محمد مصطفی علی سروری
سال 2016-17ء تک بھی محمد سراج کے بارے میں کرکٹ کے شائقین بھی زیادہ نہیں جانتے تھے۔ اس برس رانجی ٹرافی کے میاچس میں حیدرآباد کی ٹیم نے کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کی اور جملہ 9 میاچس کے دوران محمد سراج نے (41) وکٹیں حاصل کرتے ہوئے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیابی حاصل کی۔
محمد سراج کے متعلق تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے اس نوجوان نے کرکٹ کے متعلق سنجیدہ کوشش دیگر نوجوانوں کے مقابل کافی تاخیر سے کی اور سال 2015 میں اپنا اصل ہنر دکھانا شروع کیا۔ دائیں ہاتھ کے اس تیز گیند باز کو 2017ء کے آئی پی ایل میں حیدرآباد سن رائزرس کی ٹیم نے دو کروڑ ساٹھ لاکھ کی قیمت میں خریدا۔ اس ٹورنمنٹ میں محمد سراج کو صرف 6 میاچس کھیلنے کا موقع ملا جس کے دوران اس نے 10 وکٹیں حاصل کیں۔
قارئین اس ہفتے حیدرآبادی کرکٹر محمد سراج کی آسٹریلیا سے واپسی کے بعد بہت سارے لوگ اس نوجوان کرکٹر کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ تصاویر شیئر کر رہے ہیں جو لوگ محمد سراج کے گھر تک پہنچ رہے ہیں ان میں میڈیا والے تو سر فہرست ہیں، جن کی جان پہچان ہے اور جن کی کوئی جان پہچان نہیں وہ بھی اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے محمد سراج کے ساتھ ملاقات اور اس سے زیادہ تصویر کشی اور سیلفی لینے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔
محمد سراج کے متعلق یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ سال 2017-18ء کے دوران یہ نوجوان رانجی ٹرافی میں صرف ایک میاچ ہی کھیل سکا تھا۔ 13؍ مارچ 1994ء کو پیدا ہونے والے محمد سراج نے اگرچہ 4؍ نومبر 2017 کو نیوزی لینڈ کے خلاف پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا لیکن اس کرکٹر کو ٹسٹ کرکٹ کھیلنے کے لیے 3 برس انتظار کرنا پڑا اور 26؍ دسمبر 2020 کو محمد سراج نے اپنا پہلا ٹسٹ کرکٹ میاچ کھیلا اور 7؍ جنوری 2021ء کو کھیلے گئے سیریز کے آخری ٹسٹ میاچ میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زبردست عوامی توجہ حاصل کرلی۔
آیئے قارئین اب میں کالم کے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کی جانب سے ون ڈے کرکٹ میاچس کے لیے (دورہ آسٹریلیا کے لیے) 17 رکنی ٹیم کا اعلان کیا گیا تھا۔ کسی بھی میاچ کے لیے (11) سے زیادہ کھلاڑی نہیں کھیل سکتے تھے۔ جبکہ ٹسٹ کرکٹ میاچس کے لیے جن اٹھارہ کھلاڑیوں کا اعلان کیا گیا تھا اس میں بھی محمد سراج کا نام سب سے آخر میں شامل تھا۔ وہ تو حالات کو منظور تھا اور قدرت مہربان تھی کہ محمد سراج کو لمحہ آخر میں فائنل کھلاڑیوں میں شامل کرلیا گیا اور پھر اللہ کے فضل سے سراج کو کامیابی بھی ملی۔ لیکن اصل نکتہ جو یہاں پر بیان کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ پورے ملک کی کرکٹ ٹیم میں صرف گیارہ کھلاڑیوں کی گنجائش رہتی ہے اور اگر ہم آئی پی ایل کی بات بھی کرلیں تو اس کی جملہ 8 ٹیمیں ہیں۔ ان سبھی ٹیموں کے کھلاڑیوں کی تعداد بھی شامل کرلیں تو 100 سے زائد کھلاڑی نہیں ہوتے ہیں۔ اور ان میں سے بھی ہر ٹیم کو (4) غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اب ہم جملہ کھلاڑیوں کی تعداد کو دیکھیں تو وہ 100 سے زائد نہیں۔ دوسری طرف سو دو سو نہیں بلکہ کروڑوں ہندوستانی ایسے ہیں جو ہندوستان کی قومی ٹیم کے لیے کرکٹ کھیلنے کی خواہش میں اپنی جوانی کی دہلیز کو پار کر کے ادھیڑ عمر کو پہنچ گئے ہیں۔ اتنے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ تعداد ایسے کم عمر نوجوان ہندوستانیوں کی ہے جو صرف کرکٹ کھیلنے، کرکٹ سیکھنے اور کرکٹ دیکھنے میں اپنے تعلیمی مستقبل کو بھی دائو پر لگا رہے ہیں۔
ہندوستان میں جس طرح سے حالات کروٹ لے رہے ہیں اور جو تبدیلیاں، چیالنجس کی شکل میں ابھر کر سامنے آرہی ہیں وہ اس بات کی متقاضی ہیں کہ مسلمان کرکٹ کو اپنی ترجیحات کی فہرست میں از سر نو مرتب کریں۔ کیونکہ مواقع کم اور خواہشمند امیدواروں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ مسلمانوں کے ہاں وسائل کم ہیں۔ تعلیم کے میدان میں ہم پیچھے ہیں ۔ ملازمت کے میدان میں پسماندہ ہیں۔ معاشی اور سماجی طور پر بھی ایس سی ، ایس ٹی سے خراب ہماری صورتحال ہے۔ ایسے میں کیا یہ صحیح ہے کہ ہم کرکٹ کو اپنی ترجیحات کی فہرست میں شامل رکھیں؟ قارئین اس سے پہلے یہ سوال غور کریں کہ کیا اس طرح کے موضوعات پر بحث ہونی چاہیے کہ نہیں ۔
میرا یہ ماننا ہے کہ ٹھیک ہے محمد اظہر الدین کے بعد شہر حیدرآباد سے سامنے آنے والا محمد سراج وہ نوجوان ہے جو ماشا اللہ سے اب فکر معاش سے آزاد ہوگیا ہے اور یہی مالی وسائل کی فراہمی تھی کہ محمد سراج کے والد نے آٹو چلانا بند کردیا تھا اور اپنی صحت کا خیال رکھ رہے تھے لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے ادھر والد کا انتقال ہوگیا اور ادھر بیٹے کو ملک سے دور دعائو ں پر اکتفاء کرنا پڑا۔ خیر سے آج کے دور کے ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت روٹی روزی کی فراہمی ہے۔ لاکھوں، کروڑوں لوگوں نے انڈین کرکٹ ٹیم میں کھیلنے کے خواب سجائے تھے۔ محمد سراج اس لحاظ سے خوش قسمت رہا کہ اس کو ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں جگہ ملی۔ لیکن محمد سراج کی کامیابی کو پیمانہ بناکر ہم سینکڑوں، ہزاروں مسلم نوجوانوں کے مستقبل کو غیر محفوظ نہیں بنا سکتے ہیں۔
کھیل کود کا میدان کس قدر وسیع ہے ذرا سونچئے گا۔ کرونا کی وباء کے سبب ٹوکیو اولمپکس ملتوی کردیئے گئے۔ ورنہ سال 2020ء میں جاپان میں اولمپک کھیل منعقد ہونے والے تھے۔ ان کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں کرکٹ شامل نہیں ہے اور اولمپک کے دوران (35) مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں۔ سال 2016ء اولمپکس میں کھیلوں کے ان مقابلوں میں جملہ (307) گولڈ میڈل تقسیم کیے گئے۔ ہندوستان کی قومی سطح پر جن کھلاڑیوں نے بھی ایک گولڈ یا دوسرا کو ئی میڈل اولمپک میں جیتا اس کو سرکاری ملازمت سے لے کر کئی ایک تحائف، زمین کا پلاٹ، گاڑی جیسے تحائف دیئے گئے۔
قارئین ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ثانیہ مرزا کرکٹ نہیں کھیلتی ہیں لیکن ٹینس کی اس کھلاڑی کی آمدنی کتنی ہے اس کے متعلق
Caknowledge.com
ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ ثانیہ مرزا کی دولت 175 کروڑ بتلائی جاتی ہے۔ وہ سالانہ ٹینس کے کھیل سے 3 کروڑ کمالیتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف برانڈس کے اشتہارات کی آمدنی الگ سے ہے۔ قارئین اگر مسلمان کھیل کود کے ذریعہ آمدنی حاصل کرتے ہیں تو بڑی خوش آئند بات ہوگی لیکن کرکٹ کے کھیل سے کتنے مسلمان اپنا کیریئر بنا سکتے ہیں اور صرف کرکٹ کے شوق میں کتنے مسلمان اپنا کیریئر تباہ کر رہے ہیں غور کیجئے گا۔میری کوم کرکٹ نہیں کھیلتی ہیں۔ باکسنگ کی اس خاتون کھلاڑی نے سال 2012ء میں اولمپک میڈل جیتا تھا۔ اس کے بعد اس کے کیریئر کے گراف میں زبردست بہتری آئی۔ اتنا ہی نہیں میری کوم کو مختلف ریاستی حکومتوں کی جانب سے انعامات کی صورت میں ہی 1.55 کروڑ روپئے نقد ملے۔ راجیہ سبھا کے رکن کی حیثیت سے اس کو ماہانہ ایک لاکھ روپئے تنخواہ ملتی ہے۔
caknowledge.com
ویب سائٹ کے مطابق میری کوم کی دولت کروڑوں میں بتلائی جاتی ہے۔
قارئین فٹ بال کے حوالے سے عالمی سطح پر اگرچہ ہندوستان نے کوئی خاص مقام حاصل نہیں کیا۔ اس کے باوجود سکم سے تعلق رکھنے والے بھائی چنگ بھوٹیا کا نام سب جانتے ہیں۔ سال 2018ء میں اس ہندوستانی فٹبالر کی مالیت اور دولت کروڑوں سے تجاوز کر گئی تھی۔ اس فٹ بالر کو حکومت ہند نے پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔
ان سب مثالوں کا مقصد یہ بات واضح کرنی تھی کہ کرکٹ نے جتنے ہندوستانی مسلمانوں کا کیریئر بنایا ہے اس سے ہزار گنا زیادہ نوجوانوں کو تعلیم سے دور کر کے نقصان پہنچایا ہے۔کھیل کود اچھی بات ہے۔ اگر وہ ذریعہ روزگار بھی بن جائے تو اور بھی دلچسپ ہوگا۔ وہ نوجوان جو کھیل کو تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور کرکٹ بھی تفریح کے لیے دیکھنا پسند کرتے ہیں تو ان کی تفریح ان کی دیگر مصروفیات کو متاثر نہیں کرتی تو ٹھیک اور وہ نوجوان اور سرپرست جو اپنا اور اپنے بچوں کا کیریئر کرکٹ میں بنانا چاہتے ہیں وہ اس مضمون کو اول تا آخر تھوڑا سا ٹھنڈے دماغ سے پڑھ لیں۔ کھیل کود میں کیریئر بنانا ہے تو یہ سمجھ لیں کھیل کود صرف کرکٹ تک محدود نہیں ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو اپنی ترجیحات طئے کرنے میں آسانی پیدا فرمائے اور ہماری نوجوان نسل کو زندگی کے ہر شعبہ حیات میں ترقی کرنے کے مواقع پیدا فرمائے۔ آمین۔ یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]