محمد مبشر الدین خرم
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسے کائنات کی تمام تخلیقات میں سب سے اعلیٰ قرار دیا ہے جس کی بنیادی وجہ انسان میں پائی جانے والی خصوصیت ’’حس‘‘ ہے لیکن موجودہ دور کی بے حسی نے انسان کو ایسی انسانیت سوز حرکات کا پیکر بنادیا ہے کہ ہر ذی شعور انسانیت کے شرمسار ہونے پر کف افسوس ملتا نظر آرہا ہے ۔ انسانیت کے فروغ کیلئے انسان میں محبت کا فروغ ہی اسے حقیقی معنوں میں انسان بناتا ہے لیکن موجودہ دور میں انسانیت کو شرمسار کرنے والی صورتحال کی سب سے اہم وجہ ’’بے حسی ‘‘ ہے اور اس بے حسی کو نظر انداز یا نفسا نفسی بھی قرار دینا غلط نہ ہوگا کیونکہ انسانوں میں جہاں انسانیت کا فقدان پایا جا رہاہے وہیں وہ اپنے بقاء اور اپنی ترقی کیلئے انسانیت کے قتل کا مرتکب بھی بننے لگا ہے ۔ عالم اسلام کی موجودہ صورتحال اور مغربی ممالک کے حالات کے ساتھ اگر ہندوپاک کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو انسانیت مغربی ممالک میں باقی ہے اور ان ممالک میں جہاں انسانیت سے دنیا کو انسانیت کا درس دیا گیا مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ جزائرۃ العرب جہاں نبی اکرمﷺ کی بعثت سے قبل انسانیت سوز حرکات اور جہالت کے ایسے واقعات ملتے ہیں اس مقام پراللہ رب العزت نے اپنے محبوب ؐ کو امت میں اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا تاکہ دنیا کی جاہل ترین قوم کو محسن انسانیت ؐ کے ذریعہ انسانیت کا درس دیا جائے اور امن و آشتی‘ جرأت و انصاف‘ مساوات و اخلاقیات کا پاسدار و امین بنایا جائے ۔اللہ کے رسولﷺ کی تعلیمات اور صحابہؓ کے عمل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ منشائے الٰہی مکمل ہوگیا لیکن افسوس امت نے ان تعلیمات کو فراموش کردیا۔دنیا میں جب کبھی جمہوری ممالک کا تذکرہ کیا جاتا تو دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت کے طور پر امریکہ اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طو ر پر ہندستان کا تذکرہ ہوتا ہے لیکن جب کبھی کسی عرب ملک میں اسلامی جمہوریت قائم ہونے کو پہنچی تو اس کو کچل دیا گیا جس کی ماضیٔ قریب میں مثال مصر ہے جہاں اخوان المسلمون کی جمہوری انداز میں منتخبہ حکومت
کا تختہ الٹ دیا گیاجو کہ عرب اور مغرب دونوں کے مفاد میں رہا۔
امریکہ میں 46سالہ سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی 25 مئی کو ہوئی موت نے نہ صرف امریکہ کی تمام ریاستوں کو میدان جنگ میں تبدیل کردیا بلکہ امریکہ کی بیشتر تمام ریاستوں میں احتجاج کو قابو میں کرنے کیلئے کرفیو نافذ کرنا پڑا بلکہ واشنگٹن میں ہونے والے پر تشدد احتجاج نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے افراد خاندان کو وائٹ ہاؤز کے بنکر میں چھپا دیا گیا تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سیاہ فام کے پولیس کی جانب سے کئے جانے والے قتل پر دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت میں سیاہ فام باشندوں اور انسانیت دوست امریکی شہریوں نے نسل پرستی کے خلاف ایسا مظاہرہ کیا کہ اس کے اثرات دنیا کے دیگر ممالک میں بھی نظر آئے اور مذکورہ پولیس عہدیدار کے خلاف کاروائی کے علاوہ امریکہ میں فروغ حاصل کرنے والی نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کئے جانے لگے۔ 20ڈالر کی جعلی نوٹ کے الزام میں جارج فلائیڈ کو گرفتار کرنے کی کوشش کے دوران ہونے والی موت کے خلاف ہوئے اس احتجاج سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قدیم ترین تصور کی جانے والی جمہوریت میں نسل پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور انسانیت اب بھی زندہ ہے ۔ نسل پرستی کے خلاف کئے جانے والے اس احتجاج کے دوران امریکہ کی کئی ریاستوں میں نہ صرف دکانوں کو لوٹا گیا بلکہ آتشزنی اور توڑ پھوڑ کے واقعات بھی منظر عام پر آئے اور کئی ریاستو ںمیں پر تشدد احتجاج کے الزامات میں 90ہزار سے زائد احتجاجیوں کو گرفتار کیا گیااور یہ احتجاج یوروپ اور دیگر مغربی ممالک میں بھی پھیلنے لگا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندستان میں سال 2014سے 2019 کے درمیان گاؤکشی کے نام پر 40 سے زائد مسلم نوجوانوں کو قتل کیا گیااور سینکڑوں زخمی ہوئے لیکن ماحول پر امن اور پرسکون رہا بلکہ ہجومی تشدد میں ملوث افراد کی رہائی کے بعد ارباب اقتدار کی جانب سے ان کی گلپوشی بھی کی گئی ۔ ہجومی تشدد کے دوران ہلاک ہونے والو ںمیں اخلاق‘رکبر خان ‘ مرتضیٰ انصاری‘نعیم احمد شاہ ‘عثمان انصاری ‘ علیم الدین کے علاوہ کئی شامل ہیں لیکن ان کے لئے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کوئی احتجاج ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی نظر میں آئے بلکہ ہندستان میں ہجومی تشدد کے واقعات کے خلاف عوامی احتجاج نہیں کیا گیا لیکن دانشوروں ‘ صحافیوں ‘ فلمسازوں کے علاوہ سرکردہ شخصیتوں نے اپنے انداز میں ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بچانے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا لیکن ملک میں فرقہ واریت اس حد تک سرائیت کرگئی ہے کہ کورونا جیسی وباء اور اب تو ہاتھی کی ہلاکت کیلئے بھی مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا جانے لگا ہے۔ ہندستان سے فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے لازمی ہے کہ ہندستانی شہریوں کو وہ پیام انسانیت دوبارہ دیا جائے جو حجاز کی سرزمین سے دیا گیاتھا اور ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت میں سربکف ہونے کی تعلیم دی گئی تھی لیکن اس سرزمین پر جہاں سے ٹھنڈی ہواؤں کو امن کے پیامبر نے محسوس کیا ہے وہ سرزمین انسانی اقدار سے محروم ہوتی جا رہی ہے اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہے۔
امریکہ میں ہوئے احتجاج کے دوران احتجاجیوں کی جانب سے احتجاج کے دوران ایک پلے کارڈ نے نہ صرف عرب دنیا بلکہ مسلم دنیامیں ہلچل پیدا کردی حالانکہ بعد ازاں سوشل میڈیا پر گشت کرنے والا یہ پلے کارڈ فرضی ثابت ہوا لیکن پلے کارڈ حقیقت کو آشکار کرنے والا ضرور تھا۔ پلے کارڈ پر درج تحریر جو تھی اس میں لکھا گیا تھا کہ STOP KILLING US جبکہ اس سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے WE NOT ARABS TO KILL US AND KEEP SILENTلکھا گیا مطلب کہ ہم عرب نہیں ہیں جو ہمارے قتل پر م خاموش رہیں گے۔ چھیڑچھاڑ کے ساتھ ہی سہی لیکن بات تو درست ہے بعد ازاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بھی احتجاجیوں نے یہ بات دہرائی ہے جو کہ عالم عرب اور مسلم دنیا کے لئے باعث شرم ہے کیونکہ عراق‘ شام‘ لیبیاء‘ یمن‘ افغانستان‘ مصر‘ فلسطین تیونس کے علاوہ کئی نام ہیں جہاں خون مسلم کو پانی کی طرح بہایا گیا لیکن امت کا درس دینے والوں کی زبانیں گنگ رہی اور امریکہ میں ایک سیاہ فام باشندے کی سفید فام پولیس عہدیدار کی حراست میں ہلاکت نے جو ہنگامہ برپا کیا ہے اس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو ظالم کے خلاف جدوجہد ہر شخص کی ذمہ داری ہوجاتی ہے اور جو اس ذمہ داری سے فرار اختیار کرتا ہے دراصل وہی انسانیت کے قتل کا مرتکب ہوتا ہے ۔اسی لئے بقائے انسانیت کے لئے حق کے ساتھ کھڑا ہونے کے علاوہ ظالم کے خلاف لب کشائی کی بھی جرأت پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ‘ اگر ملک کے موجودہ حالات میں ظلم اور نفرت پھیلانے کی کوششوں کو نظر انداز کیاجاتا رہا توہندستانی مسلمانوں اور دلتوں کو امریکی سیاہ فام باشندے بنا دیا جائے گا جن کے نمائندے ایوان میں ہونے کے باوجود بلکہ 2معیاد تک ماضیٔ قریب میں سیاہ فام کے منصب صدارت پرفائز رہنے کے بھی کوئی مثبت اثرات نہیں ہوئے بلکہ وہ اب بھی مظلوم ہی ہیں۔
@infomubashir