امجد خان
اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ اس بات کو تسلیم کیا کہ اسرائیل، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ اگر سرکاری اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو 7 اکٹوبر 2023ء سے تاحال اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد تقریباً 70 ہزار اور زخمی فلسطینیوں کی تعداد 1.60 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسرائیل نے امریکی تائید و حمایت اور اسلحہ خاص طور پر بموں کے ذریعہ غزہ کو ایک طرح سے قبرستان میں تبدیل کردیا ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں شہید فلسطینی ہنوز ملبے کے ڈھیر میں دبے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ پر 1.5 لاکھ سے زائد ٹن بموں کی بارش کی ہے۔ ہزاروں میزائل برسائے ہیں۔ فلسطینی شہداء میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔ غیرسرکاری اعدادوشمار کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ زائد از دو لاکھ فلسطینی شہید اور چار لاکھ زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بھوک کے نتیجہ میں تین سو سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کو اسرائیل کی یہ درندگی فلسطینیوں پر اس کا ظلم اور اس کے حملوں میں ہر روز کم از کم 100 فلسطینیوں کے شہید ہونے کے دردناک مناظر دکھائی نہیں دیتے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ اندھے، بہرے اور گونگے ہوگئے ہیں اور اسرائیل کے ہر ظلم اس کی جارحیت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ شاید ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ایک طرف امریکہ اسرائیل کی بھرپور مدد کررہا ہے تو دوسری طرف ہندوستان بھی راست یا بالواسطہ طور پر اسرائیل کی مدد کررہا ہے (یہ اور بات ہیکہ حال ہی میں اس نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں فلسطین کے دو ریاستی حل سے متعلق قرارداد کی تائید کی۔ ساتھ ہی قطر پر اسرائیلی حملہ کی بھی مذمت کی لیکن صرف مذمت یا مذمتی بیانات کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے) مثال کے طور پر اب یہ کہا جارہا ہیکہ ہندوستان اسرائیل کی کھل کر تائید و حمایت کررہا ہے اس کے ساتھ تجارتی معاہدہ کررہا ہے حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اسرائیل کے ہاتھ ہی نہیں بلکہ سارا وجود ہی فلسطینیوں کے خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ 8 ستمبر کو پریس بیورو آف انڈیا کی جانب سے ایک تصویر جاری کی جاتی ہے جس میں ہماری وزیرفینانس نرملا سیتارامن کو اسرائیلی وزیرفینانس بیزالیل اسموٹ رچ کے ساتھ ہند۔اسرائیل باہمی سرمایہ کاری معاہدہ پر دستخطیں کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس معاہدہ کی زیادہ تشہیر نہیں کی گئی جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مسلم ارکان پارلیمنٹ نے اس کے خلاف کسی قسم کی جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش تک نہیں کی ہاں عملی اقدامات سے دور اور صرف بیان بازی تک محدود رہنے والے اسدالدین اویسی جیسے لوگوں نے فوری اس کی مذمت میں بیان جاری کرکے بھولی بھالی ملت کو یہ احساس دلایا کہ اسے ٹھوس اور عملی اقدامات نہیں بلکہ مذمتی بیانات ہی کافی ہیں۔ ہم سلام کرتے ہیں ان جہدکاروں ان ممتاز شخصیتوں کو جن کا تعلق حقوق انسانی تقریباً 100 تنظیموں سے ہے جنہوں نے نہ صرف ببانگ دہل ہند۔ اسرائیل باہمی سرمایہ کاری معاہدہ کی شدید مذمت کی بلکہ اس معاہدہ کو غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی جاری نسل کشی میں اسرائیل کے ساتھ اس کے شریک ہونے کی واضح علامت قرار دیا۔ حقوق انسانی کی ان تنظیموں اور مختلف شخصیتوں نے حکومت ہند کو شرم دلاتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ اسرائیل سے طئے پائے معاہدہ کو نہ صرف منسوخ کرے بلکہ اسرائیل کے ساتھ شعبہ دفاع میں تعاون و اشتراک اور اسرائیل سے اسلحہ کی تجارت بھی بند کردے۔ 13 ستمبر کو حقوق انسانی کے گروپوں نے حکومت ہند کو لکھے گئے مکتوب میں یہ بات کہی۔ اس مکتوب پر آل انڈیا یوتھ فیڈریشن، پیوپلز یونین فار سیول لبرٹیز، سنٹر فار فینانشیل اکاونٹی بیلٹی (مرکز برائے مالیاتی احتساب)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم ایل) کے ساتھ ساتھ سماجی و حقوق انسانی کے جہدکاروں، ریسرچ اسکالرس اور ریٹائرڈ پروفیسرس کی دستخطیں ہیں۔ مکتوب میں کہا گیا کہ ایک ایسے وقت جبکہ اسرائیل غزہ کا محاصرہ کئے ہوئے غزہ کو تباہ و برباد کردیا یہ معاہدہ نہ صرف نجی سرمایہ کاری کے بہاؤ کو فروغ دے گا بلکہ اس کا تحفظ بھی کرے گا۔ یہ معاہدہ ایک ایسی حکومت سے ہندوستان کے معاشی تعلقات کو گہرا کرے گا جو برسوں سے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت سے انکار کررہی ہے اور جس نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ انہیں بے گھر کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ظالمانہ طریقہ سے نسل پرستی کا ایک نظام پیدا کیا ہے۔ غزہ ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس کے لوگوں خاص طور پر بچے بھوک کا شکار ہیں۔ انہیں طبی امداد فراہم کرنے سے تک انکار کیا جارہا ہے اور امریکہ فلسطینیوں کے خلاف ان بھیانک جرائم میں اسرائیل کی غیرمشروط، سیاسی اور مالی طور پر یہاں تک کہ فوجی مدد بھی کررہا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان نے پچھلے دو برسوں میں اسرائیل کے ساتھ شعبہ دفاع میں اپنی تجارت بڑھائی ہے اور اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے جبکہ دفاعی اور نگرانی کی ٹکنالوجی برآمد بھی کررہا ہے۔ حد تو یہ ہیکہ ہندوستان نے اسرائیل میں کام کرنے والے فلسطینی مزدوروں کی جگہ اپنی افرادی قوت کو اسرائیل روانہ کیا ہے۔ حکومت ہند کی یہ پالیسی فلسطینی لیبر فورس کو ہٹانے کی ایک کوشش ہے یہ ایک طرح کا اقتصادی قبضہ ہے جو اسرائیل کی فلسطینیوں کے تئیں ظالمانہ روش اور انہیں بے گھر کرنے کے عمل کو مزید مضبوط کرے گا۔ آپ کو بتادیں کہ نومبر 2023ء میں ہندوستان اور اسرائیل نے اسرائیلی تعمیراتی اور نرسنگ شعبوں میں ہندوستانی ورکروں کو عارضی ملازمتیں فراہم کرنے کے ضمن میں ایک فریم ورک اگریمنٹ پر دستخطیں کی۔ جاریہ سال جولائی تک اس معاہدہ کے تحت 6774 ہندوستانی ورکرس اسرائیل گئے۔ یہ بات مرکزی حکومت نے حال ہی میں پارلیمنٹ کو بتائی۔ مکتوب میں وزیراعظم نریندر مودی پر ان کے دوغلے پن کیلئے شدید تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ ہندوستان جان بوجھ کر اس حق خوداردایت اور مساوات کی بجائے جنگ، قبضہ اور نسلی امتیاز کا انتخاب کررہا ہے جبکہ وزیراعظم نریندر مودی عالمی پلیٹ فارمس پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ وقت جنگ کا نہیں اس کے برعکس ان کی حکومت ایک ایسی حکومت کی تائید و حمایت کررہی ہے جو مقبوضہ عوام کے خلاف جنگ کررہی ہے اور Strategic Autonomy کا دعویٰ کرتے ہوئے ہندوستان ان ملکوں سے تعاون کررہا ہے جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔ آج ہندوستانی حکومت جس طرح کی پالیسی اختیار کی ہے وہ فلسطینیوں اور ان کے کاز سے متعلق وہ ہندوستان کی تاریخی وراثت کے خلاف ہے۔ 1980 کے دہے میں ہندوستان نے فلسطین کی بھرپور کی مدد کی۔ ہندوستان ان ملکوں میں شامل ہے جس نے 1988 میں فلسطین کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔