پروین کمال
یورپی تاریخ میں “D.Day” (Decision Day) ایک یادگار دن مانا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس دن یورپ میں امن قائم کرنے کے لئے اتحادی فوجوں کی مہم شروع ہوئی تھی۔ رواں سال اس مہم کے 80 سال پورے ہونے کی خوشی میں یہ تقریبات انتہائی پرجوش اور پرامن طریقے پر منائی گئیں۔ جس میں یورپ کے پورے صدور کے علاوہ صدر امریکہ جوبائیڈن نے بھی شرکت کی۔ اس تقریب کا اول تو مقصد یہ تھا کہ ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے جنھوں نے اس جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے دے کر یورپ کے عوام کو نازیوں کے چنگل سے آزاد کرایا۔ یورپ کے لئے یہ ایک امید و بیم کا دن تھا۔ کیوں کہ چار سال نو ماہ سے جاری اس خونریز جنگ کا خاتمہ ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ جس کی دہشت سے نہ صرف یورپ بلکہ سارا عالم اس کی زد میں آچکا تھا۔ اس خوفناک جنگ کے قہر سے دنیا کو بچانے کے لئے اتحادی فوجیں حرکت میں آگئیں اور 6 جون 1944 ء کو طوفانی انداز میں فضائی اور سمندری راستے سے فرانس کے ایک علاقے “Normandy” کے ساحل پر اُتریں اور جنگ کے خاتمے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ مسلسل گیارہ مہینے تک جنگ جاری رہی اور انجام کار نازی حکومت نے ہتھیار ڈال دیئے۔ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہوگا وہ وقت جب ایک شاہانہ حکومت مخالف فوج کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے سرنگوں ہوکر ہتھیار ڈال دیئے۔ جنگیں تو رسوائیاں اور ذلتیں ہی دیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ملک اور قوم کی تباہیاں اور بربادیاں، جس سے برسوں خلاصی پانا مشکل ہے۔ پھر بھی جنگیں اس دنیا سے ختم نہیں ہوں گی۔ غرض کہا جاتا ہے کہ فرانس میں ’’نارمنڈے‘‘ کے ساحل پر شروع کیا گیا یہ آپریشن تاریخ کا سب سے بڑا فضائی، بحری اور زمینی حملہ تھا۔ جس کے اثرات آج بھی یورپ میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ اُس دور میں نارمنڈے کے تمام علاقوں میں ہٹلر کی نازی افواج کا قبضہ تھا جو اپنے مشن (نازی ازم) کو پھیلانے کے لئے ہر وہ قدم اُٹھالیتے تھے جو انسانیت کے خلاف ہوتا تھا۔ سابق صدر امریکہ بارک اوباما اپنے دور اقتدار میں ’’ڈی ڈے‘‘ تقریبات میں شرکت کی غرض سے جب یورپ آئے تھے، اُنھوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’دوسری جنگ عظیم دراصل برائی کے خلاف عالمی سطح پر جدوجہد کا نام ہے۔ اس جنگ میں دنیا بھر کی اقوام نے مل کر ایک ایسے نظریہ (نازی ازم) کو شکست دی جو جمہوریت کا دشمن تھا، اگر وہ ترقی پاجاتا تو انسانی زندگیاں زندہ لاشیں بن جاتیں‘‘۔ ہر سال یہ تقریب 6 جون کو اتحادی افواج کے فرانس کے ساحلی علاقوں میں اُترنے کے دن کی یاد میں منائی جاتی ہے جہاں نازی فوجوں کی کثیر تعداد موجود تھی جنھیں اتحادی فوجوں نے پسپا کردیا۔ یہ ایک بہت بڑا عسکری آپریشن تھا جس کے خلاف لڑنا مشکل تھا۔ نازی فوجیں اتنی طاقتور تھیں کہ انھیں شکست دینا ناممکن سی بات تھی۔ اس تنظیم کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چار سال نو ماہ تک وہ یورپ کے آگے ڈٹی رہیں۔ حالیہ اس تقریب میں چند ایسے فوجیوں نے بھی شرکت کی جنھوں نے نازی ازم کو ختم کرنے کے لئے جنگ میں بہت بڑا رول ادا کیا تھا۔ ان کی عمریں اب سو سال سے تجاوز کرگئی ہیں۔ عمر کے تقاضے کے باوجود آج بھی ان کے حواس اس قابل ہیں کہ ماضی کی یادوں کا اعادہ کرسکیں۔ اب یہ بات دوسری ہے کہ ان کا لب و لہجہ کس قدر بدلہ ہوا ہے۔ آواز میں لرزش اور کسی چیز کو دیکھ کر جلد پہچاننا ان کے لئے مشکل ہے۔ لیکن دماغ کے پردوں پر ثبت وہ مناظر ابھی تک تازہ ہیں۔ اس موقع پر مختلف مقامات پر جہاں اتحادی فوجیں اُتری تھیں، وہاں عوام کا جم غفیر موجود تھا۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ اس علاقے میں اتحادی فوجیں سب سے پہلے کہاں اُتری ہوں گی۔ اس خاص موقع پر جنگ میں استعمال کی گئی گاڑیاں بھی یادگار کے طور پر پیش کی گئیں۔ اس وقت بنی گاڑیاں اب نایاب ہوتی جارہی ہیں۔ جنگ کے دوران گاڑیوں کی کمی بہت بڑا مسئلہ بن گئی تھی۔ ہٹلر نے فوری طور پر کچھ نئی گاڑیاں بنوائیں جس میں پٹرول کی کافی بچت ہوجاتی تھی۔ ان گاڑیوں کی فہرست میں سب سے پہلا نام ہے “Volks Wagen” جو جنگی حالات میں ان کے لئے بہت کارآمد ثابت ہوئی۔ ہٹلر نے اپنی کارکردگی اور حکمت عملی سے جرمنی کے بہت سارے مسائل حل کئے۔ وہ ایک اچھا سیاست داں تھا۔ اس کی سیاسی پالیسیوں میں کہیں کوئی ایسا جھول نظر نہیں آیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ ملک دشمن ہے۔ تاہم پورے یورپ میں نازی ازم پھیلانے کا اسے خبط تھا کیوں کہ اسے اپنے آریائی ہونے پر فخر تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ پورے یورپ پر اس کے قائم کئے گئے نظام اور قاعدے قانون چلیں لیکن آج کی باشعور دنیا نے اس نظام کو رد کردیا، وہ آزاد زندگی کے خواہشمند تھے۔ مگر آواز اُٹھانے والوں کو کڑی سزائیں دی جانے لگیں۔ جب ظلم حد سے زیادہ بڑھ گیا تو ساری دنیا اس کے قانون کو ختم کرنے کے لئے کمربستہ ہوگئی اور یہی حالات اس کی موت کا باعث بنے۔ دنیا میں ایسے ہزاروں انقلابی آئے لیکن کسی نے شاید ایسا انتہائی قدم نہیں اُٹھایا ہوگا۔ ہٹلر کی ذہنیت کچھ اور تھی وہ اپنے نظریہ کو ناکام ہوتا برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ کہتے ہیں اس کی چھٹی حِس بہت تیز کام کرتی تھی، جب اسے اندازہ ہوگیا کہ شکست یقینی ہے تو اس نے اتحادی فوجیوں کے آگے بے عزتی سہنے سے بہتر اپنی ہلاکت کو ترجیح دی۔ 30 اپریل 1945 ء کو اس نے اپنی محبوبہ سمیت خودکشی کرلی۔ یہ اس کی خودداری کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ اس کی موت کے ٹھیک ایک ہفتے بعد 8 مئی 1945 ء کو جنگ بندی ہوگئی اور یوں نازی دور کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کا نام صرف یورپی تاریخی میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی تواریخ میں موجود ہے۔