’’ہے زندہ فقط وحدت ِ افکار سے ملت‘‘

   

Ferty9 Clinic

محمد نصیرالدین
’’مسلمان‘‘ جس اُمت کو کہتے ہیں، ان کے نظریہ اور عقیدہ کی بنیاد ’’کتاب و سنت‘‘ ہے، وہ خیال ، فکر ، طریقہ عمل ، پسند ، خواہش، مرضیجو قرآن و سنت کے خلاف ہو، اس سے دستبردار ہوجانا اور اسے مسترد کردینا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے۔ اسی طرح ہر فکر و خیال اور عمل جو قرآن و سنت کو مطلوب ہو، اسے اختیار کرنا بھی ہر مسلمان کے لئے لازم ہے۔ قرآن و سنت میں عقائد، اصول اور بنیادی امور واضح طور پر بتادیئے گئے ہیں۔ حرام و حلال اور جائزہ و ناجائز کو کھول کھول کر رکھ دیا گیا ہے۔ ان اُمور میں قرآن و سنت سے کوئی شخص بھی انحراف نہیں کرسکتا اور اگر کوئی اس طرح کی ناعاقبت اندیشانہ جرأت کی کوشش کرے تو اس کا ایمان ضائع ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے، البتہ اسلام نے بنیادی احکام و ہدایات پر عمل و نفاذ کے معاملے میں حالات زمانہ کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ذی علم و فقیہ حضرات کو اجازت دی کہ وہ جزویات کی تشریح و تعبیر کریں۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ کے ائمہ میں بعض اُمور و مسائل میں کچھ اختلاف دیکھا گیا تاہم اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ائمہ کا اختلاف بھی قرآن و سنت کی عین تشریح و تعبیر کے مطابق ہے اور مسلمان کسی بھی امام کی پیروی کرسکتے ہیں اور اختلافات کے باوجود تمام رائیںبرحق اور صحیح ہیں، البتہ کسی کو دوسروں کی رائے کو غلط یا غیراہم کہنے کا حق یا اختیار نہیں ہے اور نہ ہی اس عمل کی اجازت دی گئی ہے، اگر کوئی اس طرح کا طرز عمل یا رویہ اختیار کرتے ہیں تو وہ نہ صرف انتہائی ناپسندیدہ ہے بلکہ غضب الٰہی کے مستحق بننے کا علانیہ اعلان بھی ہے!یہی وجہ ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ’’عہد صحابہ کرامؓ ، تابعین و تبع تابعین اور فقہا و محدثین کے درمیان بھی چند امور و معاملات میں اختلاف رائے پایا گیا لیکن وہ اختلاف رائے نفرت عداوت یا شر و فساد کا کبھی باعث نہ بنا، اسلاف نے اختلاف رائے کے باوجود آپس میں الفت و محبت اور بنیان مرصوص کی کیفیت کو برقرار رکھا۔ اسلاف کی سیرت و عمل کے برخلاف فی زمانہ ملت اسلامیہ اور اس کے کرتا دھرتا افراد علماء، قائدین، دانشوروں اور ذمہ دروں کے رویہ کا جائزہ لیں تو حیرت و افسوس ہوتا ہے کہ حاملین قرآن مبین اور وابستگان نبی محسنؐ شریعت اسلامی اور دین حنیف و نیز اصلاح امت و امت کی تعمیر و ترقی کے نام پر ملت اسلامیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور عداوت و نفرت کے بیج بونے میں مصروف کار ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ ہر بستی میں، ہر مسجد میں، ہر شہر میں حتی کہ ادارہ و انجمن میں ہر جماعت و تنظیم میں انتشار و افتراق عروج پر ہے حتی کہ دینی تعلیم کے نامور مراکز و ادارے بھی ٹوٹ پھوٹ، جوڑ توڑ اور گروہ بندیوں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ آئے دن اس طرح کی خبریں صاف ظاہر کرتی ہیں کہ اللہ کی رضا اور فلاح آخرت کی چاہت اور تڑپ سے زیادہ خودنمائی، خودپسندی، خود سری اور ریا کاری نے ذہن و دماغ کو مسخ کردیا ہے اور ضد، ہٹ دھرمی، انانیت، ذاتی مفاد، اقرباء پروری اور اپنی شخصیت کے بت نے اچھے خاصے لوگوں کو بھی یرغمال بنا دیا ہے۔ لگتا ہے کہ مسلمانوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات کو عملاً پس پشت ڈال دیا ہے اور آپس میں ایک دوسرے کو کمتر اور نیچا دکھانے اور خود کو اعلیٰ اور افضل ثابت کرنے میں تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ دنیا اور متاع دنیا کی چمک دمک نے ان کے قلب و نظر پر اس حد تک قبضہ کرلیا ہے کہ آخرت کی جوابدہی اور اللہ کی عدالت میں پیشی کو وہ فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اپنے خاندان کے اور جماعتی مفادات اتنے عزیز تر ہوگئے ہیں کہ اس سے بالاتر ہوکر سوچنا یا غور کرنا ان کیلئے ناممکن بن چکا ہے۔ ان سے اختلاف کرنے والوں کو وہ کسی بھی صورت میں برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سارا مسلم معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ہر طرف فرقہ اور گروپ بندی کا دو رورہ ہے۔ ہر طرف منفی خیالات و جذبات کا سیل رواں موجزن ہے اور اتحاد و اتفاق کا دور دور تک پتہ نہیں ہے، کہیں فقہی اور مسلکی اختلافات کو لوگ تھامے ہوئے ہیں، کہیں جزوی اور فروعی اختلافات کو متاع حیات سمجھ بیٹھے ہیں، کہیں سماجی اور سیاسی اُمور و معاملات کے اختلافات نے عداوت و دشمنی پیدا کردی ہے۔
یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ ملت اسلامیہ کے نمائندہ ادارے ’’مسلم مجلس مشاورت‘‘ اور ’’مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ بھی اختلاف و انتشار سے بچ نہیں سکے۔ ایک طرف برسراقتدار گروہ مسلمانوں اور ان کی شریعت کو ختم کرنے کی سازشوں اور اقدامات میں لگا ہوا ہے تو دوسری طرف ملت کی نامور ہستیاں قسم قسم کی بولیاں بولنے میں لگی ہیں۔ اپنے عمل اور رویہ سے حکمراں جماعت کو فائدہ پہنچا کر وہ فخر محسوس کررہی ہیں۔ آخر یہ کردار کا تضاد ہے یا منافقت کہ اخلاص للہیت اور اجتماعت کا درس دینے والے دھڑلے سے باطل کی سُر میں سُر ملاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ دوسری طرف وہ قائدین جو اپنی تقریروں میں اتحاد و اتفاق کی دُہائی دیتے نہیں، تھکتے ، وہ حکمراں جماعت کی کامیابی کیلئے شہر شہر چکر لگا رہے ہیں! ’’بابری مسجد‘‘ قضیہ پر ملت اسلامیہ نے پھر سے ثابت کردیا ہے کہ اتحاد و اتفاق محض ایک ’’سراب‘‘ بن چکا ہے۔ ملت کے نمائندہ ادارے ’’مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کی دوبارہ اپیل کرنے کے فیصلے پر مختلف اداروں یا شخصیتوں کی قسم قسم کی رایوں نے اس حقیقت کو پھر سے آشکار کردیا کہ ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ آخر کیا بات ہے کہ مسجد کی بازیابی یا حصول انصاف کی کوششوں سے چند لوگوں کو اتفاق نہیں ہے اور وہ اپنے اس ناعاقبت اندیش رویہ سے مسلمانوں کی آواز کو کمزور کرنے کے عظیم گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔
’’مہاراشٹرا‘‘ میں صدر راج کی برخاستگی اور تشکیل حکومت کا جو ڈرامہ رچا گیا، وہ مسلم عمائدین و قائدین کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ حق و انصاف، اصول و ضوابط، دستور اور اس کی پاسداری حکمراں گروہ کے نزدیک بے معنی ہوچکے ہیں۔ ان کیلئے ان کی پالیسی، ان کا مفاد، اور ان کی پارٹی کا مفاد دیگر تمام چیزوں سے زیادہ قیمتی اور اہم ہے، ایسے موقع پر جب NRC، یکساں سیول کوڈ اور تبدیلی مذہب پر پابندی کی باتیں ہورہی ہیں۔ ملت اسلامیہ کا غیردانش مندانہ اور غیرحکیمانہ طرز عمل اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مماثل ہے۔ برسراقتدار گروہ کو کنٹرول کرنے اور دستور کے چوکھٹے میں کام کرنے کا پابند بنانے کیلئے ملت اسلامیہ کو اپنے انتشار و افتراق تج دینا انتہائی ضروری ہے، ورنہ بہت جلد اس ملک میں آزادی کیساتھ سانس لینا بھی دشوار ہوجائے گا‘‘۔ قرآن مجید نے واضح انداز میں اس بات سے منع کیا تھا لیکن افسوس کہ ملت نے اس ہدایت سے انحراف کیا جس کی وجہ سے وہ بے حیثیت بن گئی اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی‘‘۔ (انفال:4 )
ملک کے تیزی سے بدلتے حالات اور مسلمانوں کی بے بضاعتی لمحہ فکر یہ ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ملک کے انصاف پسند اور سکیولر افراد اس صورتحال کو بدلنے میں معاون بن سکتے ہیں لہٰذا ان کو ساتھ لے کر کوششیں کی جانی چاہئے۔ دراصل یہ ایک خام خیالی ہے کیونکہ ملت اسلامیہ ایک عقیدہ اور ایمان کی حامل اُمت ہے۔ جان و مال کی حفاظت یا تعلیم و روزگار کی فراہمی، کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے جو وہ ملک کے تمام شہریوں کو فراہم کرنے کی پابند ہے لیکن ’’عقیدہ و ایمان مسلمانوں کے لئے ان سے زیادہ اہم ہیں۔ مسلمانوں کے لئے جان و مال تعلیم و روزگار بے معنی اور ہیچ ہیں۔ اگر ان کے عقیدہ و ایمان پر آنچ آجائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت اسلامیہ میں اٹوٹ اتحاد کی ہر سطح پر کوشش کی جائے اور مسلمانوں کی آواز کو ’’ایک آواز‘‘ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں ملت کے ان دانشوروں، بیورو کریٹس اور اہل نظر حضرات کو آگے آنے کی ضرورت ہے جو ملک اور ملت کی موجودہ صورتحال پر بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں اور ملت اسلامیہ کو حق و انصاف دلانے کی خواہش اور جذبہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اس بات پر بھی سنجیدگی سے بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جس سطح سے بھی ہو، جہاں سے بھی اور جس کی طرف سے بھی ہو، اختلاف و انتشار کی تمام دانستہ و نادانستہ کاوشوں پر بندھ باندھا جائے اور ملت میں بھائی چارہ اور اُخوت کا ماحول پروان چڑھایا جائے۔ اس سلسلے میں مساجد کی اجتماعات اور خطبات جمعہ سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہئے۔ جہاں یہ بات خوش آئند ہے کہ مساجد میں جمعہ کے غیرمعمولی اجتماعات ہوتے ہیں، وہیں یہ حقیقت افسوسناک ہے کہ ان اجتماعات سے خاطر خواہ استفادہ کرنے سے اُمت قاصر ہے، اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ان اجتماعات میں ملت کی اصلاح، تربیت اور شعور بیداری کے سلسلے میں خطباء خطاب کریں اور انتشار و اختلاف کو ہوا نہ دیں بلکہ ملت کو متحد و متفق رکھنے کی کوشش کریں اور دیگر مسالک اور مختلف فقہی فکر والوں کے خلاف اظہار خیال، الزام تراشی اور نکتہ چینی سے پرہیز کریں۔ تیسری طرف اس بات کی ضرورت ہے کہ مساجد کو مسلمانوں کی اصلاح، تربیت، تعمیر و ترقی کے مراکز میں تبدیل کیا جائے۔ مساجد میں جہاں اصلاح نفس کی کوششیں ہوں، وہیں نوخیز نسل کی تربیت اور قرآن و حدیث سے آگاہی اور دینی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کا کام بھی کیا جائے، اسی طرح مسلمانوں کے مسائل خواہ گھریلو ہوں کہ ازدواجی یا معاشی و معاشرتی یا سماجی دن تمام حل کی کوشش کی جائے و نیز خواتین و طالبات کے علیحدہ اصلاحی و تعلیمی پروگراموں کا انعقاد کیا جائے۔ علاوہ ازیں محلہ کے غریب مستحق اور ضرورت مند خاندانوں کی امداد و تعاون کا بھی مساجد سے نظم کیا جائے۔ وقت و حالات کا تقاضہ ہے کہ غیرمسلم حضرات و پڑوسیوں کو بھی مساجد کے مشاہدہ اور عبادات و اسلامی تعلیمات سے واقف ہونے کا انتظام کیا جائے، اس سلسلے میں یہ کوشش کی جا سکتی ہے کہ مساجد کے کسی ایک گوشہ میں لائبریری قائم کی جائے اور مختلف زبانوں میں وہاں دینی لٹریچر فراہم کیا جائے اور باشندگان ملک کو دین کے تعارف کا نظم کیا جائے۔ چوتھی طرف اس بات کی ضرورت ہے کہ دینی مدارس کے نصاب اور وہاں کے طریقہ تربیت میں اختلاف انتشار کے منفی عنصر کو خارج کیا جائے اور اس بات پر زور دیا جائے کہ ہر مسلک اور عقیدہ کا احترام کیا جائے اور دیگر نظریات کے حامل افراد کے خلاف بیان بازی تنقید اور تنقیص سے بہرصورت پرہیز کیا جائے۔ اگر دینی مدارس کے علماء اور وہاں کے فارغین اس بات کا عہد کرلیں کہ وہ تمام نقاط نظر اور مسلک والوں کا احترام کریں گے تو یہ بات ممکن ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی خوشگوار فضاء دوبارہ لوٹ آئے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ملت میں اتحاد و اتفاق اور تعاون محض تحریر و تقریر کے ذریعہ ہرگز پیدا نہیں ہوسکتا۔ اتحاد و اتفاق اخلاص ، اہمیت اور خوف خدا کا مرہون منت ہوتا ہے جہاں یہ صفات نہ ہوں، وہاں اتحادی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اتحاد و اتفاق کیلئے ضروری ہے کہ نفسانیت، انانیت، خودپسندی، خودنمائی، ضد، ہٹ دھرمی جیسی قبیح صفات کو ترک کیا جائے اور ذاتی، خاندانی یا جماعتی و ادارتی مفادات کو تج دیا جائے۔ ملت اسلامیہ کے علماء، قائدین، عمائدین، دانشور، اہل علم اور مختلف جماعتوں، تنظیموں، اداروں اور انجمنوں کے ذمہ داروں کو کھلے دل سے خود کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی کوششوں، سرگرمیوں اور دوڑ دھوپ کا مرکزی نکتہ کیا ہے اور یہ کہ اتحاد و ملت کے لئے ان کے جذبات و عمل کیا ہیں اور انتشار و افتراق کے لئے وہ کتنے معاون بن رہے ہیں؟ دین کی عمارت کے قیام کیلئے ان کی جدوجہد کتنی ہے اور ’’جسد واحد‘‘ کو ڈھانے کے لئے وہ کتنے سرگرم ہیں؟ کیا ان کے اعمال و ان کے تیل و قال کی گواہی دیتے ہیں؟ بہرحال انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا کی چمک دمک، عیش و عشرت اور عہدے و منصب عارضی ہیں، اگر انہوں نے ان سب کیلئے قرآن و سنت سے انحراف کیا اور امت واحدہ کو انتشار و افتراق میں مبتلا کیاتو و نیاتو گذر جائے گی لیکن آخرت میں وہ ذلت و خواری کی وادیوں میں ڈھکیل دیئے جائیں گے۔ دانش مند اور عقل مند وہی ہیں جو دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو ترجیح دیتے ہیں:
ہے زندہ فقط وحدت ِ افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد