ہند ۔ چین معاہدہ حقیقت کیا ہے ؟

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ماوزے ڈنگ کے بارے میں جو قصہ یاکہانی میرے لئے پسندیدہ ہے وہ اُن کا جواب ہے جو اُنھوں نے اُس وقت دیا تھا جب اُن سے پوچھا گیا کہ انقلاب فرانس کا انسانی تاریخ پر کیا اثر مرتب ہوگا ؟ ماؤ نے اس سوال پر کچھ لمحہ سوچا اور پھر یوں کہا : ’’اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ‘‘ ۔ چین انتظار کرتا ہے ، چین صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے ، چین اس بات پر فخر نہیں کرتا کہ وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے یا دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کیلئے تیار ہے ۔اگر آپ چین کی اس خاصیت کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک اُبھرتے ہوئے پاور ہاؤس میں اس طرح کی خوبیاں بالکل نایاب ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین میں جمہوریت نہیں ہے اور اس کے عوام ان آزادیوں سے محظوظ نہیں ہوتی جو جمہوریت کا خاصا ہے اور جسے جمہوریت پسند کرتی ہے۔ اس کے متضاد ہندوستان وسیع پیمانے پر ایک بہت بڑا جمہوری ملک ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ۔ ساتھ ہی یہاں بڑے شور شرابے اور جھگڑے بھی ہوتے رہتے ہیں ۔ جس طرح ماؤ نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا اسی طرح ہندوستان بھی قبل از وقت جشن مناتا ہے۔ مثال کے طورپر ذیل میں پیرس اولمپکس 2024 ء میں میڈلس کا ٹیبل دیکھ لیں۔
40 گولڈ ، 44 سلور اور 42 برائنز میڈلس کے ساتھ امریکہ پہلے نمبر پر ہے ۔ دوسرے نمبر پر چین ہے جس نے 34 گولڈ ، 27 سلور اور 24 برائنز میڈلس حاصل کئے ۔ آئیے اب ہندوستان کی بات کرتے ہیں ۔ پیرس اولمپکس میں اس کے حاصل کردہ میڈلس کی تعداد دیکھتے ہیں ویسے بھی پیرس اولمپکس میں اتھلیٹس کا سب سے بڑا جتھا ہندوستان کا ہی تھا لیکن میڈلس کے لحاظ سے ہمارے ملک کو 71 واں مقام حاصل ہوا ۔ ہمارے کسی اتھلیٹ کو گولڈ میڈل حاصل نہ ہوسکا جبکہ ایک سلور اور 5 برائنز میڈلس حاصل ہوئے ۔ اگرچہ ہمارے جملہ میڈلس کی تعداد 6 رہی لیکن ہندوستان میں امریکہ یا چین سے کہیں زیادہ خوشیاں منائی گئیں ، جشن منایا گیا ۔
جب چند دن قبل ہندوستان اور چین نے لائن آف ایکچول کنٹرول پر گشت یا پٹرولنگ سے متعلق معاہدہ کیا اور اس کا اعلان کیا ، اس وقت تضاد نظر آیا ۔ آپ کو بتادیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مئی 2020 ء میں خونی تصادم کے واقعات پیش آئے تھے ۔ تصادم کے ان واقعات کے بعد یہ پہلی بڑی کامیابی تھی ۔ ہندوستان کی جانب سے معتمد خارجہ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا ۔ وزیر خارجہ نے ایک خصوصی انٹرویو دیا اور ہمارے فوجی سربراہ نے ایک ایونٹ سے خطاب بھی کیا ۔ اپنے انٹرویو میں وزیر خارجہ نے کہاکہ ہم وہاں واپس چلے گئے جہاں 2020 ء میں صورتحال تھی ، تاہم ہمارے فوجی سربراہ کا کہنا تھا ’’ہم اپریل 2020 ء کے جوں کا توں والی حالت میں واپس جانے کے خواہاں ہیں اس کے بعد ہم ڈس اگریمنٹ، تناؤ میں کمی اور لائن آف ایکچول کنٹرول کے نارمل مینجمنٹ کو دیکھیں گے ‘‘۔
ہم کہاں کھڑے ہیں : گزشتہ اتوار تک کی پوزیشن کو یاد کرنا مفید ہوگا ۔ پی ایل اے فورسس نے مارچ ۔ اپریل میں ہندوستانی علاقہ میں لائن آف ایکچول کنٹرول کو عبور کیا یعنی دراندازی اور ہندوستان کو اس دراندازی کا پتہ 5 مئی 2020 ء کو چلا چنانچہ دراندازوں کو ہندوستانی علاقوں سے ہٹانے ( مار بھگانے ) کی کوشش میں ہندوستان کو اپنے 20 بہادر سپاہیوں سے محروم ہونا پڑا۔ چین کے بھی کئی سپاہی موت کے گھاٹ اُترگئے لیکن ان کی حقیقی تعداد کا پتہ نہ چل سکا ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ وزیراعظم نے 19 جون 2020 ء کو ایک کل جماعتی اجلاس طلب کیا تھا جس میں اپنے اختتامی کلمات میں وزیراعظم نے پرزور انداز میں کہا تھا کہ کوئی بھی بیرونی سپاہی ؍ فرد نے ہندوستانی علاقہ میں دراندازی نہیں کی اور نہ ہی ہندوستان میں کوئی باہر کا سپاہی ہے ۔ لیکن وزیراعظم کے اس بیان کے برعکس کئی ایک اعلیٰ فوجی عہدیداروں اور ماہرین کے مطابق ہندوستان کا اب تقریباً 1000 مربع کلومیٹر علاقہ پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہا جہاں اس سے پہلے ہمارے سپاہی گشت کرتے تھے ۔ حقائق کا اگر جائزہ لیں تو اس تلخ حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ چین ساری وادی گلوان کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور اس پر اپنا دعویٰ کرتا ہے وہ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ ایل اے سی خنگر فور سے گذرتی ہے نہ کہ فنگر 6 سے جبکہ چین نے ہاٹ اسپرنگ پر کچھ بھی تسلیم نہیں کیا ۔
ہندوستان چاہتا تھا کہ ڈیم چاکی اور دیپ سانگ پر بات کرے لیکن چین نے بات کرنے سے انکار کردیا ۔ آپ کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ چین اکسائی چین اور ہندوستان سے وہ جو 3488 کلومیٹر سرحد شیئر کرتا ہے اس کے ساتھ فوجی بنیادی سہولتوں کی تعمیر عمل میں لارہا ہے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس نے LAC تک 5G نٹ ورک نصب کیاہے ۔ چین نے سگانگ T50 پر ایک پل کی تعمیر بھی کی اور اس نے سرحد پر فوجی ہارڈویر اور ہزاروں فورسیس کو لایا ہے ، وہاں تعینات کیا ہے۔ ہماری مرکزی وزارت اُمور خارجہ نے بھی سرکاری موقف کا اعلان کیا ہے اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہم نے پہلی جیسی صورتحال بحال کرلی ہے اور آپ کو بتادوں کہ حکومت نے بار بار سپاہیوں کی واپسی اُن کی تعداد میں کمی اور فورسس کو پیچھے ہٹالینے جیسے الفاظ استعمال کیا اس طرح حکومت De-induction اور Withdrawal جیسے الفاظ کا بھی حالیہ مہینوں میں مسلسل استعمال کیا تاہم مرکزی وزارت اُمور خارجہ نے پہلی جیسی صورتحال کی بحالی جیسے الفاظ استعمال نہیں کئے ۔ حکومت نے یقینا قابل تعریف صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ۔ اگر حقیقت میں دونوں ملکوں کے درمیان کوئی معاہدہ طئے پایا ہے یا مفاہمت طئے پائی ہے ۔ چین نے لفظ معاہدہ یا مفاہمت استعمال کرنے کی بجائے ’’اہم پیشرفت ‘‘ جیسے الفاظ کو ترجیح دی ۔ جہاں تک گشت یا پٹرولنگ کا مسئلہ ہے چین کے غیرمتوقع رویہ کے باوجود حکومت جس طرح ڈٹ کر کھڑی ہوئی وہ بھی قابل ستائش ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملکوں نے پٹرولنگ مینجمنٹس پر اتفاق کیا ہے لیکن اب اور نہیں والا معاملہ دکھائی دیتا ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ دونوں طرف سے ماہ میں دو مرتبہ پٹرولنگ ہوگی اور وہ بھی مربوط گشت ہوگی اور پٹرولنگ کرنے والے سپاہیوں کی تعداد 15 تک محدود ہوگی ۔ آیا یہ جو انتظامات کئے گئے ہیں ان میں DEMCHOK اور DEPSANG کے میدان بھی شامل ہیں یا انہیںیہ واضح نہیں ہوا ۔ مشرقی لداخ میں DEMCHOK پر 2017 ء میں ایک معاہدہ کے بعد چین نے علاقہ پر دوبارہ قبضہ کیا اور وہاں اپنی موجودگی کو اس نے مضبوط کرلیا ہے۔ DEPSANGمیدانوں میں چین نے وائی ۔ جنکشن کے آگے اور روایتی پٹرولنگ پوائنٹس 10 ، 11 ، 11A ، 12 اور 13 کے آگے ہندوستانی سپاہیوں کی رسائی کو روک دیا ۔ اسی طرح گلان ، پنگانگ T50 کے شمالی و جنوبی طاس اور ہاٹ اسپرنگس پر دوسرے فکشن پوائنٹس بھی ہیں۔ حکومت اگرچہ یہ دعویٰ کررہی ہے کہ ان مسائل کو حل کرلیا گیا ہے ، اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد کی لہر پائی جاتی ہے ۔ ہماری جمہوریت کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہندوستان اور چین کے درمیان تصادم کے جو واقعات پیش آئے ہیں ان پر پارلیمنٹ میں بحث کی اجازت نہیں دی گئی ۔ یہاں تککہ پچھلے 4 برسوں کے دوران پارلیمنٹ میں اس بارے میں ایک مرتبہ بھی بحث کی اجازت نہیں دی گئی ۔ پٹرولنگ معاملت پر مقامی ماہرین نے چوکس رہنے کا مشورہ دیا ہے ۔ کانگریس نے ان مسائل پر مسلسل سوالات اُٹھائے اور دوسری اپوزیشن جماعتیں خاموش رہیں ایسے میں کیا جاریہ ماہ پیدا اتفاق رائے ہندوستان اور چین کیلئے بات چیت کے ذریعہ ایک جامع حل کا باعث بنے گا ؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب قبل از وقت ہوگا ۔