ووٹوں کے استعمال میں خصوصی حکمت عملی درکار، سیکولر ووٹوں کی تقسیم سے بی جے پی کا فائدہ
نئی دہلی 21 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) عام انتخابات کی مہم شدت اختیار کرچکی ہے۔ بی جے پی، کانگریس اور دوسری جماعتیں اپنی اپنی کامیابیوں کے امکانات ظاہر کررہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ آزاد امیدواروں کو بھی کامیابی کی اُمید ہے لیکن ایک بات ضرور ہے کہ فی الوقت ساری نظریں ریاست اترپردیش پر مرکوز ہیں۔ جہاں پارلیمنٹ کی 80 نشستیں ہیں۔ ان نشستوں میں سے کوئی جماعت یا اتحاد 50 نشستیں حاصل کرتی ہے یا کرتا ہے تو مرکز میں اسی کی حکومت ہوگی۔ 2014 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی نے 71 اور اس کی حلیف اپنا دَل نے 2 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور ساری دنیا نے دیکھا کہ اقتدار پر نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی قابض ہوگئے لیکن اب حالات 2014 ء جیسے نہیں رہے۔ اس وقت مسلم ووٹ تقسیم ہوکر رہ گئے تھے۔ اگر اس مرتبہ مسلم رائے دہندے عقلمندی و دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد کے امیدواروں کے لئے متحدہ طور پر اپنے ووٹوں کا استعمال کرتے ہیں تو بی جے پی کو مرکز پر فائز ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ اترپردیش کے مسلمانوں کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ ان کے ووٹوں کی تقسیم کا مطلب بی جے پی کا فائدہ اور بی جے پی کا اقتدار ہے اس لئے انھیں چاہئے کہ جن حلقوں میں کانگریس امیدواروں کا موقف مضبوط ہو وہاں متحدہ طور پر ان کے حق میں ووٹوں کا استعمال کریں اور مابقی نشستوں پر سماج وادی پارٹی ۔ بہوجن سماج پارٹی کے امیدواروں کی تائید کریں۔ اس سے ان کے ووٹ تقسیم ہونے کے امکانات باقی نہیں رہیں گے۔ اس کے باوجود پرانا رائے کا کہنا ہے کہ مسلم ووٹ کی تقسیم سے بی جے پی کو ہی فائدہ ہوگا۔ سیکولر جماعتوں کا نقصان ہوگا۔ اگر دیکھا جائے تو یوپی میں کانگریس سے کہیں زیادہ بہتر موقف ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد کا ہے۔ ان حالات میں چند نشستوں کو چھوڑ کر اکثر نشستوں پر مسلم رائے دہندوں کو ایس پی ۔ بی ایس پی اتحاد کے لئے ووٹوں کا استعمال کرنا ہوگا۔ تب ہی بی جے پی کو خاک چٹائی جاسکتی ہے۔ تاہم یوپی کے بعض گاؤں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ کانگریس کے حق میں مسلمانوں کے ووٹ استعمال کرنے کے امکانات روشن ہیں۔