یوم الترویہ پر حجاج کرام کا منیٰ کی جانب سفر جاری

,

   

مکہ مکرمہ : اللہ کے مقدس گھر کے زائرین آج جمعہ کی صبح 8 ذی الحجہ 1445ھ کو ’یوم ترویہ‘ گذارنے کے لیے منیٰ پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ لبیک الھم لبیک لا شریک لک لبیک کی تلبیہ کا ورد کرتے حجاج کرام سنت رسول ؐ زندہ کرتے ہوئے منیٰ میں یوم ترویہ کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔اسلامی شریعت نے واضح کیا ہے کہ حجاج کا ترویہ کے دن احرام کی حالت میں منیٰ پہنچنا اور عرفات میں قیام کے لیے راستے میں رات گذارنا سنت سے ثابت ہے۔عمرہ مکمل کرنے والے عازمین حج مکہ کے اندر ہوں یا باہر اپنی جگہوں پر احرام باندھ کر نکلتے ہیں۔ 9 ذی الحجہ کو طلوع آفتاب تک وہاں رہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ عرفات کے لیے چل پڑتے ہیں۔ میدان عرفات میں رکن اعظم کی ادائی کے بعد حجاج کرام دوبارہ منیٰ کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔10،11،12 اور13تاریخ کو رات مزدلفہ میں گذارتے ہیں۔ حجاج کرام تین دن وہاں رمی جمرات کرتے ہیں۔منیٰ مکہ مکرمہ اور مزدلفہ کے درمیان واقع ہے۔ یہ مسجد الحرام کی حدود میں ہے جومسجد حرام سے شمالی اور جنوبی دونوں طرف سات کلو میٹر پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے۔اس کے ایک طرف جمرہ عقبہ اور دوسری طرف مشعر مزدلفہ اور محسرواقع ہیں۔سعودی پریس ایجنسی ’ایس پی اے‘ کے مطابق منیٰ کو ایک تاریخی اور مذہبی حیثیت حاصل ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شیطان کو کنکریاں ماریں۔ اس کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے قربانی دی۔ آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنتوں کو زندہ کیا اور حلق کرایا(سر کے بال منڈوانا)۔ اس کے بعد قیامت تک یہ ابدی سنتیں مسلمان ہر سال حج کے موقع پر زندہ کرتے رہیں گے۔ مسلمان رمی جمرات کرتے ہیں، قربانی کے جانور ذبح کرتے اور سرکے بال منڈواتے ہیں۔مشعر منیٰ اپنی تاریخی یادگاروں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ اس میں تین جمرے مشہور مقامات ہیں جہاں شیطانوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔اس کے علاوہ مسجد الخیف ہے۔ اس مسجد کا نام بلندی پر موجود پہاڑی کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔مسجد الخیف جمرہ صغریٰ کے قریب واقع ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی۔ یزید بن اسود رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے موقع پر مسجد الخیف میں آئے جہاں آپ ؐنے نماز فجر ادا کی۔یہ مسجد آج بھی موجود ہے اور سنہ 1407ھ میں اس کی دوبارہ توسیع کی گئی تھی۔منیٰ میں پیش آئے مشہور تاریخی واقعات میں بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ شامل ہیں۔ 12 ہجری کوبیعت عقبہ اولیٰ ہوئی جس میں اوس اور خزرج قبائل کے 12 مرد و خواتین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی۔اس کے بعد 13 ہجری کے حج کے موقع پر بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی جس میں اہل مدینہ کے 73 مرد اور دو عورتوں نے رسول اللہ ؐ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ یہ جگہ جمرہ عقبہ کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہاں پر عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور نے سنہ 144 ہجری میں مسجد بیعت تعمیر کی تھی جو کہ کوہ ثبیر کے نیچے واقع ہے۔امام بخاری نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ’ہم منیٰ کے غار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے جب آپ پر سورہ المرسلات نازل ہوئی۔ آپ ؐ نے وہاں پر تلاوت فرمائی۔خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی حکومت نے منیٰ کو خصوصی توجہ اور اہمیت دی۔ حجاج کرام کی سہولیات کے لیے جدید ترین سرویسز مہیا کیں تاکہ ضیوف الرحمان کو عبادت کی ادائی اور وہاں پر وقت گذارنے میں کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے۔منیٰ میں حجاج کرام کے لیے سکیورٹی، طبی، کیٹرنگ، نقل و حمل اور دیگر نقائص سے پاک سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔