بیجنگ؍ لداخ ۔ لداخ کے علاقے میں چین اور ہندوستان کے درمیان گزشتہ 17 ماہ سے جاری کشیدگی کا سب سے زیادہ منفی اثر وہاں پشمینہ اون کی صنعت پر ہوا ہے۔ یہ دنیا کے سب سے بلند پہاڑی سلسلے ہمالیہ کی قدیم اور مقبول ترین صنعت ہے، جس کی جڑیں تاریخ میں 600 سال گہری ہیں اور اس شعبہ سے علاقہ کی تقریباً دس لاکھ آبادی کے تین چوتھائی افراد منسلک ہیں۔ لداخ کی مشرقی وادی گلوان میں جون 2020 میں دونوں ملکوں کی فورسز کے درمیان جھڑپ میں 20 ہندوستانی اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے، جس کے بعد سے دونوں ملکوں کے فوجی ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے چوکس کھڑے ہیں۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان صورت حال معمول پر لانے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن اس خطے میں کشیدگی کی سطح ابھی تک بہت بلند ہے۔ اس تنازعہ کے نتیجے میں لداخ کی ان سرسبز چراگاہوں کا رابطہ باقی دنیا سے کٹ گیا ہے جہاں لداخ کے خانہ بدوش چانگ تھن گی نسل کی بکریاں پالتے ہیں۔ ان بکریوں سے، جنہیں چانگپا بھی کہا جاتا ہے، پشمینہ اون حاصل کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، لداخ میں پشمینہ فراہم کرنے والی بکریوں کی تعداد ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے اور وہ تقریباً 14 ہزار فٹ کی بلندی پر پائی جاتی ہیں، جہاں موسم انتہائی سرد ہوتا ہے۔ پشمینہ اون، ریشم کی طرح ملائم، نفیس، چمکدار اور انسانی بال سے چھ گنا زیادہ باریک ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ عالمی مارکیٹ میں بہت اچھے دام پاتی ہے۔ زیادہ تر پشمینہ منگولیا سے آتی ہے اور پشمینہ کے ہاتھ سے بنے ہوئے سکارف امریکہ اور یورپ میں بہت مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔ چینی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ کے بعد ہندوستانی فوج چرواہوں کو اپنی بکریاں بلندی پر واقع سرسبز وادیوں میں لے جانے کی اجازت نہیں دے رہی، کیونکہ وہاں فوجیوں کی نقل و حرکت جاری رہتی ہے اور وہ ایک طرح سے جنگی علاقہ ہے۔