تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
حکومت کے منتشر خیالات اور منصوبوں کو یکسوئی کا راستہ دکھایا جانے کے لیے ایک منظم کوشش کی ضرورت ہوتی ہے ۔ آر ٹی سی بس کرایوں میں اضافہ کے لیے حکومت نے 52 روز کے ڈرامہ کا سہارا لیا ۔ آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال ختم کرانے کے لیے بھی ایک بہانہ تلاش کیا گیا ۔ اس ہڑتال سے آر ٹی سی اور ملازمین کا کوئی خاص نقصان تو نہیں ہوا لیکن ہڑتال سے مسافرین کی جیب ہلکی کردی گئی ۔ ہڑتال کے دوران متبادل سواریوں کے لیے عوام نے من مانی کرایہ ادا کیا تو ہڑتال ختم ہونے کے بعد حکومت نے آر ٹی سی کرایوں میں اضافہ کردیا ہے ۔ حکومت کی چالاکی کہی جائے یا نا اہلی اس کا ذکر ہر جانب اس کثرت سے ہورہا ہے کہ حکومت کی نا اہلی ایک طرح کی اہلیت نظر آنے لگی ہے ۔ آر ٹی سی کرایوں میں اضافہ پر تنقید کرنے والی اپوزیشن پارٹیوں پر الٹا نشانہ لگاتے ہوئے ٹی آر ایس قائدین نے کرایوں میں اضافہ کو حق بجانب قرار دیا ۔ عوامی ٹرانسپورٹیشن کو آسان ، کم خرچ والا سفر بنانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ کئی بڑے شہروں میں بسوں کو عوامی ٹرانسپورٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ میٹرو ریل سرویس کے برعکس بسوں کا سفر آسان اور کم خرچ کا ہوتا ہے ۔ بس سرویس اور بس روٹس عوام کے ہر گوشے تک پہونچتی ہے اور اسے مسافرین کے لیے ایک بہترین سرویس بنایا جاسکتا ہے ۔ اگر حکومت عوام کی ٹرانسپورٹ ضروریات کو بہتر طریقہ سے پورا کرے تو آمدنی میں اضافہ کے ساتھ مسافروں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے ۔ حکومت کے پاس وسائل ہوتے ہیں ۔ شہروں میں عوامی ٹرانسپورٹ کو موثر بنانے کے لیے اس کے پاس کئی ذرائع ہیں لیکن نا اہلی اور لاپرواہی کے ساتھ کوئی قدم اٹھایا جائے تو اس میں خسارہ ہی ہوگا ۔ حیدرآباد میں بسوں کا اقل ترین کرایہ ملک کے دیگر شہروں چینائی ، بنگلور سے زیادہ ہے ۔ مختصر فاصلے سے اپنا سفر اور بس روٹ تبدیل کرنے والے مسافرین کے لیے یہ سفر مزید مہنگا ہوگا ۔ اس مسئلہ پر حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان ایک وقت مقررہ تک نوک جھونک چلے گی اس کے بعد عام شہریوں کو کوئی راحت نہیں ملے گی ۔ ریاست میں حکمرانی کے ذریعہ پیدا ہونے والے حالات اس قدر ابتر ہوں گے یہ کسی نے سوچا نہ تھا ۔ ہر روز صبح اٹھنے کے بعد شہریوں کو سیاست دانوں کی تکرار ، حکومت کی خرابیاں ، عصمت ریزی کے واقعات ، قتل و خون کی خبریں ، سرکاری گھپلوں میں اضافہ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد دل ڈوب سا جاتا ہوگا ۔ پیاز کی قیمت میں اس قدر اضافہ کے باوجود یہ حکومتیں اقتدار پر مزے کررہی ہیں ۔ ایک دور تھا جب پیاز کی قیمت پر واجپائی حکومت کو گرادیا گیا تھا ۔ ہر شئے پر ٹیکس سرچارج مہنگائی تو عوام خاموشی سے برداشت کرتے آرہے ہیں ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنے اور ریاست کے مسائل لے کر حال ہی میں دہلی کا دورہ کیا تھا یہ دورہ تو شادی کی تقریب میں شرکت کا بہانہ تھا ۔ اگر میڈیا میں یہ بات چلائی گئی کہ چیف منسٹر کا دورہ دہلی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات اور مختلف امور پر بات چیت ہوگی لیکن وزیراعظم نے کے سی آر کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دیا ۔ کے سی آر بغیر ملاقات کے حیدرآباد واپس ہوگئے ۔
ان پر تنقید کرنے والوں نے صاف کہا کہ چیف منسٹر کو ریاست کے حالات کی فکر سے زیادہ شادیوں میں شرکت کرنے میں دلچسپی ہے ۔ چیف منسٹر نے وٹرنری ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل کیس پر بھی دھیان نہیں دیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات بھی نہیں کی تو عوام نے اس کا بھی کوئی نوٹ نہیں لیا ۔ یہاں کس نے کب سیکھا ، جو یہ سیکھیں گے کہ حکومت کو مجبور کس طرح کیا جاتا ہے یا مہنگائی پر اسے گرایا جاتا ہے ۔ عوام نے سبق سیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔ پھر وہی ہوگا جو سیاستداں چاہے گا ۔ عوام جب تک نیم خوابی کے عالم میں رہیں گے ہر شئے کے دام من مانی طور پر وصول کئے جائیں گے ۔ وقت بہت تیزی سے گذر رہا ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت کی دوسری میعاد شروع ہوئے ایک سال ہورہا ہے ۔ حکومت کے پاس ماضی کی حکومتوں کی ناکامیوں کی داستان سنانے یا آندھرائی تسلط کی خرابیوں کا رونا رونے کا موقع ختم ہوتا جارہا ہے ۔ گذشتہ 6 سال سے ٹی آر ایس کی ہی حکومت ہے لیکن اس نے بھی کرپشن کے تمام ریکارڈ قائم کرنے کا عہد کیا ہے ۔ گذشتہ 6 سال کی کارکردگی میں ایک بھی ایسا خاص کارنامہ نہیں جس کا سہرا حکومت کو پہنایا جاسکے ۔ کوئی ایسا پراجکٹ نہیں جس پر فخر کیا جاسکے ۔ شہر حیدرآباد کو ترقی دینے کے وعدے پورا ہونا تو کجا اس کی اصل حالت کی خرابی کو دور کرنے کی بھی حکومت نے کوشش نہیں کی ۔ میڈیا میں اب تک صرف تشہیری نوعیت کی خبریں دی گئی ہیں ۔ شہری اور دیہی ترقی پر پالیسیاں بنانے کا وعدہ کرنے والے چیف منسٹر نے اپنی حکومت کی کارکردگی میں شفافیت کو ملحوظ نہیں رکھا ہے ۔ صرف شراب خانوں کے قیام میں فراخدلانہ پالیسیاں بنائی ہیں ۔ ریاست بھر میں جہاں 2216 شراب خانوں کے لیے 45000 درخواستیں وصول کی گئی تھیں ۔ اس سے تلنگانہ محکمہ آبکاری کو 900 کروڑ روپئے کی آمدنی ہوئی وہیں تعلیمی اداروں کے قیام کے معاملہ میں حکومت پیچھے ہے ۔ نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق تلنگانہ حکومت نے تمام کالجس کو خود مختارانہ موقف دینے سے قبل ان کی افادیت اور اہمیت کی جانچ ہونی چاہئے ۔ حکومت کو تعلیمی پالیسیوں کے بارے میں فراخدلی ہونا چاہئے لیکن جو حکومت آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال سے نمٹنے میں قلابازیاں کھا کر وہیں آکر گرجائے جہاں آر ٹی سی ملازمین کے مطالبات کی کیل ٹھوکی گئی تھی تو پھر اس حکومت کی تدابیر کو مضحکہ خیز سمجھا جاسکتا ہے ۔ کے سی آر نے آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کے دوران ان کے مطالبات کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا تھا ۔ ان کی توہین کی تھی بلکہ انہیں از خود برطرف بھی قرار دیا تھا ۔ ایک موقع پر آر ٹی سی کو اب قصہ پارینہ بھی کہہ دیا تھا ۔ احتجاجی آر ٹی سی ملازمین سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کردیا تھا لیکن اچانک انہوں نے ملازمین پر تحائف کی بارش کردی ۔ ان سے ملاقات کرتے ہوئے کئی ایک سہولتوں کا اعلان کیا ۔ کے سی آر نے اس ہڑتال کے بعد ڈیوٹی پر رجوع ہونے والے ملازمین پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت میں یونین کا کوئی رول نہیں ہوگا ۔ یونینوں کی سیاست کو ناکام بناکر کے سی آر نے ملازمین کو یہ پیام دیا کہ ان کے راج میں ناراضگیوں یا بغاوت کی کوئی ہمت نہیں کرسکتا ۔ اپنی حکومت میں ہڑتالوں کو نا پسند کرنے والے کے سی آر یہ بھول گئے ہیں کہ تلنگانہ تحریک کے دوران کئی احتجاجی مظاہروں کے بعد ہی وہ تلنگانہ تحریک کے روح رواں بن گئے تھے اور اس لہر نے انہیں تلنگانہ کا عوامی چہرہ بنایا تھا وہ چیف منسٹر بننے سے قبل یعنی نئے تلنگانہ میں پہلے انتخابات سے قبل کے سی آر نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک دلت لیڈر کو چیف منسٹر بنائیں گے لیکن کامیابی کے بعد وہ اپنے وعدے سے منحرف ہوگئے ۔ البتہ دلت کو ڈپٹی چیف منسٹر بنایا اور اپنے وعدوں کو فراموش کرنے کی عادت بنالی ۔ ان کی فاش غلطیوں کے باوجود عوام کو کوئی حیرانی نہیں ہورہی ہے ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ میڈیا اور اپوزیشن بھی خاموش ہے ۔۔
