یوروپ اسلامو فوبیا کا شکار کیوں ہے؟

   

Ferty9 Clinic

مولانا سید احمد ومیض ندوی
اس وقت یوروپ اور مغرب پر سب سے زیادہ جس چیز کا جنون سوار ہے وہ ’’اسلامو فوبیا‘‘ ہے، ناروے میں پیش آیا قرآن سوزی کا حالیہ واقعہ بھی اسی کا مظہر ہے، یوروپ کے مختلف اداروں، ذرائع ابلاغ اور با اثر شخصیات کے درمیان سب سے زیادہ ’’اسلامو فوبیا‘‘ زیر بحث رہتا ہے۔انٹرنیٹ کے ایک سائٹ پر گزشتہ دنوں ایک آرٹیکل دیا گیا تھا جس کا عنوان یوں تھا’’ اسلام کا خطرہ-یوروپ میں شریعت پیش قدمی کررہی ہے‘‘ اس مضمون میں وہ سب کچھ شامل ہے جس سے لوگوں کو اسلام سے متنفر او رخوف زدہ کیا جاسکتا ہے، اسلام سے خوب خوف زدہ کرنے کے بعد لکھا گیا ہے کہ اگر کسی ملک میں اسلام کا شرعی نظام نافذ ہوگیا تو اس کا مطلب ہوگا: ایک ایسی سوسائٹی کا قیام جہاں ہم جنس پرستوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے، جہاں شادی کے بغیر جنسی تعلقات رکھنے والوں کو کوڑے مارے جاتے ہیں اور زانیوں کو سنگسار کیا جاتا ہے، جہاں پیغمبر اسلام اور قرآن پر تنقید کرنے والے مسلمانوں یا غیر مسلموں کو جان سے ماردیا جاتا ہے، جہاں ملحدوں کو قتل کردیا جاتا ہے، جہاں معمولی غلطیوں پر بیویوں کی پٹائی کی جاتی ہے، جہاں آنکھ کے بدلے آنکھ نکال دی جاتی ہے، جس میں چوروں کے ہاتھ کاٹ دئے جاتے ہیں خواہ وہ مرد ہوں یا عورت۔ جس میں قزاقوں کو یا توسولی پر چڑ ھادیا جاتا ہے یا ان کے اعضاء کاٹ دئے جاتے ہیں۔ سائٹ پر شائع کئے گئے ا س مضمون کی ایک ایک سطر سے اسلام کے خلاف نفرت وعداوت جھلکتی ہے۔آخر یوروپ اسلام سے اس قدر خوف زدہ کیوں ہے۔ بسا اوقات قوموں کے طرز عمل اور دوسرے کے ساتھ ان کے برتاؤ پر تاریخی قوت ِحافظہ اثر انداز ہوتا ہے، بین الاقوامی تعلقات سے متعلق علم نفسیات میں اس بات کو لے کر زبردست تحقیق چل رہی ہے کہ دوسری اقوام پر فکری اور آئیڈیالوجی یلغار اور میڈیائی حملوں میں تاریخی قوت حافظہ کس قدر اثر ا نداز ہوتا ہے۔ اسلام کے تعلق سے اہل یوروپ کے ساتھ مسلمانوں کی کشمکش اور تصادم کی طویل تاریخ ہے،جواب تک مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ یوروپ کے برتاؤ پر اثر انداز ہورہی ہے،تاریخی طور پر اسلام کی اہل یوروپ کے ساتھ کشمکش کے درج ذیل عوامل تھے:

(۱) مسلمان اور اہل یوروپ کو ایک دوسرے سے قریب کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ عیسائی مذہب کے پیروکار اہل یوروپ کا عقیدہ تھا جس کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں، مریم ؑخدا کی بیوی اور تین خداؤں کا اقرار۔ ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ مسلمانوں کے لیے ہرصورت میں ناقابل قبول تھا، جس کے سبب عیسائیت اور اس کے پیروکاروں کے لیے اسلام ناقابل قبول ہوگیا۔
(۲) اہل یوروپ اور اسلام کے درمیان جغرافیائی اور معنوی دوری اور اہل یوروپ کی حقیقت ِاسلام سے ناواقفیت، تاریخی طور پر اسلام اور یوروپ کے درمیان دوری یا تصادم کے منجملہ اسباب میں یہ ایک اہم سبب تھا۔ حقیقی اسلام سے ناواقفیت سے مختلف سیاسی ومعاشی مفادات وابستہ تھے۔یہ سب سے بنیادی مسئلہ تھا جو اسلام کے سلسلہ میں یوروپ کو درپیش تھا۔ یوروپی عوام اس بات سے بالکلیہ ناواقف تھے کہ اسلام کے وجود وبقا کا راز کیا ہے، کیتھولک یوروپ میں اسلام سے ناواقفیت کا مسئلہ روز بروز شدت اختیار کرتا گیا، اس لیے کہ اس وقت یوروپ کے بیشتر دانشور اور تعلیم یافتہ افراد پادری اور مذہبی رہنماؤں پر مشتمل تھے جو کلیسا کے نظام سے وابستہ تھے اور حد سے زیادہ متعصب اور جانب دار اور اسلام سے شدید بغض وعداوت رکھتے تھے۔ یہ لوگ اس خوف سے بھی اسلام کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے تھے کہ کہیں ان کو آلودگی اور گندگی آنہ گھیرے، علاوہ ازیں ساتویں آٹھویں اور نویں صدی عیسوی کے دوران متعصب کیتھولک مذہبی رہنماؤں کی جانب سے اسلام کے خلاف کئے گئے پروپیگنڈہ کے علاوہ اہل یوروپ اسلام کے تعلق سے کچھ نہ جانتے تھے۔یہ بات طے شدہ ہے کہ عیسائیت کے اقتدارکے زمانہ میں یوروپ محض بغض وعداوت کے سبب پیغمبر اسلام کی شان میں زبردست گستاخیاں اور نازیبا حملے کرتا رہا۔

(۳) اسلام اور اہل یوروپ کے درمیان بغض ونفرت کا ایک اہم سبب صلیبی جنگیں اور ان کے ما بعد کے اثرات ہیں، عہد وسطیٰ میں اسلام یوروپ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا، سیاسی سطح پر بھی اور فوجی وعسکری سطح پر بھی، صلیبی جنگوں کے زمانہ میں یوروپ کا اسلام کے ساتھ تصادم انتہا کو پہونچ گیا۔ بالخصوص بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں کشمکش بام عروج کو پہونچ گئی۔ ایک طرف صلیبی جنگوں کے نتیجہ میں یوروپ اسلام سے ٹکراؤ کا متحمل نہ تھا اور دوسری جانب اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور تیز رفتار اشاعت نے اہل یوروپ کے دلوں میں خوف کی نفسیات پیدا کردئے تھے، جہاں تک معاشی اور اقتصادی سطح کی بات ہے تو یوروپ کو اپنی تجارت کے فروغ کے لیے مسلمانوں کو ساتھ لینا ضروری تھا، چنانچہ یوروپ نے نویں صدی عیسوی ہی سے مسلمانوں کے ساتھ آپسی لین دین اور معاملات کا سلسلہ جاری رکھا۔ موجودہ صورت ِحال در اصل صلیبی جنگوں کے ماباقی اثرات کی پیداوار ہے۔ یوروپ اب تک خود کو صلیبی جنگوں کے خوف سے باہر نہ لاسکا۔
(۴) اسلام اور یوروپ کے درمیان دوری کا ایک سبب سا مراج ہے، یوروپ اور مغربی طاقتوں نے عالم اسلام کو اپنے استعماری عزائم کی آماجگاہ بنالیا اور یہ استعمار جہاں فکری اور معاشی نوعیت کا تھا وہیں سیاسی اور فوجی تھا۔ ایسسکو کے ڈائرکٹر عبد العزیز بن عثمان التویجری شیلی یونیورسٹی میں دئے گئے اپنے ایک محاضرہ میں کہتے ہیں کہ بیسویں صدی کے دوران عالم اسلام سا مراجی قوتوں کے زیر قبضہ رہا وہ مختلف حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ عالم اسلام کی عوام معاشی اور سماجی لحاظ سے حد درجہ پسماندہ تھیں۔ اس پسماندگی کے اسباب اور اس کے اثرات عرب ملکوں کے قیام کے بعد اب تک باقی ہیں۔ عالم اسلام اس وقت کی ہمہ گیر پسماندگی کے منفی اثرات سے اب تک خود کو علیحدہ نہ کرسکا، جس کے نتیجہ میں پورا خطہ پے در پے سیاسی بحرانوں کا شکار ہوتا رہا، اس کی معاشی پسماندگی بھی روز افزوں ہوتی گئی، ڈاکٹر تویجری نے کہا کہ قریب دو صدیوں سے زائد عرصہ تک مختلف مغربی ممالک کے سیاسی نظام اسلام اور اسلامی اداروں کے خلاف صف آراء رہے۔ طویل عرصہ تک مغرب نے جس اسلام مخالف پالیسی کو اپنا یا عالم اسلام پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔اس وقت یوروپ اور عالم اسلام کے درمیان جس قسم کی کشمکش پائی جاتی ہے اس کی ساری ذمہ داری مغربی ممالک پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے ایک عرصہ تک اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں جاری کھیں۔معروف مفکر سلیم العواء اپنی کتاب’’ الاسلام والعصر‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ہم مسلمانوں کے ساتھ مغرب کا معاندانہ سلوک کوئی عارضی شئ نہیں ہے، بلکہ ایک عام طرز فکر ہے جس کا مقصد سارے انسانوں کے ذوق کو تبدیل کرکے مغربی ذوق کے تابع کرنا ہے، کھانے پینے اوڑھنے پہنے اور طرز بودوباش میں سب کا طرز زندگی مغربی سانچہ میں ڈھل جائے، حتی کہ آخر کار فکر وعقیدہ میں بھی مغربی معیار ہی کو اپنایا جانے لگا۔مغربی کاوشوں کا اصل نشانہ مسلمانوں کا فکر عقیدہ اور ان کا ایمان ہے۔ ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا پر آنے والے تجارتی اشتہارات کے ذریعہ اس کے لیے ماحول تشکیل دیا جارہا ہے، مغرب کی اس جدوجہد کا اثر یہ نکلے گا کہ سارے انسانوں کا ذوق اورسب کی سوچ ایک ہوجائے گی۔ سب ٹی شرٹ اور کوکا کولا کے عادی ہوجائیں گے، صلیبی جنگوں کے عہد کے حامیوں کا نیا حملہ عقل کے بجائے جذبات اور خواہشات کو نشانہ بناتا ہے اور استعماری ورثہ کو دوبارہ جگانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر ایسے اتحادوں کو جنم دیتاہے جن کا مقصد اسلحہ کی فیکٹریوں کی تیاری اور فوج کا بے تحاشہ اضافہ ہو ہے۔
عالم اسلام کے ساتھ مغرب کی عداوت کو دو آتشہ کرنے میں تحریک استشراق (Orientalism) کا اہم رول رہا ہے۔ استشراق ایک ایسی فکری تحریک کا نام ہے جس سے وابستہ افراد مشرقِ اسلامی کے تعلق سے اپنی تحقیقات منظر عام پر لاتے ہیں جن میں مشرقی تہذیب ،وہاں کے مذاہب، ادب، زبان اور کلچر پر ریسرچ کیا جاتا ہے، عالم اسلام کے تعلق سے مغرب کے معاندانہ ومتعصبانہ افکار کو فروغ دینے میںتحریک استشراق کا بھر پور حصہ رہا ہے۔ مستشرقین، اسلام کے ساتھ عداوت کو تاریخی طور پر صلیبی جنگوں سے جوڑتے ہیں، استشراق میں لاھوتی استشراق انتہائی خطرناک ہے جس کا آغاز 1312ء کو ویانا کلب کے ایک تحقیقی کامپلکس سے پاس کی گئی ایک قرار داد کے بعد ہوا۔ لاھوتی استشراق کے آغاز کا بنیادی مقصد نبی کریم کی رسالت اور قرآن کریم کی صحت وصداقت کو مشکوک کرنا نیز فقہ اسلامی اور عربی زبان کی اہمیت کو ختم کرکے مسلمانوں کو اپنے مذہبی مسائل میں یہودی مصادر پر انحصار کرنے کے لیے مجبور کرنا اور مسلمانوں کو عیسائی بنانا تھا ان سب سے ہٹ کر تحریک استشراق کے سیاسی مقاصد بھی تھے، مثلاً مسلمانوں کا ملی شیرازہ منتشر کرنا اور فصیح عربی زبان کو متروک کرکے اس کی جگہ عوامی بول چال کے لہجوں کو فروغ دینا وغیرہ۔ تحریک استشراق کے اسلام مخالف پس منظر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مستشرقین کی بیشتر کتابیں اسلام اور پیغمبر اسلام کے تعلق سے انتہائی منفی افکار سے بھری ہوئی ہیں، مثلاً یہ کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے۔ قرآن مجید نے سابقہ آسمانی مذاہب کے اثرات قبول کرلیے ہیں۔ فولٹر مستشرق نے تو محض پوپ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے شانِ رسالت میں گستاخی تک کی۔ بعض مستشرقین کی کتابوں میں اسلام اور مسلمانوں اور بالخصوص عربوں سے متعلق حقائق کو بالکل الٹ دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں استشراقی اسلامی انسائیکلو پیڈیا کو بطور نمونہ کے پیش کیا جاسکتا ہے۔ اسلام پر یلغار کرنے والی مستشرقین کی کتابوں کی طویل فہرست ہے، مغرب نے مستشرقین کی جماعت کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں سے تعلق رکھنے والی ہر چیز سے متعلق منفی مواد فراہم کرلیا۔ اس کے لیے اس نے بڑے بڑے تحقیقی ادارے قائم کئے اور خطیر مشاہرے دے کر قابل شخصیات کی خدمات حاصل کیں۔تحریک استشراق ہمیشہ یوروپ کی استعماری حکومتوں سے مربوط رہی۔ بیشتر مستشرقین مغربی ملکوں کے مفادات کے لیے کام کرتے تھے۔ جس طرح تحریک استشراق یوروپ کی سیاسی اتھاریٹی سے مربوط رہی اسی طرح وہ عالم اسلام پر تہذیبی یلغار کے لیے قائم کی گئی عیسائی مشنریوں سے بھی مربوط رہی، عیسائی مشنریوں کا قیام صلیبی جنگوں کے بعد عمل میں آیا جن کا مقصد مسلمانوں کو عیسائیت میں داخل کرکے انہیں یوروپی استعمار کا غلام بنائے رکھنا تھا۔تحریک استشراق نے عیسائی مشنریوں کے لیے راہ ہموار کردی، تحریک استشراق اورعیسائی مشنریوں کے درمیان گہرا گٹھ جوڑ ہے حتی کہ عیسائی مشنریوں میں کام کرنے والے ہر کارکن کے لیے مستشرقین کی اسلام مخالف کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ مغربی حکمرانوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ عالم اسلام سے اسلامی تہذیب وثقافت کا صفایا کردیاجائے، تحریک استشراق ہو کہ عیسائی مشنریاں یہ فکری تحریکیں ہیں جو عالم اسلام کو فکری لحاظ سے مغربی سانچہ میں ڈھالنا چاہتی ہیں۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ’’ عرب علاقہ میں اسلامی قدروں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران مغرب عرب ملکوں کی حکومتوں کی تبدیلی پر زور دیتا رہا جب کہ حکومتوں کی تبدیلی سے زیادہ اسلامی اقدار کی تبدیلی اہم ہے‘‘۔ اس سب سے ہٹ کر مغربی لادینی تصورات بھی اہم رول ادا کررہے ہیں۔ گلوبلائزیشن، لبرل ازم،سیکولرازم اور مغرب کے دیگر مادی فلسفے عالم اسلام کو کمزور کرنے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔مغرب ہر اس دانشور یا نام نہاد مفکر کو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے اور اعزازات سے نوازتا ہے جو اسلام اور اسلامی افکار کے خلاف زہر افشانی کرتا ہے۔ چنانچہ سلمان رشدی کو سَر کاخطاب دیا جانا اسی طرح دیگر اسلام مخالف شخصیات کو نوبل انعام سے نوازنا عام بات ہے۔ 1917ء میں برطانوی حکومت نے فرقۂ بہائیہ کے نام نہاد نبی احمد البھا کو محض اس وجہ سے ایوارڈ عطا کیا تھا کہ اس نے اسلامی جہاد کو کالعدم قرار دیا تھا۔
[email protected]