستاروں کا سوال ہے، ان کے بارے میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ پدم شری جیسے قومی ایوارڈس اور مراعات حاصل کرنے کی خاطر حکومت کی تائید و حمایت کرتے ہیں اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ وہ حکومت کی ناکامیوں کو بھی چاپلوسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیابیوں میں شمار کرنے لگتے ہیں۔ ہم بات کررہے تھے کہ ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ وہ بحث دراصل ہندی سے متعلق وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان پر شروع ہوئی۔ اس بحث میں ہندی، تلگو، کنڑی اور مرہٹی فلموں کے اداکار بھی کود پڑے ہیں۔ کبھی اکشے کمار بیان دے رہے ہیں تو کبھی اجئے دیوگن، ہندی کے حق میں امیت شاہ کے جاری کردہ بیان کی حمایت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امیت شاہ نے ہندی زبان سے متعلق بیان دے کر ملک میں ایک قسم کی بے چینی پیدا کردی جبکہ امیت شاہ بھی خود جانتے ہیں کہ ہندی کو تمام ہندوستانیوں پر مسلط کرنے کا ارادہ کسی بھی طرح سے عملی نہیں ہے۔ سدھارتھ بھاٹیہ کے مطابق اس کے باوجود ہندی کے بارے میں امیت شاہ کے بیان سے پولرائزیشن کا ایجنڈہ تو پورا ہی ہورہا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ امیت شاہ نے یہ بیان دیا تھا کہ ہر جگہ ہندوستانی شہریوں کو انگریزی کی بجائے ہندی میں بات چیت کرنی چاہئے۔ ان کا بیان جاری کرنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اور عام شہری متحرک ہوگئے، خاص طور پر تملناڈو، مغربی بنگال، کرناٹک اور مہاراشٹرا کی مقامی سیاسی جماعتیں برہم ہوگئیں۔ ان جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ مرکزی حکومت تمل، بنگالی، کنڑی اور مراٹھی زبانیں بولنے والوں پر ہندی کو مسلط کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس کے پیچھے بھی اس کا کوئی خفیہ ایجنڈہ نظر آتا ہے حالانکہ ہندوستان ساری دنیا کیلئے کثرت میں وحدت کی ایک مثال ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک متنوع کثیر لسانی ملک اچانک ایک قوم ایک زبان کی سمت کیوں بڑھ رہا ہے؟ آخر اس کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں؟ اپوزیشن جماعتوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہندی ہماری ملک کی قومی زبان نہیں ہے بلکہ اسے زبردستی تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے ملک میں بی جے پی حکومت میں ایسا لگ رہا ہے کہ ہر دن کوئی نہ کوئی مسئلہ اچھال کر عوام کو درپیش حقیقی مسائل سے توجہ ہٹائی جارہی ہے۔ عوام ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے پریشان ہیں، خوردنی تیل کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں غریب اور متوسط ہندوستانی ، خوردنی تیل خریدنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوجائے گا۔ دوسری طرف اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے جس سے عوام کی پریشانیوں میں ناقابل تصور اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بیروزگاری اس قدر برھ گئی ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ فسادات کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کے گھروں کو بلڈوزروں سے منہدم کرکے تعصب و جانبداری کا بدترین مظاہرہ ہورہا ہے۔ جان و مال گنوانے کے باوجود مسلم نوجوانوں کی ہی گرفتاریاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔ دلتوں اور عیسائیوں پر بھی حملے کئے جارہے ہیں۔ ایسے میں ہندی کے بارے میں وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان پر حیرت کا اظہار نہیں کیا جانا چاہئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سال 2017ء میں بھی ایسی ہی کوشش کی گئی تھی۔ عام انتخابات کے دو سال قبل نریندر مودی حکومت ہندی کو آگے لے جانا چاہتی تھی، لیکن اپوزیشن جماعتوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور اس وقت وہ مسئلہ ایک طرح سے دَب کر رہ گیا۔ امیت شاہ کا کہنا تھا کہ ہندی مقامی زبانوں کی جگہ نہیں لے گی بلکہ ہندی کو آگے بڑھانے کا مقصد انگریزی کے استعمال کو کم سے کم کرتا ہے۔ ہندی، انگریزی کا مقام حاصل کرے گی۔ ہندی کے حامی واضح طور پر یہ کہتے ہیں کہ انگریزی میکالے کی اولادوں کی زبان ہے۔ یہ وہی میکالے ہیں جنہوں نے تعلیم پر 1836ء کے بدنام زمانہ مینٹس لکھے تھے جہاں انہوں نے تجویز پیش کی تھی کہ انگریزی میڈیم تعلیم سے پیدا ہونے والے ہندوستانی شہری ایک ایسا طبقہ بنائیں گے جو ہمارے اور لاکھوں کروڑوں لوگوں جن پر ہم حکومت کرتے ہیں، کے درمیان ایک ترجمان کا کام کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا یہ طبقہ جو خون اور رنگ میں ہندوستانی ہوگا لیکن پسند، خیالات اور اخلاقیات اور سمجھداری میں انگریز ہوگا۔ باالفاظ دیگر میکالے کے انگریزی میڈیم ہندوستانی جو ہندوتوا کے معیار کے مطابق خالص نہیں تھے، سنگھ پریوار نے ایک طویل عرصہ سے ایسے ہندوستانیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو امیت شاہ کا بیان ہو یا پھر سنگھ پریوار کے خیالات، انہیں فرسودہ کہا جاسکتا ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ انگریزی ماضی میں بھی مراعات یافتہ اور بااثر لوگوں کی زبان رہی ہے لیکن اب یہ زبان لوگوں کو بااختیار بنانے کی زبان بن چکی ہے۔ سدھارتھ بھاٹیہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ انگریزی کے پھیلاؤ نے اسے ایک جمہوری زبان بنا دیا ہے اور اب یہ صرف اشرافیہ کی زبان نہیں رہی۔ انگریزی ملازمت کی زبان بن گئی ہے جو انگریزی جانتے ہیں، انہیں ملازمتوں کے غیرمعمولی مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ چاہے وہ کال سنٹرس ہو یا درس و تدریس کا پیشہ۔ سافٹ ویر ڈیولپمنٹ کا شعبہ ہو یا صنعتی ملازمتیں انگریزی کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ہندوستان ہو یا پھر کوئی اور ابھرتی معیشت ہر جگہ قابل اور ہنرمند لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے اور آج کے دور میں کسی بھی انسان کو بیک وقت کئی ایک زبانوں پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے، کیونکہ صرف مادری زبان جاننے یا ایک زبان جاننے سے مواقع محدود ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے ملک میں انگریزی میڈیم اسکولس کا سوال ہے، فی الوقت ہندی میڈیم اسکول سے زیادہ انگریزی میڈیم اسکولوں کی زبردست مانگ ہے۔ ہندوستان میں سنگھ پریوار کے قائدین بھی اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم کے ذریعہ تعلیم دلاتے ہیں جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ والدین خود یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے انگریزی سیکھیں ۔ اس کی وجہ بھی ہے ، اور وہ وجہ یہ ہے کہ والدین انگریزی زبان سیکھنے میں بہت سے فائدے دیکھتے ہیں۔